اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی اصل شاعری فارسی میں ہے اقبال کو سمجھنا ہے تو فارسی سے مصافحہ نہیں معانقہ کرنا ہوگا یہ ممکن نہ ہو توپھر بھی اقبال کی جو شاعری اردو کے دامن میں دمک رہی ہے وہ اقبال کےمتلاشیوں کو بھٹکنے نہیں دیتی اقبال فلسفے کے طالب علم تھے فلسفہ ان کی بے چین اور کھوجی طبیعت کو یہاں وہاں دوڑا تارہا تھا رنگ نسل زبان سے بلند ایک امت کے تصور پر ٹھہرنے سے پہلے اقبال کبھی شدید قسم کے وطن پرست بھی رہے اور وہ وطن پرست اقبال آج بھی ہمارے پڑوس میں ‘‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’’ کی صورت میں روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے لبوں پر موجود ہوتا ہے
پھر اقبال کا شعوری سفر آگہی کے ساتھ آگے بڑھا تو دھند چھٹی اور اقبال خود سے رجوع کرتے ہوئے پکار اٹھا
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
یہ بھی پڑھئے:
کرکٹ: پاکستان بھارت سے ہارتا کیوں ہے؟
ملنا پی ٹی آئی والوں کا مولانا فضل الرحمان سے
امرتا پریتم اور ساحر لدھیانوی کا یک طرفہ عشق
اسی اقبال کے سامنے اشتراکیت اور سرمایہ کارآنہ نظام دنیا کو دبوچنے کے لئے اپنے پنجے پھیلاتے ہوئے سامنے آئے تواقبال نے سب کو دیکھا پرکھا اوراسلام کو منتخب کرکے دیگر کو رد کردیا کہیں نطشے کو مجذوب فرنگی کہہ کر مخاطب کیا
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
اقبال اس کو بتاتا کہ مقام کبریا کیا ہے
اورکہیں سرمایہ کارانہ نظام پر چوٹ لگائی
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
اقبال سب دیکھ اورسمجھ رہے تھے پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ جمہورئت میں چھپی عددی آمریت کو نظر انداز کردیتے سو وہ کہتے ہوئے ملتے ہیں
جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
اور افسوس کہ ہم یہی کر رہے ہیں ، ہم مغرب سے جمہوریت ، فرنگیوں سے ان کے نوآبادیاتی نظام ،تحریک پاکستان سے اسلام اور 47 کے بٹوارے سے پہلے کے جاگیردارآنہ نظام کا مکسچر کمزور صحت کے پاکستان کے منہ سے لگائے ہوئے ہیں اور جسے ہم حکیم الامت مانتے ہیں اسکی نہیں مانتے کہ وہ پاکستان کے لئے کیا تجویز کرگئے ، مثل مشہور ہے کہ ایسا سونا بھاڑ میں جائے جو کانوں کو کھائے ہمارے کانوں سے لٹکے جمہور کے بھاری آویزے ان کی لو چیر ے ڈال رہے ہیں لیکن ہم انہیں اتارنے پر راضی نہیں پتہ نہیں۔ یہ بات سمجھنے میں ہمیں کتنی دہائیاں لگیں گی کہ ضروری نہیں جو لباس آپ کے ساتھ جچ رہا ہووہ میری قامت پر بھی بھلا لگے یا جس لباس کی آپ کو ضرورت ہوویسی ہی مجھے بھی ہو، لندن کی سردیوں میں بھاری اوور کوٹ سے کم میں گزارہ نہیں ہوسکتا لیکن اگر وہی گرم کوٹ ہم کراچی میں پہن کر زیب النساء اسٹریٹ پر چلیں تو جنوری فروری میں بھی اپنے پسینے میں بہہ جائیں کیوں کہ کراچی میں اس گرم کوٹ کی قطعا ضرورت ہی نہیں۔ بس یہی معاملہ ہم پر تھوپی گئی اس جمہوریت کا ہے۔ اسلام حکمرانی کے منصب کو بھاری ذمہ داری بتاتا ہے ،کردار کو اہمیت اور وقعت دیتا ہے اور جمہوریت میں ایک فاتر العقل کا ووٹ بھی کسی پی ایچ ڈی، علامہ یا باکردار بزرگ کے برابر وزن میں موجود رہتا ہے یعنی دونوں برابر ہوئے ،جمہورئت نواز کہتے ہیں کہ یہ جمہورئت کا احسان ہے کہ اس نے انتقال اقتدار یا تبدیلی کے عمل کو پرامن رکھا ورنہ جب تک مخالف کی گردن نہ مار دی جاتی یا اسے زنداںمیں نہ ڈالا جاتا انتقال اقتدار کا عمل مکمل نہ ہوتا یہ کسی حد تک درست ہے لیکن اس بیانیے کو مکمل درست مان لیا جائے تو خلفائے راشدین کا دور حکومت کو کہاں فٹ کیا جائے گا؟وہاں کس نے تلواریں نکالیں ؟پھر مان لیجئے کہ اسلام کا شورائی نظام جمہوریت کی نتھری ہوئی شکل ہے جس میں اہل لوگ اقتدار کی ذمہ داری کے لئے کسی ایک کو منتخب کرتے ہیں اور پھر جمہورئت ہی راہ نجات ہے تو چین کےیک جماعتی نظام کو کہاں رکھیں گے ۔۔۔بحث طویل اور پیچ دار ہے ضرور کیجئے لیکن جسے حکیم الامت اور اقبال مند مانتے ہیں اسکی بھی مان کر دیکھ لیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی