…زیادہ پرانی تو نئی جناب کوئی دس بیس سال پہلے کی ہی بات ہوگی ، جب کراچی میں رم جھم برکھا رت اپنے جلوے دکھاتی تو ہر کسی کا چہرہ کھل اٹھتا، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ہمارے یہاں سارا سال سورج میاں سڑھا ہوا سا منہ بنا کر سروں پر ایسے سوار رہتے کہ جیسے کراچی والوں نے ان سے کوئی ادھار لیا ہو۔ بارش کو ترستے ہوئے کراچی والوں کو اگر ہلکی سی بھی بوندا باندی کی جھلک ملتی لگتا جیسے خزانہ مل گیا ، سونے پر سہاگہ اگر کھل کر برسات ہوجائے تو سمجھیں زندگی گلزار ہوگئی۔ ریڈیو والے چھانٹ چھانٹ کر بارش کے گانے برسانے لگتے۔ قطعی طور پر آج کی طرح یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ بھیا فلاں راستے پر نہ جائیں وہاں پانی کھڑا ہے یا ٹریفک کا طوفان۔ ہمارے یار دوست تو خاص طو ر پر جولائی کے مہینہ آنے کے بعد فلم ’لگان‘ کے کرداروں کی طرح آسمان کو دیکھتے رہتے کہ کب کالے بادل آکر جھل تھل کریں گے۔ گلی محلوں میں بانکے نوجوانوں کا ہجوم ہوتا جو مارم پٹی، کرکٹ اور فٹ بال سے شغف فرما رہے ہوتے۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ اُس دور میں ہم نے کسی سے یہ سنا ہو کہ فلاں شخص ’گٹر‘ میں گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو‘ کیونکہ ڈھکن تو چوری ہوتے تھے لیکن اس سے زیادہ مستعدی متعلقہ ادارے دکھا کر پھر سے نئے لگا بھی دیتے۔ سڑکیں کشادہ تھیں، اور نکاسی آب کا مکمل انتظام بھی۔ برسات سے سب سے زیادہ متاثر نشیبی‘ کچے یا پھر زیر تعمیر علاقے ہوتے۔ کراچی کی شاہراہ فیصل تک پر تیز موسلادھار بارش کے ہوتے ہوئے ٹریفک آگے بڑھتا جاتا اور اب تو چیونٹی کی رفتار کے ساتھ گاڑیاں آگے رینگ رہی ہوتی ہیں۔
خیر جی برسات کالطف اٹھانے کے لیے کچھ نوجوان ٹولیاں بنا کر نکل پڑتے، کسی کی منزل سی ویوہوتی تو کوئی قریبی پارک میں تیزی سے برستی ٹپ ٹپ برسات کے رنگ میں کھو جاتا۔بزرگوں کا ایک گروہ ہوتا‘ جو ماضی اور موجودہ بارشوں کا موازنہ کررہا ہوتا‘ کوئی بتا رہا ہوتا کہ اُس نے کیسی طوفانی بارش کا سامنا کیا ہے۔ خواتین چھتوں پر ٹنگ کر پڑوسی لڑکوں کے لیے ’سی سی ٹی وی‘ بن جاتیں‘ جنہیں پورے ہفتے کے لیے یہ مرچ مسالا مل جاتا کہ فلاں لڑکی کس سے آنکھ مٹکا کررہی تھی اور کون لڑکا‘ کس کو دیکھ کر ادائیں دکھا رہا تھا۔ سگھڑ خواتین تو گھر میں ہی پکوڑے بنالیتی تھیں لیکن کچھ خواتین اس کام کے لیے ’میاں جی‘ کو بازار دوڑاتی تھیں۔ننھے منے اپنی اپنی سائیکلیں نکال کر ایک دوسرے سے مقابلے پر اترے ہوتے۔ پہلے بھیگے موسم میں سفر کرتے ہوئے بے اختیار برساتی گیت لبوں پر آجاتے تھے اور اب پورا راستہ اسی دعا کے ساتھ گزرتا ہے کہ بخیر وعافیت بس منزل تک پہنچ جائیں۔
ذرا ماضی میں جھانک کر تو دیکھیں کہ بارشوں کا کیا لطف نہیں اٹھایا جاتا تھا۔ بجلی اگر چلی بھی جاتی تو آدھا ایک گھنٹے بعد چپکے سے آبھی جاتی اور اب اگر یہ رفو چکر ہوجائے تو آپ ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے۔موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا اس قدر بے ہنگم ٹریفک بھی نہیں تھا، جبھی بس اور منی بسوں کے ڈبے میں قید ہو کر منزل کو جانے والے اس سے رہائی ملتے ہی خراماں خراماں بھیگتے بھاگتے حلوائی کی دکان سے ہوتے ہوئے گرما گرم سموسے یا پکوڑے لے کر گھر میں ہوتے۔ کپڑے گیلے ضرور ہوتے تھے لیکن کسی موٹر سائیکل یا گاڑی کی کیچڑ اچھالتی لہر سے محفوظ ہی رہتے تھے۔ اب تو یہ عالم ہے کہ موٹر سائیکل اور گاڑی والے راہ گیر اور پیچھے آنے والے سوار کے ملبوسات پر ’گل احمد‘ کے نقش و نگار بنانا اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔
اور پھر شہر میں تجاوزات اور چائنا کٹنگ کا جال بچھنے لگا، پلیوں اور نالوں پر دکانیں اور مکان تک تعمیرہونے لگے۔ برساتی پانی کہاں سے نکلے گا کسی کو اس کی فکر نہیں رہی۔ہر کوئی اپنے حدود رقبے کو بڑھانے کی مہم میں لگ گیا۔ کراچی کے کرتا دھرتا اور اس شہر کا دم بھرنے والے حکمرانوں کو جوش چڑھتا تو کچھ دنوں کے لیے تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن ہوتا۔ ذرائع ابلاغ پر خوب ڈھنڈورا پیٹا جاتا کہ آج فلاں علاقے کو واگزار کرالیا تو کل فلاں‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ محکمے کے لاؤ لشکر کے جانے کے چند ہی گھنٹوں بعد دوبارہ سے یہ محفلیں اور رونقیں پھر سے آباد ہوجاتیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ کراچی میں اب ’گندی گلی‘ کا تصور بھی ناپید ہوتا جارہا ہے‘ جوعقبی حصے میں ہوتی تھی‘ جہاں گٹر لائنز ہوتیں۔ اب عالم یہ ہے کہ بیشتر مکینوں نے اس پر ’گیراج‘ بنا لیا ہے یا پھر کئی نے اندورنی حصے کو توڑ کر اپنے کمروں کو وسعت اور کشادگی دے دی ہے۔
اب اگر بارش ہوجائے تو اس کی بوندوں سے وہی چھیڑ خانی کرتے ہیں جو گھروں میں ہو ں‘ کیونکہ سر راہ بارش سے پالا پڑنے والوں کو تو یہ فکر ستاتی رہتی ہے کہ کون سے راستے کا انتخاب کریں جہاں ٹریفک جام ہو نہ برساتی پانی کھڑا ہو۔ کیا وقت آگیا ہے کہ اب برکھا رُت کے موقع پر احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑنے کی تلقین صبح و شام ذرائع ابلاغ سے نشر ہوتی ہیں۔ کسی بھی شاہراہ پر جائیں تو غور کریے گا کہ سوار‘ آگے والی گاڑی کے چھوڑے ہوئے نشانات کو صراط مستقیم سمجھ کر آگے بڑھتا ہے۔ اگر اس کی گاڑی کسی مقام پر ہچکولے کھاتی ہے تو یہ پیچھے والے کو اشارہ ہوتا ہے کہ’سنتری ہوشیار باش آگے کہیں ’کھڈا‘ ہے اور جو بے چارے پیدل ہوتے ہیں وہ کسی بچے کی طرح ڈرتے ڈرتے پھونک پھونک کر قدم اٹھا نے میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ گروپ کی شکل میں ہوں تو ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے ہوتے ہیں، تاکہ کھلا مین ہول ان میں سے کسی ایک کو ’مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ کے بوجھ سے پاک رکھیں۔خیر خطرہ تو یہ بھی منڈلا رہا ہوتا ہے کہ کہیں بجلی والوں کی مہربانی سے کوئی تار کھلا مل گیا توگھر پہنچنے سے پہلے کہیں اور کے مسافر نہ بن جائیں۔
مانیں نہ مانیں کراچی میں بارش ہو تو بے شمار اندیشے سر اٹھانے لگتے ہیں‘ اور حالیہ بارشوں نے ایسے ہولناک مناظر دکھائے ہیں کہ روح تک کانپ جائے۔ دفتر میں کام کرنے والے کیسے گھر پہنچیں گے یہ سوچ کر ہلکان ہورہے ہوتے ہیں اور گھر والے ان کی بخیروعافیت آنے کے لیے بارگاہ الہیٰ میں دعاؤں کے ورد کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ کراچی کی بارش کا کوئی مزا نہیں رہا‘ ہم پر جچتا نہیں ہے کیونکہ اس میں قصور جہاں ارباب اختیار کا ہے وہیں ہمارا بھی‘ جو صفائی ستھرائی کے بنیادی اصول سے عاری ہوتے جارہے ہیں‘ اگر گلی کا مین ہول بند ہو تو سرکار کو مغلضات بک کر‘ گندے پانی سے بچتے بچاتے گھروں کو آجاتے ہیں۔ چلتی گاڑی یا موٹر سائیکل سے کچرے کی تھیلی کا کوڑے دان کا نشانہ لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ نشانہ ہدف پر لگا بھی کہ نہیں‘ گلیوں کو تنگ کرکے خود اپنی زندگیاں تنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔واقعی اب کراچی کی بارش ہماری وجہ سے بھی زحمت بنتی جارہی ہے۔ خاص کر ایسے میں جب ٹی وی چینلز پر یہ دکھ بھری خبریں سننے کو ملیں کہ فلاں علاقہ ڈوب گیا اور اہل خانہ کا قیمتی سازو سامان بھی۔ کوئی کرنٹ لگنے یا مین ہول میں گرنے سے جان سے چلا گیا تو دل کانپ جاتا ہے۔۔ یہ کلیجہ چیرتی یہ خبریں جب کانوں میں پڑتی ہیں تو بس یہی التجا ہوتی ہے کہ کب تک ہم بھی اپنی نادانیوں سے اس رحمت کو زحمت بناتے رہیں گے۔