سولہ دسمبر اس دن بہت سارے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ سانحہ مشرقی پاکستان کی صورت ایک پورے ہنستے بستے ملک کا دو لخت ہونا اور ہر صورت صرف مسلمانوں کی جان کا مال کا سکون کا ضائع ہونا۔ لوگوں کا اپنی سرزمین کو چھوڑنا اور عظیم اسلامی مملکت کا غیر مسلموں کے سامنے ہتھیار ڈالنا۔ جان جان آفرین کے سپرد کر دینے کی شدید خواہش کے باوجود دشمن کی قید میں چلے جانا۔
اور پھر مسلمانوں کا ہی مسلمانوں کی شکست پر جشن منانا اور ہم سب کا پورے واقعہ کو دشمن کی سازش قرار دے کر اس سے جان چھڑا لینا۔
مگر اس موضوع پر تحریر کی جانے والی ہر کتاب ہر تجزیہ ہر رائے ایک بات ہر متفق ہے کہ اگر یہ دشمن کی سازش تھی تو آلہ کار ہم تھے۔ صرف اور صرف اپنی اپنی انا اور غصہ کو قابو میں رکھ کر ایمان عقل فہم حق اور انصاف کی بنیاد پر فیصلہ سازی کی جاتی تو ملک کو دولخت ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔ مگر ہم نے ملک گنوا کر کچھ بھی نہ سیکھا انا ضد تکبر اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اس کا نتیجہ ہم سب عوام اجتماعی طور پر بھگت رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ٹی آئی کی مقبولیت: حقیقت یا سراب؟
لیول پلینگ فیلڈ کیوں پی ٹی آئی کا حق نہیں ہے؟
اٹھارھویں ترمیم کیا واقعی خطرے میں ہے؟
سیاسی تربیت میں جمہوریت کیوں نہیں
2014 کا تصور کریں اس دوران ہونے والی انارکی پر غور کریں۔ اس دھرنے کے اہداف پر نظر ڈالیں کہ وہ آخر کیوں کیا جا رہا تھا۔ کیا مہنگائی بڑھ گئی تھی کیا۔ لوڈشیڈنگ تھی کیا۔ حقوق انسانی ادا نہیں کیئے جا رہے تھے۔ اگر اس میں سے کچھ بھی ہدف نہیں تھا تو پھر باقی رہ گئی اناضد ہٹ دھرمی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کئی برس پیچھے چلا گیا اور اسی انارکی کے ماحول میں ایک اور 16 دسمبر ہوگیا۔
معصوم بچوں کی زندگیاں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئ۔ دہشت گرد کون تھے یہ سب جانتے ہیں ان کی حمایت کون کرتا تھا۔ سب جانتے ہیں انا ضد اور ہٹ دھرمی سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ جو بچے شہید ہو گئے ان کے والدین کا درد وہ ہی جانتے ہیں۔ ان کی کتابیں یونیفارم اور تصاویر اب ان کی یادوں کا حصہ ہیں۔ ہم ان بچوں کو تحفظ نہ دے سکے مگر آج جو بچے زندہ ہیں جو جوان زندہ ہیں جو مائیں بہنیں بزرگ مرد اپنی زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہیں، ان کو ایک بہتر پاکستان تو دے سکتے ہیں۔
طریقہ بہت آسان ہے۔ مکالمہ وہ مکالمہ جس میں منطق ہو فہم ہو عقل ہو ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی دلیل اور چاہت ہو۔ اگر آپ اہل سیاست یہ سب کر لیں گے۔ چارہ گر چارہ گری کر لیں گے تو زخم لا دوا نہیں رہیں گے۔ پھر پاکستان کی ترقی کا سفر شروع ہو جائے گا اور پاکستان کی کامیابی دہشت گردوں کی ناکامی ہوگی۔ ہم لا علمی میں دہشت گردوں کے آلہ کار بننے سے بچ جائیں گے۔