• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

اسکول مالکان کی لوٹ مار

سکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے

محمد اشفاق by محمد اشفاق
August 20, 2020
in تبادلہ خیال
0
اسکول مالکان کی لوٹ مار
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

“آپ کے بچے کی رپورٹ کارڈ میں کورس اور یونیفارم کی پرچی لگی ھوئی ھے۔آپ اپنے بچے کا کورس اور یونیفارم ان ہی دکانوں سے خریدیں گے۔”
اس طرح کی گفتگو کا سامنا ہر سال کم وبیش ان تمام والدین کو کرنا پڑتا ھو گا جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا پورا ملک کمیشن پر چل رہا ھے۔ کوئی کاروبار کرنا ھو یا کوئی ٹھیکہ لینا ھو، بناء کمیشن کے ممکن نہیں۔حتیٰ کہ ھسپتال اور نجی تعلیمی ادارے بھی کمیشن کے کاروبار سے نہیں بچ سکے۔
نجی تعلیمی اداروں میں یہ کام بہت منظم طریقے سے کیا جاتا ھے اور اس کمیشن کا اثر براہ راست والدین کی جیبوں پر پڑتا ھے۔
تعلیمی سال کے اختتام پر تین طرح کے کاروبار کرنے والے اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے Book sellers یا پبلشر کا نمبر آتا ھے جن کی دکانیں عام طور پر اس اسکول کے قریب ھوتی ہیں۔ ہر بک سیلر کی خواہش ھوتی ھے کہ اس کی دکان کی Book slip ہر بچے کی رپورٹ کارڈ میں لگائی جاۓ۔اور پھر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ اسی مخصوص دکان سے کورسز خریدیں۔
وہBook seller ،اسکول کے بچوں کی تعداد اور کتابوں کے پبلشرز کو مدنظر رکھتے ھوۓ اسکول مالکان کو ایک خاص رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔ایسے کئ پبلشر اسکول آتے ہیں اور اپنی بولی دے جاتے ہیں۔جس بک سیلر کی آفر سب سے زیادہ پر کشش ھوتی ھے یعنی جو پبلشر سب سے زیادہ کمیشن کی پیشکش کرتا ھے اسکول مالکان اسی کو کاپیوں اور کتابوں کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ کمیشن کی کچھ رقم ایڈوانس کےطور پر دے دی جاتی ھے اور باقی رقم کے لیے ایک ٹائم پیریڈ طے کر لیا جاتا ھے۔
یہ کمیشن اسکول مالکان کا منہ بند کر دیتا ھے۔ اب بک سیلر کتابوں پر اپنی من مانی قیمتوں والے اسٹیکر لگاتے ہیں اور والدین اس Book seller کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند ایک والدین اسکول کے مالکان سے شکایت کرتے ہیں۔اسکول مالکان ان کو جھوٹی تسلی دے کر یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ Book seller کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بعض اسکولوں نے تو بہت زیادہ ہی اندھیر مچائی ھوئی ھے۔ وہ بک سیلر کے ساتھ مل کر کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرا پورا ایک بیگ ہی تیار کر لیتے ہیں اور ہر کلاس کے بیگ کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی جاتی ھے۔ ہر بچے کے والدین کو وہ بیگ خریدنا لازمی ھوتا ھے۔ انھیں یہ پوچھنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ بیگ میں موجود کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کے دیگر سامان کی علیحدہ علیحدہ کیا قیمت ھے۔ اس کالے دھندے میں اسکول مالکان اور Book sellers برابر کے شریک ھوتے ہیں اور والدین کو خوب لوٹتے ہیں۔ در حقیقت یہ وقت اسکول مالکان اور Book sellers کے لیے کمانے کا season ھوتا ھے۔ اور دونوں season لگا رہے ھوتے ہیں۔
اگلا نمبر یونیفارم والے کا ھے۔ نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی یونیفارم والے بھی اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی بھی وہی خواہش کہ ان کی دکان کی پرچی رپورٹ کارڈ میں لگا کر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ ان ہی کی دکان سے یونیفارم خریدیں۔ وہ بھی ایک خاص رقم بطور کمیشن اسکول مالکان کو آفر کرتے ہیں۔کمیشن لینے کے بعد یونیفارم والا بھی اپنی قیمتوں پر یونیفارم بیچتا ھے۔ والدین یونیفارم والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بعض اوقات بھاری کمیشن کے چکر میں یونیفارم میں بڑی تبدیلی کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح مونو گرام کی بھی من مانی قیمت وصول کی جاتی ھے۔
تیسرے قسم کے لوگوں کا تعلق اسکول کینٹین سے ھے۔ اسکول مالکان کینٹین کا پورے سال کا ٹھیکہ دیتے ہیں۔ ٹھیکہ جتنا بڑا ھوتا ھے کینٹین والا اسی حساب سے بچوں کو پورا سال لوٹتا ھے۔وہ کینٹین میں فروخت ھونے والی تمام اشیاء کے منہ مانگے دام وصول کرتا ھے۔ ان کینٹین والوں کو معصوم بچوں کی جیب خرچیاں لوٹتے شرم نہیں آتی۔
زائد منافع کے چکر میں کینٹین میں خراب کوالٹی کی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں اور بچوں کی صحت سے کھیلا جاتا ھے۔
اس معاملے میں بھی والدین بے بس ھوتے ہیں۔ وہ کینٹین والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس سارے دھندے میں اسکول مالکان خود ملوث ھوتے ہیں .
اسکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
کیا آپ کے بچے کے رپورٹ کارڈ میں بھی ایسی پرچیاں لگی ھوتی ھیں؟ کیا آپ کے بچے کے اسکول کینٹین میں بھی مہنگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں؟

Ad (2024-01-27 16:31:23)
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: اسکول بکساسکول مافیااسکول مالکاناسکول یونیفارم
Previous Post

اسرائیل پر اگر مگر جبکہ کشمیر ہاتھ سے نکل رہا ہے، سراج الحق

Next Post

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر کاایک نکتہ رس نقاد

محمد اشفاق

محمد اشفاق

کئی سال بیرون ملک ملازمت کرنے اور کراچی یونیورسٹی سے شعبہ ابلاغ عامہ میں ماسٹر کرنے کے بعد میں نے کچھ عرصہ تک فری لانس صحافت کی۔لیکن اسے اپنا پیشہ نہ بنایا۔اس کی بجاۓ میں نے ٹیچنگ کو ترجیح دی۔ ٹیچنگ میں پہلی ملازمت 1996 میں کی۔ دو سال مختلف اداروں میں ٹیچنگ کے بعد مجھے پتہ چلا کہ ٹیچرپڑھانے میں آزاد نہیں۔اور ان پر بے پناہ پابندیاں عائد ہیں۔ ان پابندیوں سے تنگ آکر میں نے دی اسکالر اکیڈمی کی بنیاد رکھی۔ اس ادارے میں یوں تو کئ خوبیاں ہیں لیکن جو خوبی اسے دوسرے اداروں سے ممتاز کرتی ھے وہ یہ کہ اس اسکول میں داخلہ لینے والا ہر بچہ تعلیمی طور پر insure ھوتا ھے۔ مثال کے طور پر اگر ایک بچے نے پہلی جماعت میں داخلہ لیا اور تیسری یا کسی بھی جماعت میں اس کے والد کا کسی بھی وجہ سے انتقال ھو جاۓ تو اس بچے کی میٹرک تک کی تعلیم مفت کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح داخلہ لینے والے بچے کے والدین کورس اور یونیفارم خریدنے میں آزاد ھوتے ہیں۔اسکول میں ماہانہ اور سالانہ فیس کے علاوہ اور کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی۔ ادارے میں ریڈنگ ، لکھائ اور املا پر خصوصی توجہ دی جاتی ھے۔

Next Post
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر کاایک نکتہ رس نقاد

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیر کاایک نکتہ رس نقاد

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions