Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
“آپ کے بچے کی رپورٹ کارڈ میں کورس اور یونیفارم کی پرچی لگی ھوئی ھے۔آپ اپنے بچے کا کورس اور یونیفارم ان ہی دکانوں سے خریدیں گے۔”
اس طرح کی گفتگو کا سامنا ہر سال کم وبیش ان تمام والدین کو کرنا پڑتا ھو گا جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا پورا ملک کمیشن پر چل رہا ھے۔ کوئی کاروبار کرنا ھو یا کوئی ٹھیکہ لینا ھو، بناء کمیشن کے ممکن نہیں۔حتیٰ کہ ھسپتال اور نجی تعلیمی ادارے بھی کمیشن کے کاروبار سے نہیں بچ سکے۔
نجی تعلیمی اداروں میں یہ کام بہت منظم طریقے سے کیا جاتا ھے اور اس کمیشن کا اثر براہ راست والدین کی جیبوں پر پڑتا ھے۔
تعلیمی سال کے اختتام پر تین طرح کے کاروبار کرنے والے اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے Book sellers یا پبلشر کا نمبر آتا ھے جن کی دکانیں عام طور پر اس اسکول کے قریب ھوتی ہیں۔ ہر بک سیلر کی خواہش ھوتی ھے کہ اس کی دکان کی Book slip ہر بچے کی رپورٹ کارڈ میں لگائی جاۓ۔اور پھر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ اسی مخصوص دکان سے کورسز خریدیں۔
وہBook seller ،اسکول کے بچوں کی تعداد اور کتابوں کے پبلشرز کو مدنظر رکھتے ھوۓ اسکول مالکان کو ایک خاص رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔ایسے کئ پبلشر اسکول آتے ہیں اور اپنی بولی دے جاتے ہیں۔جس بک سیلر کی آفر سب سے زیادہ پر کشش ھوتی ھے یعنی جو پبلشر سب سے زیادہ کمیشن کی پیشکش کرتا ھے اسکول مالکان اسی کو کاپیوں اور کتابوں کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ کمیشن کی کچھ رقم ایڈوانس کےطور پر دے دی جاتی ھے اور باقی رقم کے لیے ایک ٹائم پیریڈ طے کر لیا جاتا ھے۔
یہ کمیشن اسکول مالکان کا منہ بند کر دیتا ھے۔ اب بک سیلر کتابوں پر اپنی من مانی قیمتوں والے اسٹیکر لگاتے ہیں اور والدین اس Book seller کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند ایک والدین اسکول کے مالکان سے شکایت کرتے ہیں۔اسکول مالکان ان کو جھوٹی تسلی دے کر یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ Book seller کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بعض اسکولوں نے تو بہت زیادہ ہی اندھیر مچائی ھوئی ھے۔ وہ بک سیلر کے ساتھ مل کر کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرا پورا ایک بیگ ہی تیار کر لیتے ہیں اور ہر کلاس کے بیگ کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی جاتی ھے۔ ہر بچے کے والدین کو وہ بیگ خریدنا لازمی ھوتا ھے۔ انھیں یہ پوچھنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ بیگ میں موجود کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کے دیگر سامان کی علیحدہ علیحدہ کیا قیمت ھے۔ اس کالے دھندے میں اسکول مالکان اور Book sellers برابر کے شریک ھوتے ہیں اور والدین کو خوب لوٹتے ہیں۔ در حقیقت یہ وقت اسکول مالکان اور Book sellers کے لیے کمانے کا season ھوتا ھے۔ اور دونوں season لگا رہے ھوتے ہیں۔
اگلا نمبر یونیفارم والے کا ھے۔ نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی یونیفارم والے بھی اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی بھی وہی خواہش کہ ان کی دکان کی پرچی رپورٹ کارڈ میں لگا کر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ ان ہی کی دکان سے یونیفارم خریدیں۔ وہ بھی ایک خاص رقم بطور کمیشن اسکول مالکان کو آفر کرتے ہیں۔کمیشن لینے کے بعد یونیفارم والا بھی اپنی قیمتوں پر یونیفارم بیچتا ھے۔ والدین یونیفارم والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بعض اوقات بھاری کمیشن کے چکر میں یونیفارم میں بڑی تبدیلی کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح مونو گرام کی بھی من مانی قیمت وصول کی جاتی ھے۔
تیسرے قسم کے لوگوں کا تعلق اسکول کینٹین سے ھے۔ اسکول مالکان کینٹین کا پورے سال کا ٹھیکہ دیتے ہیں۔ ٹھیکہ جتنا بڑا ھوتا ھے کینٹین والا اسی حساب سے بچوں کو پورا سال لوٹتا ھے۔وہ کینٹین میں فروخت ھونے والی تمام اشیاء کے منہ مانگے دام وصول کرتا ھے۔ ان کینٹین والوں کو معصوم بچوں کی جیب خرچیاں لوٹتے شرم نہیں آتی۔
زائد منافع کے چکر میں کینٹین میں خراب کوالٹی کی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں اور بچوں کی صحت سے کھیلا جاتا ھے۔
اس معاملے میں بھی والدین بے بس ھوتے ہیں۔ وہ کینٹین والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس سارے دھندے میں اسکول مالکان خود ملوث ھوتے ہیں .
اسکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
کیا آپ کے بچے کے رپورٹ کارڈ میں بھی ایسی پرچیاں لگی ھوتی ھیں؟ کیا آپ کے بچے کے اسکول کینٹین میں بھی مہنگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں؟
“آپ کے بچے کی رپورٹ کارڈ میں کورس اور یونیفارم کی پرچی لگی ھوئی ھے۔آپ اپنے بچے کا کورس اور یونیفارم ان ہی دکانوں سے خریدیں گے۔”
اس طرح کی گفتگو کا سامنا ہر سال کم وبیش ان تمام والدین کو کرنا پڑتا ھو گا جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا پورا ملک کمیشن پر چل رہا ھے۔ کوئی کاروبار کرنا ھو یا کوئی ٹھیکہ لینا ھو، بناء کمیشن کے ممکن نہیں۔حتیٰ کہ ھسپتال اور نجی تعلیمی ادارے بھی کمیشن کے کاروبار سے نہیں بچ سکے۔
نجی تعلیمی اداروں میں یہ کام بہت منظم طریقے سے کیا جاتا ھے اور اس کمیشن کا اثر براہ راست والدین کی جیبوں پر پڑتا ھے۔
تعلیمی سال کے اختتام پر تین طرح کے کاروبار کرنے والے اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے Book sellers یا پبلشر کا نمبر آتا ھے جن کی دکانیں عام طور پر اس اسکول کے قریب ھوتی ہیں۔ ہر بک سیلر کی خواہش ھوتی ھے کہ اس کی دکان کی Book slip ہر بچے کی رپورٹ کارڈ میں لگائی جاۓ۔اور پھر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ اسی مخصوص دکان سے کورسز خریدیں۔
وہBook seller ،اسکول کے بچوں کی تعداد اور کتابوں کے پبلشرز کو مدنظر رکھتے ھوۓ اسکول مالکان کو ایک خاص رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔ایسے کئ پبلشر اسکول آتے ہیں اور اپنی بولی دے جاتے ہیں۔جس بک سیلر کی آفر سب سے زیادہ پر کشش ھوتی ھے یعنی جو پبلشر سب سے زیادہ کمیشن کی پیشکش کرتا ھے اسکول مالکان اسی کو کاپیوں اور کتابوں کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ کمیشن کی کچھ رقم ایڈوانس کےطور پر دے دی جاتی ھے اور باقی رقم کے لیے ایک ٹائم پیریڈ طے کر لیا جاتا ھے۔
یہ کمیشن اسکول مالکان کا منہ بند کر دیتا ھے۔ اب بک سیلر کتابوں پر اپنی من مانی قیمتوں والے اسٹیکر لگاتے ہیں اور والدین اس Book seller کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند ایک والدین اسکول کے مالکان سے شکایت کرتے ہیں۔اسکول مالکان ان کو جھوٹی تسلی دے کر یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ Book seller کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بعض اسکولوں نے تو بہت زیادہ ہی اندھیر مچائی ھوئی ھے۔ وہ بک سیلر کے ساتھ مل کر کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرا پورا ایک بیگ ہی تیار کر لیتے ہیں اور ہر کلاس کے بیگ کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی جاتی ھے۔ ہر بچے کے والدین کو وہ بیگ خریدنا لازمی ھوتا ھے۔ انھیں یہ پوچھنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ بیگ میں موجود کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کے دیگر سامان کی علیحدہ علیحدہ کیا قیمت ھے۔ اس کالے دھندے میں اسکول مالکان اور Book sellers برابر کے شریک ھوتے ہیں اور والدین کو خوب لوٹتے ہیں۔ در حقیقت یہ وقت اسکول مالکان اور Book sellers کے لیے کمانے کا season ھوتا ھے۔ اور دونوں season لگا رہے ھوتے ہیں۔
اگلا نمبر یونیفارم والے کا ھے۔ نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی یونیفارم والے بھی اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی بھی وہی خواہش کہ ان کی دکان کی پرچی رپورٹ کارڈ میں لگا کر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ ان ہی کی دکان سے یونیفارم خریدیں۔ وہ بھی ایک خاص رقم بطور کمیشن اسکول مالکان کو آفر کرتے ہیں۔کمیشن لینے کے بعد یونیفارم والا بھی اپنی قیمتوں پر یونیفارم بیچتا ھے۔ والدین یونیفارم والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بعض اوقات بھاری کمیشن کے چکر میں یونیفارم میں بڑی تبدیلی کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح مونو گرام کی بھی من مانی قیمت وصول کی جاتی ھے۔
تیسرے قسم کے لوگوں کا تعلق اسکول کینٹین سے ھے۔ اسکول مالکان کینٹین کا پورے سال کا ٹھیکہ دیتے ہیں۔ ٹھیکہ جتنا بڑا ھوتا ھے کینٹین والا اسی حساب سے بچوں کو پورا سال لوٹتا ھے۔وہ کینٹین میں فروخت ھونے والی تمام اشیاء کے منہ مانگے دام وصول کرتا ھے۔ ان کینٹین والوں کو معصوم بچوں کی جیب خرچیاں لوٹتے شرم نہیں آتی۔
زائد منافع کے چکر میں کینٹین میں خراب کوالٹی کی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں اور بچوں کی صحت سے کھیلا جاتا ھے۔
اس معاملے میں بھی والدین بے بس ھوتے ہیں۔ وہ کینٹین والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس سارے دھندے میں اسکول مالکان خود ملوث ھوتے ہیں .
اسکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
کیا آپ کے بچے کے رپورٹ کارڈ میں بھی ایسی پرچیاں لگی ھوتی ھیں؟ کیا آپ کے بچے کے اسکول کینٹین میں بھی مہنگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں؟
“آپ کے بچے کی رپورٹ کارڈ میں کورس اور یونیفارم کی پرچی لگی ھوئی ھے۔آپ اپنے بچے کا کورس اور یونیفارم ان ہی دکانوں سے خریدیں گے۔”
اس طرح کی گفتگو کا سامنا ہر سال کم وبیش ان تمام والدین کو کرنا پڑتا ھو گا جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا پورا ملک کمیشن پر چل رہا ھے۔ کوئی کاروبار کرنا ھو یا کوئی ٹھیکہ لینا ھو، بناء کمیشن کے ممکن نہیں۔حتیٰ کہ ھسپتال اور نجی تعلیمی ادارے بھی کمیشن کے کاروبار سے نہیں بچ سکے۔
نجی تعلیمی اداروں میں یہ کام بہت منظم طریقے سے کیا جاتا ھے اور اس کمیشن کا اثر براہ راست والدین کی جیبوں پر پڑتا ھے۔
تعلیمی سال کے اختتام پر تین طرح کے کاروبار کرنے والے اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے Book sellers یا پبلشر کا نمبر آتا ھے جن کی دکانیں عام طور پر اس اسکول کے قریب ھوتی ہیں۔ ہر بک سیلر کی خواہش ھوتی ھے کہ اس کی دکان کی Book slip ہر بچے کی رپورٹ کارڈ میں لگائی جاۓ۔اور پھر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ اسی مخصوص دکان سے کورسز خریدیں۔
وہBook seller ،اسکول کے بچوں کی تعداد اور کتابوں کے پبلشرز کو مدنظر رکھتے ھوۓ اسکول مالکان کو ایک خاص رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔ایسے کئ پبلشر اسکول آتے ہیں اور اپنی بولی دے جاتے ہیں۔جس بک سیلر کی آفر سب سے زیادہ پر کشش ھوتی ھے یعنی جو پبلشر سب سے زیادہ کمیشن کی پیشکش کرتا ھے اسکول مالکان اسی کو کاپیوں اور کتابوں کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ کمیشن کی کچھ رقم ایڈوانس کےطور پر دے دی جاتی ھے اور باقی رقم کے لیے ایک ٹائم پیریڈ طے کر لیا جاتا ھے۔
یہ کمیشن اسکول مالکان کا منہ بند کر دیتا ھے۔ اب بک سیلر کتابوں پر اپنی من مانی قیمتوں والے اسٹیکر لگاتے ہیں اور والدین اس Book seller کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند ایک والدین اسکول کے مالکان سے شکایت کرتے ہیں۔اسکول مالکان ان کو جھوٹی تسلی دے کر یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ Book seller کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بعض اسکولوں نے تو بہت زیادہ ہی اندھیر مچائی ھوئی ھے۔ وہ بک سیلر کے ساتھ مل کر کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرا پورا ایک بیگ ہی تیار کر لیتے ہیں اور ہر کلاس کے بیگ کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی جاتی ھے۔ ہر بچے کے والدین کو وہ بیگ خریدنا لازمی ھوتا ھے۔ انھیں یہ پوچھنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ بیگ میں موجود کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کے دیگر سامان کی علیحدہ علیحدہ کیا قیمت ھے۔ اس کالے دھندے میں اسکول مالکان اور Book sellers برابر کے شریک ھوتے ہیں اور والدین کو خوب لوٹتے ہیں۔ در حقیقت یہ وقت اسکول مالکان اور Book sellers کے لیے کمانے کا season ھوتا ھے۔ اور دونوں season لگا رہے ھوتے ہیں۔
اگلا نمبر یونیفارم والے کا ھے۔ نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی یونیفارم والے بھی اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی بھی وہی خواہش کہ ان کی دکان کی پرچی رپورٹ کارڈ میں لگا کر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ ان ہی کی دکان سے یونیفارم خریدیں۔ وہ بھی ایک خاص رقم بطور کمیشن اسکول مالکان کو آفر کرتے ہیں۔کمیشن لینے کے بعد یونیفارم والا بھی اپنی قیمتوں پر یونیفارم بیچتا ھے۔ والدین یونیفارم والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بعض اوقات بھاری کمیشن کے چکر میں یونیفارم میں بڑی تبدیلی کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح مونو گرام کی بھی من مانی قیمت وصول کی جاتی ھے۔
تیسرے قسم کے لوگوں کا تعلق اسکول کینٹین سے ھے۔ اسکول مالکان کینٹین کا پورے سال کا ٹھیکہ دیتے ہیں۔ ٹھیکہ جتنا بڑا ھوتا ھے کینٹین والا اسی حساب سے بچوں کو پورا سال لوٹتا ھے۔وہ کینٹین میں فروخت ھونے والی تمام اشیاء کے منہ مانگے دام وصول کرتا ھے۔ ان کینٹین والوں کو معصوم بچوں کی جیب خرچیاں لوٹتے شرم نہیں آتی۔
زائد منافع کے چکر میں کینٹین میں خراب کوالٹی کی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں اور بچوں کی صحت سے کھیلا جاتا ھے۔
اس معاملے میں بھی والدین بے بس ھوتے ہیں۔ وہ کینٹین والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس سارے دھندے میں اسکول مالکان خود ملوث ھوتے ہیں .
اسکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
کیا آپ کے بچے کے رپورٹ کارڈ میں بھی ایسی پرچیاں لگی ھوتی ھیں؟ کیا آپ کے بچے کے اسکول کینٹین میں بھی مہنگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں؟
“آپ کے بچے کی رپورٹ کارڈ میں کورس اور یونیفارم کی پرچی لگی ھوئی ھے۔آپ اپنے بچے کا کورس اور یونیفارم ان ہی دکانوں سے خریدیں گے۔”
اس طرح کی گفتگو کا سامنا ہر سال کم وبیش ان تمام والدین کو کرنا پڑتا ھو گا جن کے بچے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
بد قسمتی سے ہمارا پورا ملک کمیشن پر چل رہا ھے۔ کوئی کاروبار کرنا ھو یا کوئی ٹھیکہ لینا ھو، بناء کمیشن کے ممکن نہیں۔حتیٰ کہ ھسپتال اور نجی تعلیمی ادارے بھی کمیشن کے کاروبار سے نہیں بچ سکے۔
نجی تعلیمی اداروں میں یہ کام بہت منظم طریقے سے کیا جاتا ھے اور اس کمیشن کا اثر براہ راست والدین کی جیبوں پر پڑتا ھے۔
تعلیمی سال کے اختتام پر تین طرح کے کاروبار کرنے والے اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔
سب سے پہلے ایسے Book sellers یا پبلشر کا نمبر آتا ھے جن کی دکانیں عام طور پر اس اسکول کے قریب ھوتی ہیں۔ ہر بک سیلر کی خواہش ھوتی ھے کہ اس کی دکان کی Book slip ہر بچے کی رپورٹ کارڈ میں لگائی جاۓ۔اور پھر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ اسی مخصوص دکان سے کورسز خریدیں۔
وہBook seller ،اسکول کے بچوں کی تعداد اور کتابوں کے پبلشرز کو مدنظر رکھتے ھوۓ اسکول مالکان کو ایک خاص رقم کی پیشکش کرتے ہیں۔ایسے کئ پبلشر اسکول آتے ہیں اور اپنی بولی دے جاتے ہیں۔جس بک سیلر کی آفر سب سے زیادہ پر کشش ھوتی ھے یعنی جو پبلشر سب سے زیادہ کمیشن کی پیشکش کرتا ھے اسکول مالکان اسی کو کاپیوں اور کتابوں کا ٹھیکہ دے دیتے ہیں۔ کمیشن کی کچھ رقم ایڈوانس کےطور پر دے دی جاتی ھے اور باقی رقم کے لیے ایک ٹائم پیریڈ طے کر لیا جاتا ھے۔
یہ کمیشن اسکول مالکان کا منہ بند کر دیتا ھے۔ اب بک سیلر کتابوں پر اپنی من مانی قیمتوں والے اسٹیکر لگاتے ہیں اور والدین اس Book seller کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ چند ایک والدین اسکول کے مالکان سے شکایت کرتے ہیں۔اسکول مالکان ان کو جھوٹی تسلی دے کر یقین دہانی کرواتے ہیں کہ وہ Book seller کے خلاف کارروائی کریں گے۔
بعض اسکولوں نے تو بہت زیادہ ہی اندھیر مچائی ھوئی ھے۔ وہ بک سیلر کے ساتھ مل کر کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری سے بھرا پورا ایک بیگ ہی تیار کر لیتے ہیں اور ہر کلاس کے بیگ کی ایک خاص قیمت مقرر کر دی جاتی ھے۔ ہر بچے کے والدین کو وہ بیگ خریدنا لازمی ھوتا ھے۔ انھیں یہ پوچھنے کا حق نہیں دیا جاتا کہ بیگ میں موجود کاپیوں، کتابوں اور اسٹیشنری کے دیگر سامان کی علیحدہ علیحدہ کیا قیمت ھے۔ اس کالے دھندے میں اسکول مالکان اور Book sellers برابر کے شریک ھوتے ہیں اور والدین کو خوب لوٹتے ہیں۔ در حقیقت یہ وقت اسکول مالکان اور Book sellers کے لیے کمانے کا season ھوتا ھے۔ اور دونوں season لگا رہے ھوتے ہیں۔
اگلا نمبر یونیفارم والے کا ھے۔ نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی یونیفارم والے بھی اسکولوں کا چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کی بھی وہی خواہش کہ ان کی دکان کی پرچی رپورٹ کارڈ میں لگا کر والدین کو مجبور کیا جاۓ کہ وہ ان ہی کی دکان سے یونیفارم خریدیں۔ وہ بھی ایک خاص رقم بطور کمیشن اسکول مالکان کو آفر کرتے ہیں۔کمیشن لینے کے بعد یونیفارم والا بھی اپنی قیمتوں پر یونیفارم بیچتا ھے۔ والدین یونیفارم والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ بعض اوقات بھاری کمیشن کے چکر میں یونیفارم میں بڑی تبدیلی کر دی جاتی ھے۔ اسی طرح مونو گرام کی بھی من مانی قیمت وصول کی جاتی ھے۔
تیسرے قسم کے لوگوں کا تعلق اسکول کینٹین سے ھے۔ اسکول مالکان کینٹین کا پورے سال کا ٹھیکہ دیتے ہیں۔ ٹھیکہ جتنا بڑا ھوتا ھے کینٹین والا اسی حساب سے بچوں کو پورا سال لوٹتا ھے۔وہ کینٹین میں فروخت ھونے والی تمام اشیاء کے منہ مانگے دام وصول کرتا ھے۔ ان کینٹین والوں کو معصوم بچوں کی جیب خرچیاں لوٹتے شرم نہیں آتی۔
زائد منافع کے چکر میں کینٹین میں خراب کوالٹی کی اشیا بھی فروخت کی جاتی ہیں اور بچوں کی صحت سے کھیلا جاتا ھے۔
اس معاملے میں بھی والدین بے بس ھوتے ہیں۔ وہ کینٹین والے کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیونکہ اس سارے دھندے میں اسکول مالکان خود ملوث ھوتے ہیں .
اسکولوں کے بےضمیر مالکان یہ نہیں سوچتے کہ والدین اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے کس مشقت سے پیسے کماتے ہیں۔ لوٹ مار کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ھے۔ حکومت کو چاہیے کہ ایسی پالیسیاں مرتب کرے جن سے لوٹ مار کے اس سلسلے کو روکا جا سکے۔
کیا آپ کے بچے کے رپورٹ کارڈ میں بھی ایسی پرچیاں لگی ھوتی ھیں؟ کیا آپ کے بچے کے اسکول کینٹین میں بھی مہنگی چیزیں فروخت کی جاتی ہیں؟