• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home اہم خبریں تصویر وطن

لیول پلینگ فیلڈ کا واویلا

لیول پلینگ فیلڈ کے عنوان سے بتسنے والے تیروں کا رخ ن لیگ کی طرف کیوں ہے، پی پی پی مشرف مفاہمت کے نتیجے میں ن لیگ کو لیول پلینگ فیلڈ سے کیسے محروم کیا گیا، کیا پی پی پی کے پاؤں تلے سے سندھ بھی سرکنے لگا؟ راز کھولتے ہیں سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی by سینیٹر عرفان صدیقی
October 30, 2023
in تصویر وطن
0
لیول پلینگ فیلڈ کا واویلا

لیول پلینگ فیلڈ کا واویلا

Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)
لیول پلینگ فیلڈ (Level Playing Field) یعنی انتخابات میں تمام جماعتوں کے لئے یکساں اور منصفانہ مواقع کا مطالبہ، پیپلزپارٹی کی طرف سے سامنے آیا ہے۔ عام طورپر اِس طرح کا واویلا انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد اُس وقت اٹھتا ہے جب جاگتی آنکھوں کے سَت رنگے خواب چکنا چُور ہو جاتے ہیں اور اولین نتائج کے ساتھ ہی ایک دِل گرفتہ سی شام، شامِ فراق کی طرح شکست خوردگان کے اُجاڑ خیموں میں آن اُترتی ہے۔ اِس کی سب سے واضح مثال 2013 کی انتخابی شکست کے بعد عمران خان کا آتش فشانی ردّعمل تھا۔ خواب تراشوں اور پیغمبرانہ تمکنت کے ساتھ الہامی لہجے میں پیش بینی کرنے والے مبصرینِ خود پرست نے خان کے دِل ودماغ میں نقش کردیا تھا کہ ایک بے پناہ طوفان بحیرہ عرب کے ساحلوں سے لگا کھڑا ہے جو 11 مئی کو سحر دَم اٹھے گا، نوازشریف سمیت سب کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور تخت طائوس، کشتیِ نوح کی طرح مارگلہ کی پہاڑی پہ آٹھہرے گا۔
طفلان خود معاملہ کو لگام نہ ڈالی جاتی تو عین ممکن ہے کہ وہ ابرِنو بہار 2013 ہی میں برس جاتا جس نے 2018 میں خان صاحب کی کشتِ ویراں کو جل تھل کردیا۔ یہ ایک گہرا زخم تھا جو پی۔ٹی۔آئی دیر تک چاٹتی اور انتخابات میں دھاندلی کے نام پر نوبیاہتا بیوہ کی طرح سر میں راکھ ڈالے سیاپا کرتی رہی۔
انتخابی نتائج کے بعد، دھاندلی کا واویلا، شکست خوردگان کا شیوہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنے حامیوں کی تالیفِ قلب کے لئے اس طرح کے جواز تراشتی رہتی ہیں۔ لیکن جب یومِ انتخاب سے مہینوں قبل ہی ”لیول پلینگ فیلڈ” نہ ملنے کو بیانیے کا درجہ دے دیا جائے تو جان لینا چاہیے کہ کسی متوقع افتاد کی آہٹ ابھی سے محسوس کی جانے لگی ہے اور جلی حروف میں لکھا نوشتۂِ دیوار کمزور بصارت والی آنکھوں کو بھی دکھائی دینے لگا ہے۔
پیپلزپارٹی ایسا کیوں کررہی ہے؟ کیا ملک کے طول وعرض میں اُس کی مقبولیت کی دِلپذیر ہوائیں چل رہی تھیں جو اچانک راستہ بھول کر ‘رائیونڈ’ کی طرف نکل گئی ہیں؟کیا پنجاب کی جنّت ِگم گشتہ پھر اس کے قدموں میں بچھ جانے کے لئے تڑپنے لگی تھی؟ کیا رائے عامہ کے جائزے اسے پاکستان کے عوام کی پہلی ترجیح بتا رہے تھے؟ کوئی وجہ تو ہونی چاہیے کہ وہ وزارت عظمٰی کی پالکی ”بلاول ہائوس” میں اترتے دیکھنے لگی تھی کہ یکایک سارا کھیل بگڑ گیا۔ کابینہ میں بیٹھے دو تین بے ضرر سے وزیر اور نگران وزیراعظم کا پرنسپل سیکریٹری (جو اب مستعفی ہوچکا ہے) بہرحال اتنے طاقت ور نہیں ہوسکتے کہ پیپلزپارٹی جیسی عوامی جماعت کے سیلِ بے پناہ کا راستہ روک لیں۔
لیول پلینگ فیلڈ کی فریادِ یتیم میں، پی ٹی آئی کے کچھ بچے کھچے اور روپوش خیرخواہ بھی شامل ہیں جو خود کو ”تحریکِ انصاف” کہتے ہیں لیکن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن کے آشیانے کو خاکستر کر دینے والی بجلیاں کسی خفیہ منطقے نہیں، بنی گالہ اور زمان پارک کی آغوش میں پلتی رہیں۔ 9 مئی، ایک سوچی سمجھی سازش اور بھرپور منصوبہ بندی کی کوکھ سے پھوٹا۔ آج جو قیمت پی۔ٹی۔آئی کو ادا کرنا پڑ رہی ہے وہ 9 مئی کی بھیانک واردات کے مقابلے میں کچھ ایسی بھاری بھی نہیں۔ کوئٹہ سے پشاور تک چشم زدن میں دفاعی تنصیبات اور شہدا کی یادگاروں پر نفرت انگیز حملے، ان حملوں کے ذریعے فوج میں اشتعال اور ارتعاش پیدا کرنے کا منصوبہ، اس تلاطم کے ذریعے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو معزول کرنے کی سازش اور پھر نئی انقلابی فوجی قیادت کے زور پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنا۔ کیا اس سے بڑی کسی سازش یا بغاوت کا تصور کیا جاسکتا ہے؟1951 میں جنرل اکبر خان سازش سے لے کر 1995 میں جنرل ظہیرالاسلام کی ”آپریشن خلافت”نامی سازش تک کسی کو یہ ہمت نہ ہوئی کہ وہ 9 مئی جیسی شورش بپا کرتے۔ سازشی عناصر، منصوبہ ساز مرحلے میں ہی پکڑے گئے اور سزائیں پائیں۔ اِن میں سویلین بھی تھے۔ کسی عدالت سے اُنہیں اس بنیاد پر کوئی رعایت نہ ملی کہ وہ عام شہری ہیں۔ اگر 9 مئی کی مکروہ سازش کو بھی معمول کی سیاسی سرگرمی، عمومی احتجاج، جمہوری استحقاق اور بنیادی حقوق کے زمرے میں ڈالاجاسکتا ہے تو بجا، ورنہ یہ سب کچھ کرنے والی جماعت کے منہ سے ”لیول پلینگ فیلڈ” کی آرزو ، مضحکہ خیز ہی لگتی ہے۔
‘لیول پلینگ فیلڈ’ کی کمین گاہوں سے برسنے والے تیروں کا رُخ مسلم لیگ (ن) کی طرف ہے جسے شاید ہی کبھی یکساں منصفانہ انتخابی مواقع ملے ہوں۔ رواں صدی میں اب تک چار انتخابات ہوچکے ہیں۔ 2002 کے انتخابات، پرویز مشرف کے زیراہتمام منعقد ہوئے جو نوازشریف کے خون کا پیاسا تھا۔ تب نوازشریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دونوں جلا وطن تھے اور آصف زرداری جیل میں۔ ہر سُو نوزائیدہ مسلم لیگ (ق) کا طوطی بول رہا تھا۔ سو وہ سرخ قالین پہ چلتی مشرف کے آراستہ پیراستہ حُجلۂِ عروسی میں آبیٹھی۔
دوسرے انتخابات، 2008 میں ہوئے۔ مشرف تب بھی اقتدار میں تھا۔ اُس کے ایما پر جنرل اشفاق پرویز کیانی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان معاملات طے پاگئے۔ مشرف کو بے وردی صدر رہنے اور پیپلزپارٹی کو سازگار انتخابی فضا کے نتیجے میں وزارت عظمی دئیے جانے کے عہدوپیمان ہوگئے۔ نوازشریف جلاوطنی ترک کرکے وطن آیا تو اُسے ایک بارپھر جدہ بھیج دیا گیا۔ مفاہمت کے نتیجے میں محترمہ پاکستان واپس آگئیں تو سعودی عرب نے نوازشریف کو پنجرے میں بند رکھنے سے انکار کردیا۔ مشرف خود  دوڑے دوڑے سعودی عرب پہنچے لیکن بات نہ بنی۔ نوازشریف الیکشن سے چند دن قبل واپس آگئے۔ این۔اے 120 سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کرائے جو مسترد کردئیے گئے۔ شہبازشریف بھی انتخابات سے باہر کردئیے گئے۔ ”لیول پلینگ فیلڈ” پر ہیوی رولر پھیرکر ‘پچ’ پوری طرح تیار کردی گئی۔ محترمہ تو شہید ہوگئیں لیکن پیپلزپارٹی نے ”مساوی انتخابی مواقع” سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اقتدار میں آگئی۔
تیسرے انتخابات 2013 میں ہوئے۔ تب آصف علی زرداری صدر تھے۔ بڑی ہُنرمندی سے انہوں نے اپنے قریبی دوست، میر ہزار خان کھوسو کو نگران وزیراعظم کے عہدے پر بٹھادیا۔ چاروں نگران وزرائے اعلی بھی ان کے نامزد کردہ تھے۔ محترمہ کے ملٹری سیکریٹری رہنے اور صدر زرداری سے تین سال کی توسیع پانے والے اشفاق پرویز کیانی، آرمی چیف تھے۔ ”پراجیکٹ عمران” کی کمان، جنرل پاشا سے جنرل ظہیرالاسلام کو منتقل ہوچکی تھی۔ یہ تھی وہ ”لیول پلینگ فیلڈ” جس میں نوازشریف نے الیکشن لڑا اور وزیراعظم بنا۔
چوتھے انتخابات 2018 میں اُس وقت ہوئے جب نوازشریف اور اس کی بیٹی اڈیالہ جیل میں قید تھے۔ جنرل باجوہ پراجیکٹ عمران کے سنہری بجرے پر سوار ہوچکے تھے اور ملک مسلم لیگ (ن) کے لئے جلتا بلتا ریگستان بنادیاگیا تھا۔ اس کے باوجود اُس نے نہ ”لیول پلینگ فیلڈ” کی دہائی مچائی نہ بائیکاٹ کیا۔ کم کم کسی دانشور یا سیاسی مبصر نے کہاکہ جب سیاست کا سب سے بڑا کھلاڑی جیل میں پڑا ہے تو ایسے انتخابات کو کون مانے گا؟۔  اِن تئیس سالوں میں نوازشریف گیارہ سال جلا وطن رہا۔ دو سال سے زیادہ کال کوٹھڑیوں میں گذارے۔ عدالتوں میں سینکڑوں پیشیاں بھگتیں۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
انتخابات، تین ماہ دور ہیں اور پیپلزپارٹی یوں ماتم کناں ہے جیسے یومِ انتخابات کی سوگوار شام ابھی سے اُس کے آنگن میں اتر آئی ہے۔
زرخیز موسموں میں چراگاہ کی سب سے شاداب اور معطرگھاس سے شکم سیر ہونے کے باوجود، رُت بدلتے ہی اپوزیشن کا رُوپ دھار کر سولہ ماہی اقتدار پر تبرّیٰ بھیجنا ، سی سی آئی میں نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات کی خوش دلانہ تائید وحمایت کے فوراً  بعد ”فوری انتخابات” کے نعرے لگانا، تقاضائے سیاست سہی، لیکن ”لیول پلینگ فیلڈ” کے واویلے سے یوں لگتا ہے جیسے پی پی پی کے پائوں تلے سندھ کی زمین بھی تھرتھرانے لگی ہے۔
٭٭٭٭٭
Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آصف علی زرداریبلاول بھٹو زرداریبے نظیر بھٹوعمران خانلیول پلینگ فیلڈ
Previous Post

کرکٹ: پاکستان بھارت سے ہارتا کیوں ہے؟

Next Post

اقبال : جسے حکیم الامت مانتے ہیں، اس کی مانتے کیوں نہیں؟

سینیٹر عرفان صدیقی

سینیٹر عرفان صدیقی

عرفان صدیقی استاد ہیں، ادیب ہیں، شاعر یا کالم نگار؟ یہ بحث اب پرانی ہوئی۔ قدرت نے انھیں یہ سب خوبیاں عطیہ کی ہیں لیکن ایک انعام اس سے بھی بڑا ہے۔ ہمارے یہاں ادیب اور شاعر حضرات اپنے سیاسی نظریات چھپاتے ہیں لیکن عرفان صاحب نے ان مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر اپنی سیاسی شناخت کو اجاگر کرنے میں بھی کسی عذر سے کام نہیں لیا۔ یہ طرز عمل ہمارے ان بزرگوں کی پیروی میں تھا جنھوں نے قلم و قرطاس سے بھی اپنا تعلق رکھا اور اپنی آدرشوں کے لیے جدوجہد کے لیے سیاسی راستہ بھی اختیار کیا۔ عرفاں صاحب ہماری اسی تہذیب کی زندہ نشانی ہیں۔

Next Post
اقبال

اقبال : جسے حکیم الامت مانتے ہیں، اس کی مانتے کیوں نہیں؟

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions