اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بلتی زبان کے صوفی شاعر جوہر علی جوہر کے فن و شخصیت کے حوالے سے بوا جوہر قومی ادبی سیمینارمنعقد ہوا۔غزالہ سیفی، پارلیمانی سیکرٹری برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن،مہمان خصوصی تھیں۔ مجلس صدارت میں یوسف حسن آبادی اورسید امجد علی زیدی ، سپیکرگلگت بلتستان اسمبلی شامل تھے۔ محمد کاظم میثم ، وزیر زراعت ، گلگت بلتستان اور پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان، وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی ، مہمانان اعزاز تھے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان ، نے ابتدائیہ پیش کیا۔ محمد حسن حسرت اور محمد قاسم نسیم نے مقالات پیش کیے۔ نظامت احسان علی دانش نے کی۔ غزالہ سیفی ، پارلیمانی سیکرٹری ، برائے قومی ورثہ وثقافت نے کہا کہ صوفی شاعر خواہ شنایا بلتی کا ہو یا اردو صوفیا ءکا پیغام ہمیشہ ایک ہی رہا ہے ۔ خلق خدا سے محبت ۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مدعاصرف یہ ہوتاہے میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔ آج ہمیں مذہنی بنیادپرستی ، لسانی عصبیت ، دہشت گردی اور عدم رواداری جیسے مسائل کا سامناہے عدم برداشت ایک ایسی دیمک ہے جو ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے ان مسائل کا پائیدار حل تب ہی ممکن ہے کہ صوفی شاعروں کا پیغام محبت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایاجائے ۔ استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین ، ا کادمی ادبیات پاکستان نے کہاکہ جوہر علی جوہر بلتی زبان کے عظیم صوفی شاعر تھے انھوں نے بلتی شاعری میں صنف بحر طویل خوبصورت انداز میں استعمال کیا۔ جوہر علی جوہر نے بھی ہمارے دیگر زبانوں کے صوفی شعراء رحمن بابا ،شاہ عبد اللطیف بھٹائی، میاں محمد بخش، بلھے شاہ ، مست توکلی، سچل سرمست اور حبہ خاتون کی طرح امن و محبت اور بھائی چارے کادرس دیا ۔ بلتی زبان پاکستان کی اہم زبان ہے اس زبان میں لکھی ہوئی تخلیقات کو تراجم کے ذریعے قومی دھارے میں شامل کریں گے۔ علم و ادب کے اس گہوارہ گلگت بلتستان میں اکادمی ادبیات کی برانچ کا قیام ضروری ہے ۔ یوسف حسن آبادی نے کہاکہ جوہر علی جوہر ایک عظیم صوفی شاعر تھے ۔ اُن کی شاعری میں سلاست روانی اور منظر کشی قابل ذکر عناصر ہیں۔ انہوں نے رزمیہ واقعات نگاری کو بھی مہارت کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ وہ ظاہر و باطن شفاف شخصیت کے مالک تھے۔ ٰسید امجد علی زیدی نے کہا کہ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام پہلی دفعہ گلگت بلتستان کی زبان کے عظیم صوفی شاعر جوہر علی جوہر کی یاد میں تقریب ہورہی ہے۔ اس کے لیے چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک بجاطور پر مبارک باد کے مستحق ہے۔ گلگت بلتستان میں اکادمی کے دفتر کے قیام کے سلسلے میں ہم سب اکادمی ادبیات کے چیئرمین کے ساتھ بھر پورتعاون کریں گے۔ محمد کاظم میثم ، وزیر زراعت ، گلگت بلتستان نے کہا جوہر علی جوہر نے اپنی شاعری کے ذریعے علم و عرفان کی شمعیں جلائیں۔ بحر طویل کو نچوڑنے سے علم و عرفان کے سمندر موجزن ہو جائیں اور یہی کام جو ہر علی جوہر نے اپنی شاعری کے ذریعے کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد نعیم خان، وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی ، نے کہا کہ گلگت بلتستا ن کی محبت کا پیغام ساری دینا تک پہنچانے میں اس خطے کے نامور شاعروں اور ادیبوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور بلتستان یونیورسٹی کے علمی و ادبی معیار کو بلندکئے رکھا۔ انہوں نے کہا کہ بلتستان یونیورسٹی نہ صرف اپنے خطے میں بلکہ پورے پاکستان کے لیے علم و ادب کی روشنی پھیلارہی ہے اور گلگت بلتستان کی نئی نسل کی علمی ادبی تربیت کرر ہی ہے۔محمد حسن حسرت نے کہا کہ جوہر علی جوہر ایک کلاسیکی اور آفاقی سوچ کے بڑے صوفی شاعر تھے۔ وہ عشق حقیقی کے سمندر میں غوطہ زن نظر آتے ہیں۔ وہ اللہ اور اس کے رسول سے والہانہ عشق کرتے تھے۔ وہ بلتی زبان میں بحر طویل کے بانی ہیں۔ ان کی شاعری سے علم و عرفان کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ محمد قاسم نسیم نے کہا کہ عارفانہ اور صوفیانہ شاعری میں جوہر علی جوہر کا نام سب سے نمایاں ہے آپ قادر الکلام شاعر ، درویش اور قلندر صفت انسان تھے۔ غلام حسن حسنو نے کہا کہ جو ہر علی جوہر کی شاعر ی پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ حسن خان آماچا نے جوہر کی شاعری کی فنی محاسن اور بحروں پر گفتگو کی۔ خواجہ مہر داد نے کہا کہ جوہر علی جوہر کی صوفیانہ شاعری نے اس خطے میں امن کی روشنی سے لوگوں کے دلوں کو منور کیا۔غلام مہدی شاہد اور یوسف علی کھسمن نے جوہر علی جوہر کو منظوم خراج پیش کیا۔