سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے کارکنوں کو لیول پلینگ فیلڈ سے محروم کر کے کیا ‘‘قبول ہے ، قبول ہے ’’ کی گردا ن پہلی بار ہوئی ؟ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ایک غلطی کا جواز دوسری غلطی کیسی ہوسکتی ہے؟ اسیر اڈیالہ کے حوالے سے ہم پہلے بھی کسی خوش فہمی کا شکار تھے نہ اب ہیں۔ ان کے حوالے سے حسن ظن بھی کچھ خاص نہیں تاہم جب ایک پلے بوائے کی شہرت رکھنے والے عمران خان نے پرتعیش زندگی چھوڑ کر سیاست کی پرخار راہ پرصاف شفاف سیاست کے نعرے کے ساتھ قدم رکھا تو ہم چونکے بھی تھے اور مسکرائے بھی کہ اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی ہم مزاج لوگوں کو ساتھ ملایا اور آگے بڑھنا شروع کردیالیکن بات نہیں بنی اور بنی تو تب بنی جب مقتدرہ کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر بنی گالہ میں الیکٹ ایبلز کے ساتھ معاملات بننے لگے۔ 2018کے انتخابات میں انہیں میدان میں اتارا گیا اور پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ نہیں ہے تو بس عمران خان سامنے نہیں ہے۔ خان صاحب کی فاش غلطیوں اور زعم نے انہیں اڈیالہ جیل کی چاردیواری میں پہنچا دیا ہے جہاں سے انہوں نے باامر مجبوری اپنا انتخابی نشان بلا بچانے کے لئے پارٹی میں الیکشن کی ہدایت کی اور اس ہدایت یوں عمل ہوا کہ پشاور میں کہیں چند درجن لوگوں کا اجتماع ہوا اور پاکستان پیپلز پارٹی سے برآمد ہونے والے گوہر نایاب کو ریاست مدینہ کے اسیرِ اڈیالہ کی جگہ نیا سالار کے طور پر قبول کرنے کی رسم ادا ہوگئی۔
یہ بھی پڑھئے:
اٹھارھویں ترمیم کیا واقعی خطرے میں ہے؟
سیاسی تربیت میں جمہوریت کیوں نہیں
کیا اردو صرف بالی ووڈ فلموں کی وجہ سے زندہ ہے؟
قبول ہے قبول ہے کے شور میں گوہر خان صاحب کو نیا چیئرمین تحریک انصاف بنا دیا گیا، ماننا پڑے گا کہ یہاں بھی خان صاحب نے حامد خان، بیرسٹر ظفر علی اور برسوں کی رفاقت رکھنے والے متعدد سینئر رہنماؤں کے ہوتے ہوئے گوہر خان کو نیا کپتان نامزد کرکے سچ میں سرپرائزدیا۔ مانا کہ یہ بلا بچاؤ الیکشن تھے پھر بھی کوئی طور طریقہ شرم دکھاوا ہوتا ہے۔ دنیا کو دکھانے کے لئے ہی کہیں گتے کے ڈبوں کو بیلٹ باکس بنا کر ووٹ ڈالنے کا ڈرامہ رچا لیاجاتا لیکن یوں کام چلا لیا گیا گویا الیکشن نہ ہوئے ٹوبہ ٹیک سنگھ کی شرمیلی دوشیزہ کا نکاح ہوگیا۔ جس نے اثبات میں سربھی نہیں ہلایا اور اسکی خاموشی کو رضامندی کانام دے کر کسی گبرو کے حوالے کردیا گیا کہ جابسنتی زندگی جی لے۔
افسوس کہ یہ ایک تحریک انصاف کا معاملہ نہیں ہے اپنے یہاں جمہوریت پر واری صدقے جانے والی ساری سیاسی جماعتیں اس حمام میں ننگی ہیں۔ اسی قبیل کے پارٹی انتخابات مسلم لیگ ن نے 2011 میں بھوربن مری میں بھی کئے۔ اس انوکھے الیکشن کی کوریج کرنے والے اسلام آباد کے سینئر صحافی حافظ ماجد بتاتے ہیں کہ الیکشن یوں ہوئے کہ ہوٹل کے ایک ہال میں انتخابات کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والوں نے باری باری کھڑے ہوکر الیکشن لڑنے سے دستبرداری کا اعلان کیا تاکہ ‘‘گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے’’اور پھر میاں صاحب پارٹی صدر ہوگئے اورمنظور نظربھی مونچھوں کو تاؤ دے کر میدان مار گئے۔
یہی حال پیپلز پارٹی کا بھی ہے جمہوریت کو ایمان کا درجہ دینے والی پارٹی میں جمہوریت ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ خدا بخشے بے نظیر بھٹو شہید کی تقریر جئے بھٹو جئے عوام سے شروع ہو کر جئے جمہوریت پر ختم ہوتی تھی۔ بی بی نے جمہوریت کے لئے بڑی جدوجہد بھی کی جلاوطنی کاٹی ، جیل گئیں لیکن آمریت سے شکست تسلیم نہ کی۔ یہ سچ ہے مگر مکمل سچ نہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد ان کی بیوہ نصرت بھٹو کے ہاتھ میں پارٹی کی کمان تھی۔ وہ چیئر پرسن تھیں اوربے نظیر بھٹو شریک چیئرپرسن تھیں پھر شریک چیئرپرسن نے اپنے دوسرے دور اقتدار میں پارٹی کی چیئرپرسن اور اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹا یا اور خود چیئرپرسن بن گئیں۔ جس پر بیگم نصرت بھٹو کے حامی رہنماؤں نے ان کی سربراہی میں پارٹی کا شہید بھٹو گروپ بنا لیا جسے بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو نے ’’بھٹو کا وارث بھٹو ہے ‘‘ کے نعرے کے ساتھ سنبھالا اور پوری قوت سے بہن اور بہنوئی کے سامنے آکھڑ ے ہوئے۔
بی بی شہید بھٹو نے اس ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرنا قبول کیا لیکن پارٹی الیکشن کرائے اور نہ کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی۔ بعد میں لاہور کی ایک پارٹی میٹنگ میں ’’قبول ہے قبول ہے ‘‘ کی طرح گردان کی طرح وہ تاحیات پارٹی چیئرپرسن بن گئیں یعنی انتخابات کاٹنٹنا ہی ختم۔ اٹھائیس اگست 2001ء میں شیروں کے شکاری آصف علی زرداری اس اقتدار میں اس سلیقے سے شریک ہوئے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ کونسل کے اجلاس میں خلیل قریشی نامی جیالے نے آصف زرداری کی خدمات گنواتے ہوئے قرارداد پیش کی کہ انہیں ان کی قربانیوں کے شایانِ شان کوئی عہدہ نہیں دیا گیا۔ لہٰذا میں تجویز کرتا ہوں کہ جناب آصف علی زرداری کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی غیر موجودگی میں پارٹی کا شریک چیئرمین نامزد کیا جائے۔ یادش بخیر اس اجلاس میں اس غیر متوقع قرارداد پرجیالے بھڑک کر اٹھے۔ خلیل قریشی کے گریبان پر ہاتھ تک ڈال دیا۔ بڑی جوتم پیزار ہوئی۔ ان بھڑکنے والوں میں پیپلز پارٹی سندھ کے موجودہ سینئر رہنما نثار کھوڑوبھی تھے جنہیں اس قرارداد پر جوشیلے ردعمل پر اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کئے گئے بعد میں خیر سے نثار کھوڑوسمیت شوکاز وصولنے والے سب جیالے اسمبلیو ں میں پہنچے اور وزیر مشیر بھی بنے ۔
پاکستان میں سیاسی جمہوری جماعتوں کی تاریخ اتنی ہی غیر جمہوری ہے یہاں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کی حیثیت اسٹور میں رکھی برساتیوں کی سی ہے جنہیں سال میں ایک دو بار بادل آنے پر نکال لیا جاتا ہے۔ان سب جماعتوں کے دکھانے کے دانت کچھ اور ہیں اور کھانے کے کچھ ہیں ، اس منافقت پراب تو کوئی سوال بھی نہیں کرتا کہ جمہوریت کو راہ نجات قرار دینے والو! آپ کی پارٹی اس راہ پر کیوں نہیں چلتی؟ آپ کی جماعت میں کتنی جمہوریت ہے ؟وہاں نامزدگیاں کیوں ہوتی ہیں ؟الیکشن کیوں نہیں ہوتے ۔ہ وتے ہیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ شجر ممنوعہ کیوں بنادی جاتی ہے۔ اب یہی کام تحریک انصاف نے بھی کیا ۔ چلیں کر لیا تواب عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات تو نہ کریں ۔