ہر بڑا المیہ چھوٹے کو نگل جاتا ہے، ہر دوسرا سانحہ پہلے کو بھلا دیتا ہے، سمجھ نہیں آتا معاشرہ بے حس ہے یا بزدل، سچ بولا جائے یا مثبت رپورٹنگ پر اکتفا کریں، دو بچوں کی ماں کو محفوظ ترین شاہراہ پر زیادتی کا نشانہ بنایا جائے تو کیسے چپ رہا جا سکتا ہے۔ پانچ سالہ کمسن بچی کو نوچا کھسوٹا جائے تو کا گزرتی ہے صاحب اولاد پر، کیا کہا جائے یہ موٹر وے مکمل محفوظ اور موٹر وے پولیس نہایت چوکس ہے۔ جب دن دھاڑے پولیس کانسٹبل کو گاڑی سے کچلنے والا رکن بلوچستان اسمبلی عدالت سے چھٹ جائے، جب مقتول اینکر مرید عباس کی بیوہ انصاف کیلئے عدالتوں کو دروازہ کھکھٹاتی پھرے تو ایسے انصاف کا کیا فائدہ،،، مگر یہ کہانیاں نہ ختم ہونیوالی ہیں، ہمارے معاشرے میں جانے کتنے افراد انصاف کی تاخیر کا شکار ہیں، کیا انصاف عام شہری کیلئے نہیں صرف طبقہ اشرافیہ کیلِئے ہے۔ جہاں پولیس افسران ایسے ظالم ہوں کہ پوچھیں خاتون اتنی رات کو نکلی کیوں اور صاحبان اقتدار ایسے بیہودہ کلمات کی دفاع کریں،،، وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے جناب کہ ہم ظلم سہنے کے عادی ہو چکے ہیں یا بے حس، جب جب عوام آواز اٹھاتے ہیں تو ایوان اقتدار لرز جاتا ہے، فوری انصاف جاری ہو جاتا ہے، ادارے سہم جاتے ہیں، یہ ایک بار نہیں بار بار ہوا ہے، مگر غم تو یہ ہے کہ ہم آواز نہیں اٹھاتے، پڑوسی کے گھر لگنے والی آگ کو بجھانے کی کوشش نہیں کرتے اور پھر یہ آگ ہمارے اپنے گھر کو بھسم کر ڈالتی ہے،،، ایسا ہوتا ہی رہے گا اگر معاشرہ کروٹ لے کر مجرم کو اس کے انجام تک نہیں پہنچائے گا۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ موٹر وے پر کیا گزری، ننھی مروہ پر کیا گزری اور معاشرے پر کیا گزری، دیکھتے ہیں یہ وڈیو: