Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ویسے تو سرکاری شعبہ تعلیم بمقابلہ پرائیوٹ شعبہ کی جنگ دو سوکنوں کی لڑائی جیسی ہے ، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں سرکاری شعبہ تعلیم کے اہلکاران بغیر زیادہ محنت کے (چند ایک استثنائی شخصیات کے علاوہ) نوکر شاہی کی تنخواہ اور بعد از ریٹائیرمنٹ پینشن کی صورت میں زندگی بھر کے جو فوائد سمیٹتے ہیں وہ نجی اسکولوں کے اساتذہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
چونکہ نجی اسکولوں کے بارے میں بہتر معیار تعلیم دئیے جانے کاتصور ہے چاہے جماعت اسلامی کے زیر انتظام عثمان پبلک اسکول سسٹم ہی ہوں کی وجہ سے معاشرے میں انکی وقعت اور عزت بہرحال سرکاری اداروں سے زیادہ ہے، جو شاید ہمارے دوستوں کو نہ بھاتی ہو۔
ہمارے ایک دوست جو پیشے کے لحاظ سے سرکاری شعبہ تعلیم سے متعلق ہیں نے ایک سوال پوچھا کہ آئی بی اے، لمز، ایچیسن کوئین میری اور بیکن ہاؤس وغیرہ وغیرہ قسم کے تعلیمی اداروں نے پاکستان میں کتنے (creative)عبقری پیدا کیے یا بہترین مہارت یافتہ لکیر کے فقیر ہی بناتے رہے ؟
اس سوال کا جواب شعبہ تعلیم کے ایک ماہر کی حیثیت سے میرے دوست ہی کے ذمہ ہے۔طالبعلم ہیرا ہو یا پتھر اسکی تراش خراش کی ذمہ داری کس پر ہے؟
سب سے پہلے اسکا تعین کیا جائے کہ تعلیمی اداروں کی بنیادی ذمہ داری کیا ہے؟ دنیا کے کسی بھی نظام میں تعلیمی اداروں کی ذمہ داری عبقری پیدا کرنا نہیں جو ویسے بھی دنیاکے تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہزاروں میں ایک ہی ہوتا ہے۔
بلکہ اصل ذمہ داری ۹۹ فیصد سے زائد عام طلباء کو معیاری تعلیم کے ذریعے انہیں انکی صلاحیتوں کے بہترین استعمال کے لائق بناکر معاشرے کا مفیدحصہ بنانا ہوتا ہے۔
کوئی اسکول کالج یونیورسٹی عبقری نہیں بناتا، اگر ایسا ہوتا تو والدین کے لئے آسان ہوتا کہ اپنے بچّے کو کسی بھی عبقری مینوفیکچرنگ پلانٹ (ایلیٹ تعلیمی ادارے میں) داخل کرادے اور بنا بنایا عبقری ڈھل کر باہر نکل جائے آئے۔ لیکن گدھے کو گھوڑوں کے اصطبل میں رکھ کر گھوڑا نہیں بنایا جاسکتا۔
عبقری اسکول یونیورسٹی چاہے ہاورڈ ہو یا لمس اور آئی بی اے نہیں پیدا کرتے ہیں، وہ تو پیدائشی ہوتے ہیں ۔بعد میں مناسب ماحول و تراش خراش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ بھدّا سا پتھر تو درحقیقت کوہ نور تھا۔ بل گیٹس، مائیکل ڈیل ہو یا مارک زکربرگ جن سے دنیا واقف ہے۔ انہیں عبقری ہاورڈ یونیورسٹی نے نہیں بنایا، وہ پیدائشی عبقری تھے، ہاورڈ نے شاید ماحول فراہم کیا کہ انکی صلاحیتیں سامنے آگئیں۔ہمارے ہاں بھی نہ جانے کتنے عبقری شناخت کے منتظر رہ جاتے ہیں۔
کتنے غالبؔ تھے کہ پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کیا ہمارا نظام تعلیم اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کررہا ہے؟ اگر نہیں تو ناکامی نظام تعلیم کی ہے اور استاد اس نظام کے حصہ کے طور پر پورا ذمہ دار ہے۔ لیکن سوال صرف چند اداروں سے ہی کیوں۔ قوم کی تعلیم کے ذمہ دار اپنے گریبان میں جھانک کر بتانا پسند کریں گے کہ کیا وہ اپنے فرائض کماحقہ طور پر انجام دے رہے ہیں؟
کاش ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے بہترین مہارت یافتہ لکیر کے فقیر ہی پیدا کرسکتے تو کس کمبخت کو ان اونچی و مہنگی تعلیمی دوکانوں کی ضرورت پیش آتی؟
ملک کی ۹۹ فیصد سے ذائد آبادی انکے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اس تعلیم سے حاصل کردہ نتائج کا حال بتانے کی بجائے ایک فیصد سے کم طلباء والے اداروں سے نتائج کا سوال بنتا تو نہیں ہے۔
یقینا مذکورہ بالا اور ان جیسے سینکڑوں نجی تعلیمی ادارے اپنی سطح پر اعلی ترین تعلیم دے کر اپنے طلباء کو عملی زندگی یا مزید اعلی تعلئم کے لیے تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ اپنی بنیادی ذمہ داری توبحسن و خوبی انجام دے ہی رہے ہیں۔ان اداروں کا میٹرک و انٹر ہو یا او لیول کا طالبعلم ہمارے ۹۰ فیصد سرکاری اداروں سے تعلیمی لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ساری دنیا میں اشرافیہ کے تعلیمی ادارے نہ صرف اپنے طلباء کو بہترین تعلیم اور انکی شخصیت کو معیاری (اس پر بحث کی گنجائش ہے کہ ’’معیار‘‘ اپنا اپنا ہوتا ہے) غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے، اپنے نصاب کے لحاظ سے مضبوط، پُراعتماد بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسکا نتیجہ یہ ضرور نکلتاہے کہ انکے طلباء عبقری نہ بھی ہوں تب بھی تعلیمی طور پر بہتر قابلیت ہی نہیں، بلکہ عام زندگی میں بہتر پُراعتماد شخصیت کے ساتھ اُترتے ہیں، اور یہی اعتماد انکے عملی زندگی میں آگے بڑہنے میں کار آمد ثابت ہوتا ہے۔
یقیناً ہمارے سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بھی عبقری گذرے ہوں گے۔لیکن وہ عبقری آپکو نظر نہیں آ سکتے۔یہ سب بیرون ملک جاکر ہی نمایاں ہوئے ہیں پھر شاذ ہی واپس آتے پیں۔جسے بطور پتھر ایکسپورٹ کردیا اسکے بعد وہ ہیرا نکل آیا تو اس نقصان کا ذمہ دار کون ؟
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں۔۔۔۔۔۔
اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیرون ملک نہیں جاتے تو محکمہ اوزان میں چھوٹے یا درمیانی درجے کے عہدے پر کلر کی یا افسری کرکے ریٹائیر ہوجاتے۔
کیا ہوا آپکے تعلیمی نظام کو؟؟؟
اس نے انکی شناخت کیوں نہیں کی؟؟؟
قصور کس کا ہے؟؟؟
ان عبقریان کی ابتدائی تعلیم کا کریڈٹ آپکے اداروں کو بھی نہیں ملتاہے۔ عموماً ہمارا تربیتی نظام خام مال باہر بھیجتا ہے، پھر وہاں کا اعلی تعلیمی نظام اس پتھر کو ہیرا بناتا ہے۔
ہم صرف پتھر کی کان بن کر رہ گئے ہیں جس میں وقتا فوقتا ہیرے بھی نکلتے ہیں لیکن ان کی شناخت اورکٹائی کرکے کوہ نور میں تبدیل کرنے کے وسائل سے محروم ہو کر فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتے، کہ دینا میں خام مال پیدا کرنے والا بھوکا مرتا ہےاور اسے چمکا کر ویلیو ایڈیشن کرنے والا دولت میں کھیلتا ہے۔۔
ہم بجائے اپنے نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے آسان راستے تلاش کرکے خود ترحمی یا کامیاب اداروں یا لوگوں سے حسد میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
آج کی نقل مافیا کے دور میں ۹۰ فیصد سے زیادہ نمبر لینے والے کی قابلیت مشکوک ہے پھر بھی مطالبہ یہ ہے کہ انہیں قبول کرکے داخلوں کے مسابقتی ٹیسٹ کا نظام ختم کیا جائے۔ اور انٹر کے نتائج کی بنیاد پر اعلی ترین پروفیشنل اداروں میں کاہل، سست پڑہائی میں دلچسپی نہ رکھنے والے طلباء کو بھرا جائے؟؟
اس قسم کے طلباء کو مصنوعی طور پر آگے بڑہانے کا مطلب اپنے تعلیمی نظام کی رہی سہی حُرمت بھی پامال کرنا ہے۔ جبکہ امریکہ جیسے ملک میں اعلی تعلیم کے لئے اسکولوں کے نتائج قبول نہیں کیے جاتے بلکہ ایک اور ٹیسٹ SAT جس میں تقریباً تمام یونیورسٹی میں داخلے کے اُمیدواران کے لئے لازمی ہوتا ہے۔
جو طالبعلم پوری زندگی بے ایمانی دہاندلی کے ساتھ نقل اور سسٹم کو پامال کرکے آگے بڑہنے کا عادی ہو تو کل جب وہ ملک و قوم کی ذمہ داری اُٹھانے کی ذمہ داری پر فائز ہوگا تو آپ اس سے دیانت ایمانداری اور قابلیت کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟اس نیم کے پیڑ سے آموں کی پیداوار کی توقع کیوں؟
کوئین میری، ایچیسن ، بیکن ہاؤس، کراچی گرامر اسکول اور دیگر لاتعداد اداروں کو بھی شامل کردیں۔ یہ سب پاکستان کے ممتاز ترین اداروں میں شامل ہیں۔ آئی بی اے کی پچاس سالہ تاریخ ہے، وہ اپنے شعبے میں کم از کم پاکستان میں اعلی ترین تعلیم فراہم کررہے ہیں انکے طلباء کا عملی زندگی میں کامیابی کا ریکارڈ انکی پروڈکٹ کی کوالٹی اور کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر آپ کے پاس متبادل ادارے ہوں جو تعلیمی میدان میں انکی مسابقت کر سکیں تو شائد بیشتر والدین اپنے بچّوں کو ان اداروں میں بھیجنا نہیں پسند کریں گے۔
بجائے اشرافیہ کے تعلیمی اداروں پر تبرّے بھیجنے کے اگر عوامی یا سرکاری اداروں کے معیار میں بہتری کی کوشش کی جائے طلباء کی تعلیمی ہی نہیں اخلاقی تربیت کرکے نقل مافیا کی حوصلہ شکنی کی جائے تو آنے والی نسلیں امانت و دیانت کا سبق پڑھ کر نکلیں گے۔
یقینا اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی ثقافت کے بارے میں شکایات ہیں، تب بھی اسکا علاج انہیں بند کرنے کی بجائے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو ہمارے مذہب و ثقافت سے قریب اور تعلیمی طور پر ان اداروں سے کسی صورت میں کم نہ ہوں۔
کم ازکم کراچی میں واقعتاً اسپر بہت کام ہوا ہے جماعت اسلامی کے ذیراہتمام عثمان پبلک اسکول، اور اسکے علاوہ کئی نجی ادارے جو طلبہ کو بہترین تعلیم کے ساتھ دین و پاکستانیت بھی پیدا کررہے ہیں اور والدین بھی اپنے بچّوں میں بہتر تعلیم اور دین سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے اداروں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں۔گذشتہ سال کے پاک بھارت معرکے کے ہیرو اسکویڈرن لیڈر (اب غالبا ونگ کمانڈر ہیں) حسن صدیقی بھی عثمان پبلک اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔
یہ ایک اچھی ابتدا ہے وقت کے ساتھ یہ سلسلہ یونیورسٹی تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی عبقری سامنے آجائے تو انکے لئے مناسب رہنمائی کے انکی صلاحیتوں کو چمکانا تو ممکن ہے پر مناسب مواقعے فراہم کرکے اسکے فوائد حاصل کرنا تعلیمی اداروں سے بڑھ کر حکومتوں یا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اساتدہ اور تعلیمی ادارے اس کے بنیادی ستون ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں اساتدہ عبقریوں کی شناخت کرکے اور ضرورت پڑنے پر انہیں سہولیات و حوصلہ افزائی فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بھرپور نتائج حاصل کر سکیں چاہے وہ بزنس انٹرپرئنیر شپ میں ہوں یا سائنس و ٹیکنالوجی میں۔اور ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
انگور کھٹّے ہیں والی ذہنیت کسی کام کی نہیں ہے، کھٹّے انگوروں کا علاج میٹھے انگوروں کی فراوانی سے ہوگا۔
ویسے تو سرکاری شعبہ تعلیم بمقابلہ پرائیوٹ شعبہ کی جنگ دو سوکنوں کی لڑائی جیسی ہے ، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ اس جنگ میں سرکاری شعبہ تعلیم کے اہلکاران بغیر زیادہ محنت کے (چند ایک استثنائی شخصیات کے علاوہ) نوکر شاہی کی تنخواہ اور بعد از ریٹائیرمنٹ پینشن کی صورت میں زندگی بھر کے جو فوائد سمیٹتے ہیں وہ نجی اسکولوں کے اساتذہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
چونکہ نجی اسکولوں کے بارے میں بہتر معیار تعلیم دئیے جانے کاتصور ہے چاہے جماعت اسلامی کے زیر انتظام عثمان پبلک اسکول سسٹم ہی ہوں کی وجہ سے معاشرے میں انکی وقعت اور عزت بہرحال سرکاری اداروں سے زیادہ ہے، جو شاید ہمارے دوستوں کو نہ بھاتی ہو۔
ہمارے ایک دوست جو پیشے کے لحاظ سے سرکاری شعبہ تعلیم سے متعلق ہیں نے ایک سوال پوچھا کہ آئی بی اے، لمز، ایچیسن کوئین میری اور بیکن ہاؤس وغیرہ وغیرہ قسم کے تعلیمی اداروں نے پاکستان میں کتنے (creative)عبقری پیدا کیے یا بہترین مہارت یافتہ لکیر کے فقیر ہی بناتے رہے ؟
اس سوال کا جواب شعبہ تعلیم کے ایک ماہر کی حیثیت سے میرے دوست ہی کے ذمہ ہے۔طالبعلم ہیرا ہو یا پتھر اسکی تراش خراش کی ذمہ داری کس پر ہے؟
سب سے پہلے اسکا تعین کیا جائے کہ تعلیمی اداروں کی بنیادی ذمہ داری کیا ہے؟ دنیا کے کسی بھی نظام میں تعلیمی اداروں کی ذمہ داری عبقری پیدا کرنا نہیں جو ویسے بھی دنیاکے تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہزاروں میں ایک ہی ہوتا ہے۔
بلکہ اصل ذمہ داری ۹۹ فیصد سے زائد عام طلباء کو معیاری تعلیم کے ذریعے انہیں انکی صلاحیتوں کے بہترین استعمال کے لائق بناکر معاشرے کا مفیدحصہ بنانا ہوتا ہے۔
کوئی اسکول کالج یونیورسٹی عبقری نہیں بناتا، اگر ایسا ہوتا تو والدین کے لئے آسان ہوتا کہ اپنے بچّے کو کسی بھی عبقری مینوفیکچرنگ پلانٹ (ایلیٹ تعلیمی ادارے میں) داخل کرادے اور بنا بنایا عبقری ڈھل کر باہر نکل جائے آئے۔ لیکن گدھے کو گھوڑوں کے اصطبل میں رکھ کر گھوڑا نہیں بنایا جاسکتا۔
عبقری اسکول یونیورسٹی چاہے ہاورڈ ہو یا لمس اور آئی بی اے نہیں پیدا کرتے ہیں، وہ تو پیدائشی ہوتے ہیں ۔بعد میں مناسب ماحول و تراش خراش کے بعد پتہ چلتا ہے کہ وہ بھدّا سا پتھر تو درحقیقت کوہ نور تھا۔ بل گیٹس، مائیکل ڈیل ہو یا مارک زکربرگ جن سے دنیا واقف ہے۔ انہیں عبقری ہاورڈ یونیورسٹی نے نہیں بنایا، وہ پیدائشی عبقری تھے، ہاورڈ نے شاید ماحول فراہم کیا کہ انکی صلاحیتیں سامنے آگئیں۔ہمارے ہاں بھی نہ جانے کتنے عبقری شناخت کے منتظر رہ جاتے ہیں۔
کتنے غالبؔ تھے کہ پیدا ہوئے اور مر بھی گئے
قدر دانوں کو تخلص کی خبر ہونے تک
کیا ہمارا نظام تعلیم اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کررہا ہے؟ اگر نہیں تو ناکامی نظام تعلیم کی ہے اور استاد اس نظام کے حصہ کے طور پر پورا ذمہ دار ہے۔ لیکن سوال صرف چند اداروں سے ہی کیوں۔ قوم کی تعلیم کے ذمہ دار اپنے گریبان میں جھانک کر بتانا پسند کریں گے کہ کیا وہ اپنے فرائض کماحقہ طور پر انجام دے رہے ہیں؟
کاش ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے بہترین مہارت یافتہ لکیر کے فقیر ہی پیدا کرسکتے تو کس کمبخت کو ان اونچی و مہنگی تعلیمی دوکانوں کی ضرورت پیش آتی؟
ملک کی ۹۹ فیصد سے ذائد آبادی انکے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے اس تعلیم سے حاصل کردہ نتائج کا حال بتانے کی بجائے ایک فیصد سے کم طلباء والے اداروں سے نتائج کا سوال بنتا تو نہیں ہے۔
یقینا مذکورہ بالا اور ان جیسے سینکڑوں نجی تعلیمی ادارے اپنی سطح پر اعلی ترین تعلیم دے کر اپنے طلباء کو عملی زندگی یا مزید اعلی تعلئم کے لیے تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔وہ اپنی بنیادی ذمہ داری توبحسن و خوبی انجام دے ہی رہے ہیں۔ان اداروں کا میٹرک و انٹر ہو یا او لیول کا طالبعلم ہمارے ۹۰ فیصد سرکاری اداروں سے تعلیمی لحاظ سے بہتر ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ساری دنیا میں اشرافیہ کے تعلیمی ادارے نہ صرف اپنے طلباء کو بہترین تعلیم اور انکی شخصیت کو معیاری (اس پر بحث کی گنجائش ہے کہ ’’معیار‘‘ اپنا اپنا ہوتا ہے) غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے، اپنے نصاب کے لحاظ سے مضبوط، پُراعتماد بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اسکا نتیجہ یہ ضرور نکلتاہے کہ انکے طلباء عبقری نہ بھی ہوں تب بھی تعلیمی طور پر بہتر قابلیت ہی نہیں، بلکہ عام زندگی میں بہتر پُراعتماد شخصیت کے ساتھ اُترتے ہیں، اور یہی اعتماد انکے عملی زندگی میں آگے بڑہنے میں کار آمد ثابت ہوتا ہے۔
یقیناً ہمارے سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے بھی عبقری گذرے ہوں گے۔لیکن وہ عبقری آپکو نظر نہیں آ سکتے۔یہ سب بیرون ملک جاکر ہی نمایاں ہوئے ہیں پھر شاذ ہی واپس آتے پیں۔جسے بطور پتھر ایکسپورٹ کردیا اسکے بعد وہ ہیرا نکل آیا تو اس نقصان کا ذمہ دار کون ؟
غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں۔۔۔۔۔۔
اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان بیرون ملک نہیں جاتے تو محکمہ اوزان میں چھوٹے یا درمیانی درجے کے عہدے پر کلر کی یا افسری کرکے ریٹائیر ہوجاتے۔
کیا ہوا آپکے تعلیمی نظام کو؟؟؟
اس نے انکی شناخت کیوں نہیں کی؟؟؟
قصور کس کا ہے؟؟؟
ان عبقریان کی ابتدائی تعلیم کا کریڈٹ آپکے اداروں کو بھی نہیں ملتاہے۔ عموماً ہمارا تربیتی نظام خام مال باہر بھیجتا ہے، پھر وہاں کا اعلی تعلیمی نظام اس پتھر کو ہیرا بناتا ہے۔
ہم صرف پتھر کی کان بن کر رہ گئے ہیں جس میں وقتا فوقتا ہیرے بھی نکلتے ہیں لیکن ان کی شناخت اورکٹائی کرکے کوہ نور میں تبدیل کرنے کے وسائل سے محروم ہو کر فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں ہوتے، کہ دینا میں خام مال پیدا کرنے والا بھوکا مرتا ہےاور اسے چمکا کر ویلیو ایڈیشن کرنے والا دولت میں کھیلتا ہے۔۔
ہم بجائے اپنے نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے آسان راستے تلاش کرکے خود ترحمی یا کامیاب اداروں یا لوگوں سے حسد میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
آج کی نقل مافیا کے دور میں ۹۰ فیصد سے زیادہ نمبر لینے والے کی قابلیت مشکوک ہے پھر بھی مطالبہ یہ ہے کہ انہیں قبول کرکے داخلوں کے مسابقتی ٹیسٹ کا نظام ختم کیا جائے۔ اور انٹر کے نتائج کی بنیاد پر اعلی ترین پروفیشنل اداروں میں کاہل، سست پڑہائی میں دلچسپی نہ رکھنے والے طلباء کو بھرا جائے؟؟
اس قسم کے طلباء کو مصنوعی طور پر آگے بڑہانے کا مطلب اپنے تعلیمی نظام کی رہی سہی حُرمت بھی پامال کرنا ہے۔ جبکہ امریکہ جیسے ملک میں اعلی تعلیم کے لئے اسکولوں کے نتائج قبول نہیں کیے جاتے بلکہ ایک اور ٹیسٹ SAT جس میں تقریباً تمام یونیورسٹی میں داخلے کے اُمیدواران کے لئے لازمی ہوتا ہے۔
جو طالبعلم پوری زندگی بے ایمانی دہاندلی کے ساتھ نقل اور سسٹم کو پامال کرکے آگے بڑہنے کا عادی ہو تو کل جب وہ ملک و قوم کی ذمہ داری اُٹھانے کی ذمہ داری پر فائز ہوگا تو آپ اس سے دیانت ایمانداری اور قابلیت کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟اس نیم کے پیڑ سے آموں کی پیداوار کی توقع کیوں؟
کوئین میری، ایچیسن ، بیکن ہاؤس، کراچی گرامر اسکول اور دیگر لاتعداد اداروں کو بھی شامل کردیں۔ یہ سب پاکستان کے ممتاز ترین اداروں میں شامل ہیں۔ آئی بی اے کی پچاس سالہ تاریخ ہے، وہ اپنے شعبے میں کم از کم پاکستان میں اعلی ترین تعلیم فراہم کررہے ہیں انکے طلباء کا عملی زندگی میں کامیابی کا ریکارڈ انکی پروڈکٹ کی کوالٹی اور کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اگر آپ کے پاس متبادل ادارے ہوں جو تعلیمی میدان میں انکی مسابقت کر سکیں تو شائد بیشتر والدین اپنے بچّوں کو ان اداروں میں بھیجنا نہیں پسند کریں گے۔
بجائے اشرافیہ کے تعلیمی اداروں پر تبرّے بھیجنے کے اگر عوامی یا سرکاری اداروں کے معیار میں بہتری کی کوشش کی جائے طلباء کی تعلیمی ہی نہیں اخلاقی تربیت کرکے نقل مافیا کی حوصلہ شکنی کی جائے تو آنے والی نسلیں امانت و دیانت کا سبق پڑھ کر نکلیں گے۔
یقینا اشرافیہ کے تعلیمی اداروں کی ثقافت کے بارے میں شکایات ہیں، تب بھی اسکا علاج انہیں بند کرنے کی بجائے ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو ہمارے مذہب و ثقافت سے قریب اور تعلیمی طور پر ان اداروں سے کسی صورت میں کم نہ ہوں۔
کم ازکم کراچی میں واقعتاً اسپر بہت کام ہوا ہے جماعت اسلامی کے ذیراہتمام عثمان پبلک اسکول، اور اسکے علاوہ کئی نجی ادارے جو طلبہ کو بہترین تعلیم کے ساتھ دین و پاکستانیت بھی پیدا کررہے ہیں اور والدین بھی اپنے بچّوں میں بہتر تعلیم اور دین سے تعلق پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے اداروں میں بھیجنا پسند کرتے ہیں۔گذشتہ سال کے پاک بھارت معرکے کے ہیرو اسکویڈرن لیڈر (اب غالبا ونگ کمانڈر ہیں) حسن صدیقی بھی عثمان پبلک اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔
یہ ایک اچھی ابتدا ہے وقت کے ساتھ یہ سلسلہ یونیورسٹی تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ اس دوران اگر کوئی عبقری سامنے آجائے تو انکے لئے مناسب رہنمائی کے انکی صلاحیتوں کو چمکانا تو ممکن ہے پر مناسب مواقعے فراہم کرکے اسکے فوائد حاصل کرنا تعلیمی اداروں سے بڑھ کر حکومتوں یا اداروں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اساتدہ اور تعلیمی ادارے اس کے بنیادی ستون ہیں۔
تعلیمی اداروں میں ایسا نظام وضع کیا جائے جس میں اساتدہ عبقریوں کی شناخت کرکے اور ضرورت پڑنے پر انہیں سہولیات و حوصلہ افزائی فراہم کی جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے بھرپور نتائج حاصل کر سکیں چاہے وہ بزنس انٹرپرئنیر شپ میں ہوں یا سائنس و ٹیکنالوجی میں۔اور ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
انگور کھٹّے ہیں والی ذہنیت کسی کام کی نہیں ہے، کھٹّے انگوروں کا علاج میٹھے انگوروں کی فراوانی سے ہوگا۔