انسان ہمیشہ اپنی منزل کی طرف سفر کرتا رہتا ہے ۔اس سفر کے دوران Reminders آتے رہتے ہیں، جیسے ڈاکٹر مزمل اپنے کتاب Reminders میں لکھتے ہیں ،ہم بہت سی زمینوں کی سیر کرتے ہیں، پیسہ بناتے ہیں اور بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں لیکن ہمارا سفر اللہ یعنی مالک ارض و سماء کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے اور اسی کی طرف لوٹنے پر ختم ہو جائے گا۔نیک لوگ ہمیں تلقین کرتے ہیں کہ اپنی زندگیوں کو سنواریں اور قبر یعنی بعد از مرگ زندگی کو ہمیشہ یاد رکھیں۔اہم یہ ہے کہ نظام زندگی و سماجیات ایسے تشکیل و تعمیر فرمائیں کہ اپنے سوچ وفکر اور روزمرہ کے اعمال سے خبردار رہیں تاکہ زندگی کی شام میں واپسی کے سفر میں کامیاب ہوں۔
دنیا کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کے سامنے سوالات کے اوراق نہ ہوں۔ ہماری زندگیاں مسلسل سوالات کی زد میں ہیں۔کیا، کب، کیوں ،کیسے اور اس جیسے کئی سوالات جا بجا زندگی کے کئی مواقع پر استقبال کرتے ہیں۔یہ حسن زندگی ہے۔تحریک کا موَجب بھی ہےاور خود احتسابی کے عمل کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے۔
اکثر ان سوالات کی کثرت ہمیں حقیقت سے نظریں چرانے پر مجبور بھی کر دیتی ہے۔پچھلے کچھ مضامین مسلسل سوالات اٹھانے پر مرکوز رہے، کہ سوالات ہی زندگی ہے حقیقی تبدیلی کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور کی بیداری ضروری ہے اب زندگی کے وسیع تر مواقع میں کچھ نئے سوالوں کے ساتھ ان کے جوابات کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔
ایک ننھی طالبہ سے پوچھا کہ قرآن پاک پڑھ رکھا ہے تو بولی کے قاری صاحب سے پڑھا ہے۔پوچھا کیا روزانہ پڑھتی ہو؟جواب ملا نہیں۔پوچھا کیوں ؟تو بولی کیونکہ سیپارے بہت اونچے رکھے ہوئے ہیں ان تک پہنچنے ہی نہیں ہوتا۔ایک لمحے کے لیے جیسے زمان و مکان میرے لیے بھی ساکن ہو گئے۔ایسے ہی تو سورت اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو لپیٹ کر رکھ دیا گیا ہے۔میرے لئے تو بھی قرآن پاک اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت اونچے پڑے ہیں اور ہر عام شخص کے لیے مخملیں غلافوں میں لپٹا قرآن پاک،شیشے کی الماریوں میں سجی بخاری شریف کی جلدیں بہت دور پڑی ہیں،حقیقتا ہمارےسر کے اوپر تو موجود ہیں لیکن ہمارے حلق سے نیچے نہیں اتر رہیں۔دنیا کی امامت اور سیادت کا فریضہ ہمارے پاس تبھی رہے گا جب اللہ کی رسی کو شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم اور لمحہ موجود کے زندہ سوالات کے جوابات فراہم کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے ورنہ خدا ہماری جگہ صلاحیت و استعداد اور اعتماد و دانش مندی کی بنیاد پر کسی اور قوم کو لے آئے گا اور یہ اس رب کائنات کے لیے چنداں مشکل نہیں۔
آج کا نوجوان مرد و عورت جن سوالات کا سامنا کر رہا ہیں، میڈیا وار اور علم و ترقی کی عام آدمی تک رسائی کی وجہ سے مواقع دستیاب ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی غلط فہمیاں ،شکوک و شبہات ،بے چینیاں بڑھ رہی ہیں ان میں خدا کے وجود ،اسلام کے دین حق ہونے کے باوجود فرقہ وارانہ اختلافات ،دین کی کاملیت ،سیرت کا آج کی دنیا میں کیا کنکشن ہے ان تمام مضامین کو سمجھنے کے لیے آج کے تناظر کو بھی لینا ہو گا آج کی ضروریات کو سامنے رکھنا ہو گا۔مثلا ٹیکنالوجی کے اس دور میں جبکہ نالج ایکسپلوژن ہو چکا ہے تو کونسی معلومات کو کیسے استعمال کیا جائے تاکہ ایک معیاری زندگی گزاری جا سکے جو دین و دنیا میں کامیابی کی ضامن ٹھہرے۔معاشرتی زندگی کے نئے معیارات کو کس طرح اسلام کا پیرہن پہنایا جا سکے ۔سودی نظام معیشت سے کیسے بچا جا سکے اس کے لیے قرآن و سنت کے سمندر کی گہرائی کا تعین کرنے کے لیے اس میں غوطہ زن ہونا ہو گا۔
عشق مصطفیٰ کے شعور نبوت میں نہ بدلنے کی وجوہات میں علماء کی دقیق تحریریں جن کو عام دماغ سمجھنے سے قاصر ہیں ،فضائل پر ایسا زور کے بے ادبی کے خوف سے ذرا آگے پیچھے سوچنے کی بھی ممانعت ہے،متوازن دین میں فرقہ بازی کو ہوا دینے والے عناصر جیسی وجوہات نے لوگوں کے ذہنوں کو اور بھی پراگندہ کر دیا ہے۔
تیری ذات میں ہے اگر
شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نان شعیر
پر ہے مدار قوت حیدری
ہمارا پیغام ہے کہ انسانوں کے پاس خود کو بدلنے کے کئی مواقع آتے ہیں اور کئی بار دوسروں کو بدلنے کے بھی امکانات موجود ہوتے ہیں کردار ،اعمال اور شخصیت کو بدلنے کے لیے ایسے گلاب تلاش کرنے ہوں گے جن کے صحبت کاملہ پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لے جائے۔ اولیاء اللہ یعنی نیک اور قواعد و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنے والے ہستیاں بھلے وہ عام مرد و خواتین ہوں وہ گلاب ہوتی ہیں جن کی خوشبو تادیر ہماری سانسوں میں رچی بسی رہتی ہیں ۔ہماری ٹرانسفارمیشن کا عمل ان بہترین لوگوں سے بھی وابستہ ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ حرکت کی ضرورت بھی موجود ہے کیونکہ پانی کھڑا رہتا ہے تو بدبو دینے لگتا ہے ہماری انفرادی سستی اجتماعی سست روی کا باعث بن جاتی ہے۔ اور یوں معاشروں میں بیماریاں پھیلتی ہیں ہم کرونا وائرس اور کینسر و دیگر امراض پر قابو پانے کے لئے لیبارٹریاں قائم کرتے ہیں مگر روحانی و اخلاقی امراض کی تشخیص اور علاج و میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ہیں۔