Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
کشمیر کا نام سنتے ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر کے ایک جوان سال دانشور اور تخلیق کارہیں۔انہوں نے اقبال انسٹی ٹیوٹ کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی سے اقبالیات میں ڈاکٹریٹ کیا ہے۔انہیں کشمیر یونیورسٹی سے بیسٹ اسکالر ایوراڈ بصورت گولڈ میڈل بھی ملا ہے۔جموں وکشمیر محکمہ تعلیم میں بحیثیت لیکچرر اردو تعینات ہیں۔ڈاکٹرریاض توحیدی بحیثیت نقاد’ افسانہ نگار اور ماہر اقبالیات کے عصری ادبی منظر نامے میں نمایاں مقام کے حامل ہیں۔اردو زبان وادب کو سائبر دنیا سے جوڑنے میں اہم کردار نبھا رہے ہیں۔سوشل میڈیا خصوصا فیس بک اور واٹس اپ کے ادبی فورمز پر پچھلے کئی برسوں سے متحرک ہیں۔علاوہ ازیں سمینارز اور ویبنارس میں بھی انہیں خصوصی طور پر بلایا جاتا ہے۔تعلیم وتدریس کے علاوہ ان کا ادبی کام کافی وسیع ہیں۔خصوصا تحقیق وتنقید اور فکشن نگاری میں اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔ان کی پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔جن میں”جہان اقبال””ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال شناس(اقبالیات)”کالے پیڑوں کا جنگل” کالے دیووں کا سایہ”(افسانے)”معاصر اردو افسانہ۔۔۔تفہیم وتجزیہ”(تنقید)شامل ہیں۔ان میں ایک دوکتابوں کے دوسرے ایڈیشن پاکستان میں بھی شائع ہوچکے ہیں۔پاک وہند کے علاوہ دنیا کے کئی ممالک کے معیاری اردو رسائل میں ان کی تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ریاض توحیدی کے بیشتر افسانے علامتی اسلوب کے حامل ہیں اور ان کے تنقیدی مضامین میں تنقید اور تھیوری کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔جس کی وجہ سے ان کی تنقید تخلیقی تنقید کے زمرے میں آتی ہے۔انہیں کئی ایوارڈ بھی ملے ہیں ۔جن میں کتاب”معاصر اردو افسانہ۔۔۔تفہیم وتجزیہ”پر اترپردیش اردو اکاڈمی کا حالیہ برس کا ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ان کے پسندیدہ شعراء وادب میں زہیر بن سلمی’عنترہ بن شداد’جاحظ’طحہ حسین’خلیل جبران’سعدی شیرازی’غنی کاشمیری’ٹالسٹائے’کیٹس’ولیم بلیک’ولیم ورڈس ورتھ’نارتھروپ فرائی’بودلئر’میر’غالب ‘اقبال’حالی’حامدی کاشمیری’محمود درویش’پریم چند’انتظار حسین’قرۃ العین حیدروغیرہ شامل ہیں۔
ریاض توحیدی نئی نسل کے ایک ہونہار، محنتی اور نکتہ رس ناقد کی حیثیت سے ریاست کی ادبی فضا میں انپی اہمیت منوا رہے ہیں۔ علامہ اقبال کی کثیر الجہات شخصیت اور خاص کر ان کی علمی، سماجی اور فلسفیانہ حیثیات کا غائر مطالعہ ان کی اوّلین ترجیح ہے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اسکالرز جامعات اردو سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے ساتھ کاتا اور لے دوڑی کے مصداق اسے منظر عام پر لاتے ہیں، توحیدی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی تھیسس ہی کو حرف آخر سمجھ کر قرطاس و علم سے وداع نہیں ہوئے بلکہ توحیدی اس کے علی الرغم اپنی تھیسس پر تنقیدی نظر ڈال کر اسے موضوعی طور خوب سے خوب تر کا سفر جاری رکھتے ہیں، چناں چہ وہ اپنے تحقیقی کام کو لے کر منزل اوّل کو طے کر کےس تاروں سے آگے کے جہانوں کی یافت کا عزم رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی نے علامہ اقبال پر اپنے تحقیقی اور تنقیدی کام کو اس حد تک بڑھایا ہے کہ علامہ کی شخصیت کی مختلف جہات کی تشریح کی ہے، اس طرح سے وہ عمومی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنے ذہن و فکر کو بھی کام میں لاتے ہیں۔ انھوں نے اقبال کے شائقین، معاصرین، ممد و جین اور ناقدین کے خیالات کو بھی زیربحث لایا ہے۔
ڈاکٹر توحیدی اقبالیات کے ایک نو عمر اور تازہ کار محقق ہیں۔ وہ اقبال شناسی کی تفہیم و تحسین کے پیچیدہ اور طویل راستے پر گامزن ہیں۔ وہ اپنا ذوق سفر قائم رکھیں گے، انشاء اللہ۔
حیات، ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں۔
ڈاکڑریاض توحیدی کا ادبی سفر ۲۰۰۷ء میں ایک تنقیدی مضمون بعنوان ’ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم بحیثیت اقبال شناس‘ سے شروع ہوا۔ ان کا یہ مضمون اردو اکاڈمی دہلی کے مؤقر ماہنامہ ’ایوانِ اردو‘ میں جون ۲۰۰۷ء میں شائع ہو چکا ہے۔ تب سے اب تک ان کے کئی مضامین اور تقریباً (۱۰۰) سے زائد افسانے مختلف رسائل اور سوشل میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔
ریاض توحیدی کو زبان و بیان پر پورا عبور حاصل ہے۔ افسانے کے واقعات کو بہت حد تک فرضیت میں مبدل کرتے ہیں اور یہی ان کی افسانہ نگاری کی پہچان ہے“
وہ اپنے افسانوی مجموعے کے دیباچے میں قابل غور وضاحت کرتے ہیں:
”یہ سمجھتا ہوں کہ جب ظلم کاتیشہ مظلوم کے ننگے بدن پر وار کرتا ہے تو وار سہتے سہتے مظلوم کے دل سے جو پر شور آواز نکلتی ہے، وہ آواز ہمارے افسانوں میں بھی سنائی دینی چاہیے.
ریاض توحیدی بغیر لگی لپٹی اور کسی خوف کی پرواہ کئے بغیر اپنے افسانوں میں جموں و کشمیر کے خوفناک واقعات اور مظالم و مسائل کی سچی اور جیتی جاگتی تصویر پیش کرتے ہیں۔جن میں افسانہ”ڈپریشن“ میں نوجوان صابرکی کہانی بھی شامل ہے جو کشمیر کے تناؤ زدہ ماحول کی وجہ سے نفسیاتی تناؤ کا شکار ہوچکا ہے۔‘افسانہ”گمشدہ قبرستان“ کا کردار سلطان بھی شامل ہے جو ظلم کا مقابلہ کرتے کرتے گمشدہ قبرستان میں دفن ہوکر اپنی نئی نویلی دلہن ”سلطانہ“ کو کرب ریز انتظار کی کہانی پیش کررہا ہے اورجان لیوا انتظار سے چور ہوکروہ امید کے بھنور میں سوچتی ہے کہ”وہ بیوہ ہیں کہ سہاگن۔۔۔؟ اسی طرح افسانہ ”کالے دیوؤں کا سایہ“ کے خوفناک منظر نامے میں کشمیریوں کی بے بسی اور بے کسی کا یہ افسانوی روپ ”غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالے دیوؤں کا خوفناک سایہ بستی کی خاموش فضا پر آندھی بن کر چھا جاتا اور شل زدہ ذہنوں میں ماتم کی دھنیں بجنا شروع ہوجاتیں۔“ یا حال ہی میں فیس بک کے ایک معتبر افسانوی فورم ”اردو افسانہ فورم“ پر ان کا افسانہ”دردِ کشمیر“ کے عمر رسید ہ کردار خضر بٹ اور خدیجہ بیگم کی درد بھری کہانی سناتا ہے‘جن کے دونوں بیٹے درد کشمیر کو دل میں چھپائے مقامی قبرستان میں دفن ہیں۔اور جسے لکھ کر افسانہ نگار نے دنیا بھر کے قارئین کو درد کشمیر پر خون کے آنسو بہانے پر مجبور کردیا۔خضر بٹ کی زبان سے جموں وکشمیر کی حالت زار کی عکاسی کرتا ہوا یہ اقتباس دیکھیں‘جس میں پوری ایک تاریخ کو سمویا گیا ہے:
”اس کے بعد وہ سوچ میں پڑ گیا کہ دنیا سے آس بھری امیدیں ہم سنتالیس سے لگا بیٹھے ہیں لیکن اقوام متحدہ جیسا امن‘
آزادی اور جمہوریت کا علمبردار ادارہ میں سفید کرگسوں کی اڑان کے مطابق ہی اپنے فیصلے سناتا رہتا ہے۔نہیں تو ہمارا
حل طلب مسئلہ بھی برسوں سے اس کے انصاف کا منتظر ہے۔“
ڈاکٹر ریاض توحیدی کے ایک ایک افسانے کا کینوس اتنا وسیع ہے کہ ان پر ایک ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ان کے افسانے نہ صرف مقامی ماحول کا درد وکرب پیش کرتے ہیں بلکہ کئی شاندار افسانے عالمی منظر نامے کی بھی عمدہ فنی عکاسی کرتے ہیں۔جن میں سفید ہاتھی‘ تیسری جنگ عظیم سے قبل‘ گلوبل جھوٹ‘ سفید تابوت‘ جنت والی چابی‘ مشن القدس‘ ہائی جیک‘سفید جنگ وغیرہ شامل ہیں۔جن کے تعلق سے پروفیسر قدوس جاوید اپنے ایک مضمون جو کشمیر عظمی میں شائع ہوا تھا‘ لکھتے ہیں:
”9/11‘کے بعد اور عالمی منظر نامے پر رونما ہورہے واقعات و حادثات کی تصویر کشی کرتے ہوئے موصوف”سفید تابوت“, ”مشن القدس“”اور ہائی جیک“جیسے افسانوں میں گہرے شعور اور وسیع مشاہدے کے بل پر تہذیبی تصادم کے سازشی محرکات کو علامتی اسلوب کے توسط سے آشکار کرتے نظر آرہے ہیں۔“
اس طرح سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری ایک محدود دائرے کے اندر رہ کر ادب تخلیق نہیں کرتے بلکہ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح کے موضوعات پر بصیرت افروز افسانے لکھے ہیں اور اسی کی بدولت وہ صرف کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی بحیثیت افسانہ نگار اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
ڈاکٹرریاض توحیدی ایک افسانہ نگار اور ناقد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی شخصیت کے مالک بھی ہیں جو نئی نسل کی رہنمائی کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں‘جو کہ آج کے نفسا نفسی کے دور میں ایک اہم خوبی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔
***