Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
1990 کا کراچی 2020 کے کراچی سے کتنا مختلف تھا شاید سب جانتے ہوں اس دور میں گلبہار جسے عرف عام نیا گولیمار کہاجاتاہے ایک غریب پرور علاقہ تھا جہاں زیادہ تر متوسط یا لوئر کلاس رہائش پذیر تھی ۔ اکثر مکانات100 سے 140 گز پر مشتمل تھے ۔خاندانی نظام کے سبب انہیں دو سے تین منزل تک تعمیر کیا جاتا۔ جو سراسر تجاوزات تھیں ۔ ہفتے میں ایک یا دو روز پانی آتا ۔لوڈشیڈنگ کا جن گرمیوں میں ایسا بے قابو ہوتا کہ دن میں تارے دکھا دیتا تنگ گلیوں میں ڈرائیونگ کسی چیلنج سے کم نہ تھی ۔ سیوریج سمیت تمام سہولیات کم یاب تصور کی جاتیں ایسے میں کسی کے پاس پیسہ آجانے تو پہلی فرصت میں گولیمار سے گلشن ،فیڈرل بی ایریا یا نارتھ ناظم آباد شفٹ ہو جاتا ۔اس ذہنی سکون کے ساتھ کے اب پینے کو صاف پانی کھانا پکانے کو گیس اور بجلی جیسی سہولیات میسر ہوں گی ۔ چوڑی گلیوں میں گاڑی بھی آرام سے چلے گی پارکنگ کی بھی پریشانی نہ ہوگی یہ علاقے صفائی ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ تھے بارش میں پانی گھر تو کجا گلی محلوں میں بھی کھڑا نہ ہوتا تھا ۔ ڈیفنس کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کی تو شان ہی نرالی تھی۔ وقت گزرتا گیا شہر بڑھتا گیا گلشن سے آگے گلستان جوہر آباد ہوا،صفورہ اور اسکیم 33 کے نام سامنے آئے ادھر نارتھ ناظم آباد سے نوبت نئے ناظم آباد تک آگئی ۔لوگوں کے پاس چوائس آگئی دورافتادہ اور نوآباد ہونے کے سبب ان علاقوں پلاٹس اور مکانوں کی قیمت گلشن اور نارتھ ناظم آباد سے کہیں کم تھی ۔صفائی ستھرائی مکمل مگر گیس بجلی پانی کی سہولیات انیس بیس تھیں بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں خوب تعمیرات ہوئیں حکام مجھے نوٹ دکھا میرا موڈ بنے پر آنکھیں موندے بیٹھے رہے۔ اس دوران ملک میں “جمہوریت” پنپتی رہی قوت پکڑتے ہی آمریت کی پیداوار شہری حکومت کا کام تمام کردیا ۔” جمہوری” تسلسل وہ تبدیلی لایا جس کا 90 کی دہائی تصور محال تھا “جمہوریت” نے گلشن اور گولیمار کی تفریق مٹا کر رکھ دی ۔ محمود اور فراز کو ایک ہی صف میں ایسا لاکھڑا کیا کہ متوسط اور پوش علاقوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوگئے ۔ آج گلشن اور نارتھ ناظم آباد میں بھی زیر زمین پانی کی تلاش ایسے جاری ہے جیسے کبھی خلیجی ممالک تیل تلاش کیا کرتے تھے۔۔ چوڑی گلیاں چوڑی سڑکیں تنگ کردی گئیں، لوڈ شیڈنگ متعارف کرائی، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دئیے۔سیوریج سمیت وہ تمام مسائل جن سے گھبرا کر آدمی گولیمار جیسے علاقوں سے بھاگتا تھا اب نگر نگر دستیاب ہیں۔ سائیں سرکار کی اعلیٰ کارکردگی حالیہ بارشوں میں “نکھر” کر سامنے آئی جب برسات نے شہر کے تمام علاقوں سے ایک جیسا برتاؤ کیا آج پرانے ناظم آباد کا حال نئے ناظم آباد سے کہیں بہتر ہے پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس کے مکین جو اورنگی کورنگی کی حالت پر ناک بھنوئیں چڑھاتے اب بارش اور نالوں کا پانی ان پر چڑھ دوڑا ہےلالوکھیت والوں کی طرح انکے فرنیچر،الیکٹرونکس کا بھی بیڑا غرق ہوگیا۔بارش میں اورنگی کی گلیوں اور ڈیفنس کی اسٹریٹس میں امتیاز نہ رہا آج پیاس سے اہلیان کلفٹن کے گلے بھی خشک ہیں کمرشل ازم کی آڑ میں تجاوزات یہاں بھی ڈیرے ڈال چکی ہیں ۔گولیمار والے سوچتے ہیں کس آس پر گلشن جائیں ادھر گلشن اور نارتھ ناظم آباد والے یاد ماضی عذاب ہے یارب کا ورد کرکے ٹھنڈی آہیں بھررہے ہیں۔ ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس والوں کو بڑا بول ڈبہ گول کا محاورہ ستاتا ہے جبکہ اورنگی کورنگی بد سے بدتر کی گامزن ہیں تحریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کروں گا جو بلاول “بھٹو” زرداری نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد ادا کئیے تھے ۔ کہ” جمہوریت بہترین انتقام ” یہ انتقام اب لیا جاتا اور پورا ہوتا نظر بھی آرہا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ جمہوریت سے تبدیلی تک کا یہ سفر جلد منطقی انجام کو پہنچے،
1990 کا کراچی 2020 کے کراچی سے کتنا مختلف تھا شاید سب جانتے ہوں اس دور میں گلبہار جسے عرف عام نیا گولیمار کہاجاتاہے ایک غریب پرور علاقہ تھا جہاں زیادہ تر متوسط یا لوئر کلاس رہائش پذیر تھی ۔ اکثر مکانات100 سے 140 گز پر مشتمل تھے ۔خاندانی نظام کے سبب انہیں دو سے تین منزل تک تعمیر کیا جاتا۔ جو سراسر تجاوزات تھیں ۔ ہفتے میں ایک یا دو روز پانی آتا ۔لوڈشیڈنگ کا جن گرمیوں میں ایسا بے قابو ہوتا کہ دن میں تارے دکھا دیتا تنگ گلیوں میں ڈرائیونگ کسی چیلنج سے کم نہ تھی ۔ سیوریج سمیت تمام سہولیات کم یاب تصور کی جاتیں ایسے میں کسی کے پاس پیسہ آجانے تو پہلی فرصت میں گولیمار سے گلشن ،فیڈرل بی ایریا یا نارتھ ناظم آباد شفٹ ہو جاتا ۔اس ذہنی سکون کے ساتھ کے اب پینے کو صاف پانی کھانا پکانے کو گیس اور بجلی جیسی سہولیات میسر ہوں گی ۔ چوڑی گلیوں میں گاڑی بھی آرام سے چلے گی پارکنگ کی بھی پریشانی نہ ہوگی یہ علاقے صفائی ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ تھے بارش میں پانی گھر تو کجا گلی محلوں میں بھی کھڑا نہ ہوتا تھا ۔ ڈیفنس کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کی تو شان ہی نرالی تھی۔ وقت گزرتا گیا شہر بڑھتا گیا گلشن سے آگے گلستان جوہر آباد ہوا،صفورہ اور اسکیم 33 کے نام سامنے آئے ادھر نارتھ ناظم آباد سے نوبت نئے ناظم آباد تک آگئی ۔لوگوں کے پاس چوائس آگئی دورافتادہ اور نوآباد ہونے کے سبب ان علاقوں پلاٹس اور مکانوں کی قیمت گلشن اور نارتھ ناظم آباد سے کہیں کم تھی ۔صفائی ستھرائی مکمل مگر گیس بجلی پانی کی سہولیات انیس بیس تھیں بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں خوب تعمیرات ہوئیں حکام مجھے نوٹ دکھا میرا موڈ بنے پر آنکھیں موندے بیٹھے رہے۔ اس دوران ملک میں “جمہوریت” پنپتی رہی قوت پکڑتے ہی آمریت کی پیداوار شہری حکومت کا کام تمام کردیا ۔” جمہوری” تسلسل وہ تبدیلی لایا جس کا 90 کی دہائی تصور محال تھا “جمہوریت” نے گلشن اور گولیمار کی تفریق مٹا کر رکھ دی ۔ محمود اور فراز کو ایک ہی صف میں ایسا لاکھڑا کیا کہ متوسط اور پوش علاقوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوگئے ۔ آج گلشن اور نارتھ ناظم آباد میں بھی زیر زمین پانی کی تلاش ایسے جاری ہے جیسے کبھی خلیجی ممالک تیل تلاش کیا کرتے تھے۔۔ چوڑی گلیاں چوڑی سڑکیں تنگ کردی گئیں، لوڈ شیڈنگ متعارف کرائی، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دئیے۔سیوریج سمیت وہ تمام مسائل جن سے گھبرا کر آدمی گولیمار جیسے علاقوں سے بھاگتا تھا اب نگر نگر دستیاب ہیں۔ سائیں سرکار کی اعلیٰ کارکردگی حالیہ بارشوں میں “نکھر” کر سامنے آئی جب برسات نے شہر کے تمام علاقوں سے ایک جیسا برتاؤ کیا آج پرانے ناظم آباد کا حال نئے ناظم آباد سے کہیں بہتر ہے پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس کے مکین جو اورنگی کورنگی کی حالت پر ناک بھنوئیں چڑھاتے اب بارش اور نالوں کا پانی ان پر چڑھ دوڑا ہےلالوکھیت والوں کی طرح انکے فرنیچر،الیکٹرونکس کا بھی بیڑا غرق ہوگیا۔بارش میں اورنگی کی گلیوں اور ڈیفنس کی اسٹریٹس میں امتیاز نہ رہا آج پیاس سے اہلیان کلفٹن کے گلے بھی خشک ہیں کمرشل ازم کی آڑ میں تجاوزات یہاں بھی ڈیرے ڈال چکی ہیں ۔گولیمار والے سوچتے ہیں کس آس پر گلشن جائیں ادھر گلشن اور نارتھ ناظم آباد والے یاد ماضی عذاب ہے یارب کا ورد کرکے ٹھنڈی آہیں بھررہے ہیں۔ ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس والوں کو بڑا بول ڈبہ گول کا محاورہ ستاتا ہے جبکہ اورنگی کورنگی بد سے بدتر کی گامزن ہیں تحریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کروں گا جو بلاول “بھٹو” زرداری نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد ادا کئیے تھے ۔ کہ” جمہوریت بہترین انتقام ” یہ انتقام اب لیا جاتا اور پورا ہوتا نظر بھی آرہا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ جمہوریت سے تبدیلی تک کا یہ سفر جلد منطقی انجام کو پہنچے،
1990 کا کراچی 2020 کے کراچی سے کتنا مختلف تھا شاید سب جانتے ہوں اس دور میں گلبہار جسے عرف عام نیا گولیمار کہاجاتاہے ایک غریب پرور علاقہ تھا جہاں زیادہ تر متوسط یا لوئر کلاس رہائش پذیر تھی ۔ اکثر مکانات100 سے 140 گز پر مشتمل تھے ۔خاندانی نظام کے سبب انہیں دو سے تین منزل تک تعمیر کیا جاتا۔ جو سراسر تجاوزات تھیں ۔ ہفتے میں ایک یا دو روز پانی آتا ۔لوڈشیڈنگ کا جن گرمیوں میں ایسا بے قابو ہوتا کہ دن میں تارے دکھا دیتا تنگ گلیوں میں ڈرائیونگ کسی چیلنج سے کم نہ تھی ۔ سیوریج سمیت تمام سہولیات کم یاب تصور کی جاتیں ایسے میں کسی کے پاس پیسہ آجانے تو پہلی فرصت میں گولیمار سے گلشن ،فیڈرل بی ایریا یا نارتھ ناظم آباد شفٹ ہو جاتا ۔اس ذہنی سکون کے ساتھ کے اب پینے کو صاف پانی کھانا پکانے کو گیس اور بجلی جیسی سہولیات میسر ہوں گی ۔ چوڑی گلیوں میں گاڑی بھی آرام سے چلے گی پارکنگ کی بھی پریشانی نہ ہوگی یہ علاقے صفائی ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ تھے بارش میں پانی گھر تو کجا گلی محلوں میں بھی کھڑا نہ ہوتا تھا ۔ ڈیفنس کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کی تو شان ہی نرالی تھی۔ وقت گزرتا گیا شہر بڑھتا گیا گلشن سے آگے گلستان جوہر آباد ہوا،صفورہ اور اسکیم 33 کے نام سامنے آئے ادھر نارتھ ناظم آباد سے نوبت نئے ناظم آباد تک آگئی ۔لوگوں کے پاس چوائس آگئی دورافتادہ اور نوآباد ہونے کے سبب ان علاقوں پلاٹس اور مکانوں کی قیمت گلشن اور نارتھ ناظم آباد سے کہیں کم تھی ۔صفائی ستھرائی مکمل مگر گیس بجلی پانی کی سہولیات انیس بیس تھیں بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں خوب تعمیرات ہوئیں حکام مجھے نوٹ دکھا میرا موڈ بنے پر آنکھیں موندے بیٹھے رہے۔ اس دوران ملک میں “جمہوریت” پنپتی رہی قوت پکڑتے ہی آمریت کی پیداوار شہری حکومت کا کام تمام کردیا ۔” جمہوری” تسلسل وہ تبدیلی لایا جس کا 90 کی دہائی تصور محال تھا “جمہوریت” نے گلشن اور گولیمار کی تفریق مٹا کر رکھ دی ۔ محمود اور فراز کو ایک ہی صف میں ایسا لاکھڑا کیا کہ متوسط اور پوش علاقوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوگئے ۔ آج گلشن اور نارتھ ناظم آباد میں بھی زیر زمین پانی کی تلاش ایسے جاری ہے جیسے کبھی خلیجی ممالک تیل تلاش کیا کرتے تھے۔۔ چوڑی گلیاں چوڑی سڑکیں تنگ کردی گئیں، لوڈ شیڈنگ متعارف کرائی، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دئیے۔سیوریج سمیت وہ تمام مسائل جن سے گھبرا کر آدمی گولیمار جیسے علاقوں سے بھاگتا تھا اب نگر نگر دستیاب ہیں۔ سائیں سرکار کی اعلیٰ کارکردگی حالیہ بارشوں میں “نکھر” کر سامنے آئی جب برسات نے شہر کے تمام علاقوں سے ایک جیسا برتاؤ کیا آج پرانے ناظم آباد کا حال نئے ناظم آباد سے کہیں بہتر ہے پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس کے مکین جو اورنگی کورنگی کی حالت پر ناک بھنوئیں چڑھاتے اب بارش اور نالوں کا پانی ان پر چڑھ دوڑا ہےلالوکھیت والوں کی طرح انکے فرنیچر،الیکٹرونکس کا بھی بیڑا غرق ہوگیا۔بارش میں اورنگی کی گلیوں اور ڈیفنس کی اسٹریٹس میں امتیاز نہ رہا آج پیاس سے اہلیان کلفٹن کے گلے بھی خشک ہیں کمرشل ازم کی آڑ میں تجاوزات یہاں بھی ڈیرے ڈال چکی ہیں ۔گولیمار والے سوچتے ہیں کس آس پر گلشن جائیں ادھر گلشن اور نارتھ ناظم آباد والے یاد ماضی عذاب ہے یارب کا ورد کرکے ٹھنڈی آہیں بھررہے ہیں۔ ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس والوں کو بڑا بول ڈبہ گول کا محاورہ ستاتا ہے جبکہ اورنگی کورنگی بد سے بدتر کی گامزن ہیں تحریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کروں گا جو بلاول “بھٹو” زرداری نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد ادا کئیے تھے ۔ کہ” جمہوریت بہترین انتقام ” یہ انتقام اب لیا جاتا اور پورا ہوتا نظر بھی آرہا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ جمہوریت سے تبدیلی تک کا یہ سفر جلد منطقی انجام کو پہنچے،
1990 کا کراچی 2020 کے کراچی سے کتنا مختلف تھا شاید سب جانتے ہوں اس دور میں گلبہار جسے عرف عام نیا گولیمار کہاجاتاہے ایک غریب پرور علاقہ تھا جہاں زیادہ تر متوسط یا لوئر کلاس رہائش پذیر تھی ۔ اکثر مکانات100 سے 140 گز پر مشتمل تھے ۔خاندانی نظام کے سبب انہیں دو سے تین منزل تک تعمیر کیا جاتا۔ جو سراسر تجاوزات تھیں ۔ ہفتے میں ایک یا دو روز پانی آتا ۔لوڈشیڈنگ کا جن گرمیوں میں ایسا بے قابو ہوتا کہ دن میں تارے دکھا دیتا تنگ گلیوں میں ڈرائیونگ کسی چیلنج سے کم نہ تھی ۔ سیوریج سمیت تمام سہولیات کم یاب تصور کی جاتیں ایسے میں کسی کے پاس پیسہ آجانے تو پہلی فرصت میں گولیمار سے گلشن ،فیڈرل بی ایریا یا نارتھ ناظم آباد شفٹ ہو جاتا ۔اس ذہنی سکون کے ساتھ کے اب پینے کو صاف پانی کھانا پکانے کو گیس اور بجلی جیسی سہولیات میسر ہوں گی ۔ چوڑی گلیوں میں گاڑی بھی آرام سے چلے گی پارکنگ کی بھی پریشانی نہ ہوگی یہ علاقے صفائی ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ تھے بارش میں پانی گھر تو کجا گلی محلوں میں بھی کھڑا نہ ہوتا تھا ۔ ڈیفنس کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس کی تو شان ہی نرالی تھی۔ وقت گزرتا گیا شہر بڑھتا گیا گلشن سے آگے گلستان جوہر آباد ہوا،صفورہ اور اسکیم 33 کے نام سامنے آئے ادھر نارتھ ناظم آباد سے نوبت نئے ناظم آباد تک آگئی ۔لوگوں کے پاس چوائس آگئی دورافتادہ اور نوآباد ہونے کے سبب ان علاقوں پلاٹس اور مکانوں کی قیمت گلشن اور نارتھ ناظم آباد سے کہیں کم تھی ۔صفائی ستھرائی مکمل مگر گیس بجلی پانی کی سہولیات انیس بیس تھیں بے ہنگم اور بے ڈھنگے انداز میں خوب تعمیرات ہوئیں حکام مجھے نوٹ دکھا میرا موڈ بنے پر آنکھیں موندے بیٹھے رہے۔ اس دوران ملک میں “جمہوریت” پنپتی رہی قوت پکڑتے ہی آمریت کی پیداوار شہری حکومت کا کام تمام کردیا ۔” جمہوری” تسلسل وہ تبدیلی لایا جس کا 90 کی دہائی تصور محال تھا “جمہوریت” نے گلشن اور گولیمار کی تفریق مٹا کر رکھ دی ۔ محمود اور فراز کو ایک ہی صف میں ایسا لاکھڑا کیا کہ متوسط اور پوش علاقوں کے دکھ سکھ سانجھے ہوگئے ۔ آج گلشن اور نارتھ ناظم آباد میں بھی زیر زمین پانی کی تلاش ایسے جاری ہے جیسے کبھی خلیجی ممالک تیل تلاش کیا کرتے تھے۔۔ چوڑی گلیاں چوڑی سڑکیں تنگ کردی گئیں، لوڈ شیڈنگ متعارف کرائی، کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگا دئیے۔سیوریج سمیت وہ تمام مسائل جن سے گھبرا کر آدمی گولیمار جیسے علاقوں سے بھاگتا تھا اب نگر نگر دستیاب ہیں۔ سائیں سرکار کی اعلیٰ کارکردگی حالیہ بارشوں میں “نکھر” کر سامنے آئی جب برسات نے شہر کے تمام علاقوں سے ایک جیسا برتاؤ کیا آج پرانے ناظم آباد کا حال نئے ناظم آباد سے کہیں بہتر ہے پی ای سی ایچ ایس اور ڈیفنس کے مکین جو اورنگی کورنگی کی حالت پر ناک بھنوئیں چڑھاتے اب بارش اور نالوں کا پانی ان پر چڑھ دوڑا ہےلالوکھیت والوں کی طرح انکے فرنیچر،الیکٹرونکس کا بھی بیڑا غرق ہوگیا۔بارش میں اورنگی کی گلیوں اور ڈیفنس کی اسٹریٹس میں امتیاز نہ رہا آج پیاس سے اہلیان کلفٹن کے گلے بھی خشک ہیں کمرشل ازم کی آڑ میں تجاوزات یہاں بھی ڈیرے ڈال چکی ہیں ۔گولیمار والے سوچتے ہیں کس آس پر گلشن جائیں ادھر گلشن اور نارتھ ناظم آباد والے یاد ماضی عذاب ہے یارب کا ورد کرکے ٹھنڈی آہیں بھررہے ہیں۔ ڈیفنس اور پی ای سی ایچ ایس والوں کو بڑا بول ڈبہ گول کا محاورہ ستاتا ہے جبکہ اورنگی کورنگی بد سے بدتر کی گامزن ہیں تحریر کا اختتام اس خوبصورت جملے پر کروں گا جو بلاول “بھٹو” زرداری نے اپنی والدہ کی وفات کے بعد ادا کئیے تھے ۔ کہ” جمہوریت بہترین انتقام ” یہ انتقام اب لیا جاتا اور پورا ہوتا نظر بھی آرہا ہے ۔ امید کرتے ہیں کہ جمہوریت سے تبدیلی تک کا یہ سفر جلد منطقی انجام کو پہنچے،