انگریزی کہاوت کے مطابق انصاف میں تاخیر اسے ٹالنے کے مترادف ہے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا ہی چل رہا ہے ۔ کبھی اسٹریٹ کرمنل پر ہاتھ صاف کرتے افراد کو انصاف ،عدالت یا پولیس کا درس دینے کی ہمت کریں ۔ ممکن ہے مشتعل ہجوم قہقہہ لگائے ۔ آپ کی ٹھکائی لگنا بھی خارج از امکان نہیں۔
ماورا اور موٹر وے کیس پر عوام مشتعل ہیں اکثریت ملزمان کا سر قلم یا لاش سرعام لٹکی دیکھنا چاہتی ہے ۔ زینب زیادتی اور قتل کیس کا مجرم انجام کو پہنچ چکا ہے۔ اس کے فوری بعد بچوں سے زیادتی کے کئی کیس سامنے آئے ،گرفتاریاں ہوئیں مگر ملزمان تختہ دار تک نہ پہنچے ۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ اس کے بعد کتنے ہی افراد قتل ہوئے کتنے ہی بچے بچیاں یا خواتین زیادتی کا نشانہ بنے ۔ آخر زینب کے مجرم کی پھانسی ایسے واقعات کی روک تھام کیوں نہ کرسکی ؟ کیا سرعام سزا سے ایسا ممکن ہوتا ؟ ممکن ہے اکثریت جواب ہاں میں دے مگر حقائق اس کی نقی کرتے ہیں ۔۔ ماروا واقعے سے چند روز قبل سارجنٹ قتل کیس میں ایم پی اے مجید اچکزئی کی بریت ہوگئی ۔ گو کہ حکومت بلوچستان فیصلہ چیلنج کرنے کا اعلان کرچکی لیکن جو ہونا ہے وہ صاف نظر آرہا ہے ۔۔ تھوڑا اور پیچھے جائیں نقیب کو موت کے گھاٹ اتارنے والا بہادر بچہ ٹھاٹ سے جی رہا ہے شاہ زیب قتل کیس میں وکٹری کا نشان بناتا شاہ رخ جتوئی نظام انصاف کو منہ چڑاتا دکھائی دے گا۔ تمام شواہد ہونے کے باوجود اینکر مرید عباس کو بھی انصاف نہ ملا ۔ گردن تھوڑی اور اوپر اٹھائیں تو العزیز یہ ،فلیگ شپ ریفرنس ،منی لانڈرنگ سے لے کر جعلی اکاؤنٹ کیس تک سب بے نتیجہ نظر آئیں گے ۔۔ ایسے میں کیسا قانون اور کہاں کا خوف ۔کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ قانون مکڑی کا وہ جال ہے جو صرف کمزوروں کو گرفت میں لیتا ہے ۔۔ اوپر بیان کئیے گئے متاثرین کیلئے کسی سیاسی جماعت نے کردار ادا کیا نہ اسلام کی علمبردار کسی بھی مسلک کی مذہبی جماعت سامنے آئی ۔۔ نہ کسی این جی اویا انسانی حقوق کی نام نہاد چیمپئن تنظیم نے کسی کیس کو زندہ رکھنا چاہا ۔۔ شاہ زیب سے لے کر مرید عباس تک ایک مجرمانہ سکوت طاری ہے ۔۔سارے قصے زینب کا قاتل قسمت کا کھوٹا دکھائی دے گا ۔ تھوڑا بہت سیاسی اثر رسوخ اسے بھی موت کے منہ سے باہر لاسکتا تھا ۔۔ ایسے میں سرعام سزائے موت کا مطالبہ حق بجانب دکھائی دیتا ہے۔۔ ماروا اور موٹروے کیس میں سرعام سزا لواحقین اور متاثرین کی وقتہ دلجوئی ضرور کرے گا ۔۔ مگر اس کی کوئی ضمانت نہیں آئندہ ایسے واقعات پیش نہ آئیں نیوزی لینڈ جیسے ممالک میں سزائے موت پر پابندی ہے مگر کسی میں جرم کرنے کی جرات نہیں دنیا نے دیکھ لیا کہ کرائسٹ چرچ حملے کا مجرم کیسے منطقی انجام کو پہنچا ۔۔ اقلیت پر حملے کے باوجود نیوزی لینڈ یا آسٹریلیا کے کسی چرچ نے حملہ آور کو غازی قرار دینے کی ہمت نہ کی۔ ورنہ انجام بھگتنا پڑتا بالکل اسی طرح اگر ہمارے ملک میں بڑے کیسز کے مجرم پھانسی گھاٹ پر ہی لٹک چکے ہوتے تو ممکن ہے ماورا والدین کے درمیان ہنس کھیل رہی ہوتی۔ موٹروے پر سفر کرتی ماں سے زیادتی کی کوئی جرات نہ کرتا۔ کاش یہاں بھی انصاف عام تو کوئی سرعام پھانسی کا مطالبہ نہ کرے۔