لاہور کے ایک پارک میں شاعر مشرق کے ایک عجیب سے مجسمے پر لوگوں نے بہت احتجاج کیا، کالم لکھے، شور مچایا، بے شک ان کے ساتھ ہمارا جو محبت اور عقیدت کا تعلق ہے اس میں یہ ہی ردعمل بنتا ہے، لوگ جتنا اس مجسمے کے بے ہنگم ہونے پر چیخے چلائے اس کا 50 فیصد بھی روزانہ ٹوٹتے پھوٹتے پاکستان کے لیے احساس کرتے تو ہمارا یہ حال نہیں ہوتا، خیر سے مجسمے کے لیے جو تحقیقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہاں کے مالیوں نے بچے کچھے سمینٹ اور دیگر سامان سے یہ مجسمہ بنا دیا جس میں مٹی سمینٹ تو تھا مگر علامہ اقبال کہیں نظر نہیں آرہے تھے اور ایسا اس لیے ہوا کہ مالی صاحبان نے میں تے مالی آں کہہ کر اپنی جان نہیں چھڑائی بلکہ خود کو اسکا ایکسپرٹ سمجھ کر اور جو چھوٹے چھوٹے مجسمے وہ گھاس پھوس سے بناتے تھے اس کو سامنے رکھ کر ایک بڑا کام کرنے کی کوشش کی ہمیں اس سارے عمل میں ان کے خلوص پیار محبت اور ایمانداری کو نہیں بھولنا چاہیے مگر یہ درست ہے کہ انہوں نے ایک ایسا کام کرنے کی کوشش کی جو ان کا کام نہیں تھا مگر ہو سکتا ہے انہوں نے سوچا ہو کہ جب ایک شوکت خانم ہسپتال بنا کر ہمارے ورلڈ کپ ونر عمران خان صاحب پرائم منسٹر بن سکتے ہیں تو ہم بھی یہ چھوٹا سا کام کر سکتے ہیں مگر نتیجہ آپ کے سامنے ہے مجسمہ اور موجودہ پاکستان تقریباً ایک جیسی حالت میں ہیں اگر مالی حضرات کے پاس کوئی مشیر وغیرہ ہوتے تو وہ ضرور اس کو دنیا کا بہترین شاہکار ثابت کر دیتے بالکل اسی طرح جیسے وہ حکومت کی کارکردگی بیان کرتے ہیں کہ بغیر پیر کا انسان بھاگتے ہوئے اور جو بول نہیں سکتا وہ گاتے ہوئے نظر آتا ہے علامہ اقبال کے مجسمے کے غلط بن جانے پر واویلا کرنے والے پاکستان کے بے حال ہونے پر خاموش ہیں کاش ہم سب اس بینک کے آفیسر جناب حسین صاحب کی طرح سوچیں جو کہیں پر بھی ان کے بینک کی ATM مشین نظر آنے پر اس بات کے باوجود کہ یہ ان کا کام نہیں اسے اپنی جیب میں رکھے کپڑے سے صاف کر دیتے ہیں کہ ڈسٹ والی مشین سے بینک کا امیج خراب ہو سکتا ہے اور دوسری طرف اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں ہر سیاسی جماعت کے تقریباً چار مہینے پہلے ہونے والے جلسہ جلوس کے بینر آدھے پھٹے ہوے تو کہیں پر مٹی سے اٹے ہوئے نظر آئیں گے بڑے بڑے دعوے کرنے والوں کا عمل جب یہ ہو تو پھر میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال سے معافی مانگ کر ہمیں ان مالیوں کو بھی معاف کر دینا چاہیے، نہ جانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ جس دن ہماری قیادت کے لیے لڑنے والوں نے ہم کو اپنا سمجھ لیا اس دن ہمارے دن بدل جائیں گے مگر ان سب کے پاس علامہ اقبال کے مجسمے پر بات کرنے کا وقت تو ہے مگر اقتدار حاصل کئے بغیر ان کے خواب کی تعبیر اس ملک کے لوگوں کی خدمت کرنے کا کوئی شوق نہیں کاش یہ سب لوگ جو اقتدار کو own کرتے ہیں اس وطن عزیز کو بھی own کرنا شروع کریں مجسمہ تو ہٹ گیا کاش کل یہ سارے پرانے بینر بھی اتر جائیں. کاش
کاش!