یوں تو مینا کماری جی اور امرتا پریتم صاحبہ ہماری پسندیدہ ترین ہستیاں ہیں۔ جب جب ان کا ذکر خیر کرنے بیٹھیں تو ہمارا بےقرار قلم چیخ چیخ کر ہچکیاں لیتا، یوں رونے کرلانے لگتا ہے کہ اسے روک کر قابو میں لانا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ان دونوں شخصیات پر لکھتے ہوئے شاید وقت بھی تھم جاتا ہے اور ان کے سوگوار جیون کی تمام اداسیاں ہمیں اپنے ویران رنگ میں یوں رنگ کر لپیٹ لیتی ہیں کہ کوئی اداس نوحے سے ہمارے کانوں میں گونجنے لگتے ہیں۔ ہمارے بے قرار دل کے اداس موسموں میں کچھ عجب سی ظالم سرد ہوائیں اپنے ڈیرے ڈال کر اپنی تلخی و خنکی سے انھیں برفیلے جہنم زار بنا دیتی ہیں۔
غم و اندوہ کی ایک تیز لہر ہمارے سینے میں کسی برچھی کی طرح کھب کھب جاتی ہے۔ پھر شدید درد کی ایک لہر وہاں سے نکل کر ہمارے جسم کو سر سے پاوں تک چیرتی ہوئی، ایک طرف سے دوسری طرف نکل جاتی ہے۔
مگر کیا کریں، یہاں اپنے نہیں صرف امرتا پریتم صاحبہ کے ازکار مذکور ہیں۔
امرتا پریتم جی کے ساحر صاحب سے یکطرفہ عشق کے بارے میں اتنا بہت کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اس پر مزید حاشیے کیا چڑھائے جائیں؟
یہ بھی پڑھئے:
صلیبیں ایک سی اور سر کم و بیش ایک جیسے ہیں
نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ، حدت ختم ہوئی کہ برف؟
کاشف حسین غائر کا شعر یا غارت گروں کا محلہ
ساحر صاحب کے ساتھ اس افیر کی ساری بنیادی بات دراصل کوئی نفسیاتی بیماری ہی تھی۔ ان کے والد محترم نے ان سے اور ان کی والدہ محترمہ کے ساتھ بہت برا سلوک اختیار کر رکھا تھا۔ اسی لیے ان کی والدہ چھوٹے سے ساحر کو لے کر اپنے ظالم خاوند کو چھوڑ کر دور چلی گئ تھیں۔ پھر ان کی تمام عمر محنت مشقت، محرومیوں اور کسمپرسی سے ہی گزاری۔ ان کی دبی دبی ہوئ دلی خواہش تھی کہ ساحر صاحب کسی مسلمان لڑکی سے ہی اپنا بیاہ رچائیں۔ شومئ قسمت ساحر صاحب کو سارے عشق غیر مسلمان لڑکیوں سے ہی ہوئے جو کہ سب کے سب عالم میں الم نشرع ہیں۔ کالج میں ساتھ پڑھتی ہندو دوشیزہ امرت کور سے لے کر گلوکارہ سدھا ملہوترا تک ۔۔۔ صرف واجدہ تبسم ہی واحد مسلمان خاتون تھیں جن کے قصے ان کے نام سے جوڑے گئے تھے۔
محترمہ امرتا پریتم صاحبہ نے ان کے لیے اپنا شوہر، گھر بار، سبھی عزیز، رشتہ دار چھوڑ دیے تھے۔ وہ تو ساحر صاحب کے لیے خوشی سے اپنا مذہب تک چھوڑنے کو تیار تھیں مگر ساحر صاحب نے ان کی یک طرفہ شدید محبت کو شاید کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ انھیں امرتا جی کی بے پناہ خوبصورتی سے بھی بہت خوف آتا تھا۔
اپنے سچے عشق اور حسن کی اتنی بےقدری نے امرتا جی کو اندر سے اتنا زخمی کر دیا تھا کہ ان کے جذبات کی شدت ایک زبردست ہوک کی طرح آندھی بن کر اٹھی تھی اور ان کے لکھے حرف حرف، لفظ لفظ کے ہردے میں سما گئ تھی۔ امرتا جی کو اپنے زخم کریدنے اور ان رستے ناسوروں پر نہایت مناسب لفظوں کا مرہم لگانے کا ہنر اسی گہری لگن، بے لوث تڑپ اور غیر آسودہ دلی چاہت نے عطا کیا تھا، جس میں وہ دن رات جل کر کندن بن گئی تھیں۔ ان کی تمام تر تحریروں میں ان کے الفاظ کی جگہ ان کا ٹوٹا ہوا دل ہی بول اٹھتا تھا اور کچھ ایسا ویسا۔۔۔۔
یہ درد حرفوں، لفظوں کے کلیجے چیر کر نکلتا تھا، آنکھوں سے بہے آنسووں سے وضو کر کے، ارمانوں کے لہو کی طرح بہہ کر کاغذ سے ادھوری ان کہی باتیں کرتا تھا اور پھر دھواں ہو کر ہر قاری کی آنکھوں میں بھر جاتا تھا۔ یہ درد ایسا چیختا چلاتا، آہیں بھرتا اور کرب سے کرلاتا تھا کہ ہر شخصے ناکسے کے دل کو بھی گھائل کر دیتا تھا۔ سچی لگن کی تڑپ، پیاس، درد کے گھاو، سلگی تشنگی کی چنگاریاں ان کی ہر ایک تحریر کا ایسا خاصہ رہی ہیں کہ اس کی کوئی اور مثال پاک و ہند میں سوائے میرا بائ کے، کہیں پر اور ہے ہی نہیں۔
ابلتے لاوے کی طرح دہکتی ہوئی، یہ آگ کے حرفوں سے لکھی ساحرانہ تحریریں امرتا جی کے ہر چاہنے والے کا دامن اور خرمن جلا کر خاک کر دینے پر قادر تھیں۔
ان کا یہ حرماں نصیب دکھ شاید بے شمار لوگوں سے یوں سانجھا ہو گیا تھا کہ انھیں پڑھ کر ہر دکھی دل نے اس پکار کو صرف اپنا ہی سمجھا اور ان کے ہر دکھ درد کو سچ مچ اپنا جان کر آنسو بہائے۔ اس دکھ درد کو مکمل طور پر سمجھنے سے قاصر صرف بدنصیب محترم ساحر صاحب ہی تھے جو ان کی قدر نہ کر پائے۔ انھیں حد سے زیادہ دکھی کر کے وہ بھی بے چین ہی رہے اور کبھی سچا سکھ کہیں نہ پا سکے۔
امروز صاحب نے امرتا جی کے ہر درد کا مداوا کرنے کی بھرپور سعی کی تھی اور اپنی بقیہ عمر بھر کی تھی۔ ان دونوں کی بقایہ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہنسی خوشی مطمئن انداز میں گزری تھی۔
ان دونوں نے اگرچہ کبھی کوئی بیاہ وغیرہ نہیں کیا تھا کیونکہ امرتا جی کو اپنے سکھ شوہر صاحب سے طلاق حاصل نہیں ہوئ تھی۔
امرتا اور امروز کے دل ایسے جڑے تھے کہ اس مکمل رشتے کا بندھن کسی قانونی کاغذ یا مذہبی سرٹیفیکیٹ کا ہرگز محتاج نہیں تھا۔
امرتا جی نے ساحر صاحب سے اپنی محبت کو ایک کھلا آسمان قرار دیا تھا اور امروز صاحب سے اپنی محبت کو ایک ڈھکی ہوئی چھت۔ بقول امرتا جی کے، کھلے آسمان کے نیچے رہتے ہوئے بھی ایک چھت کی ضرورت تو ہر کسی کو پڑتی ہی ہے۔
ہمیں تو لگتا ہے کہ ساحر صاحب دراصل کلازٹ میں چھپا ہوا کیس تھے۔ اس زمانے میں کھلم کھلا ہم جنس پرست ہونا ایک سخت ٹیبو تھا جسے معاشرہ بری طرح دھتکار دیتا تھا۔
ساحر صاحب کی پرورش ان کی والدہ نے بطور سنگل پیرنٹ کی اور انھیں گھر میں بند رکھ کر اور ان پر کڑی نظر رکھ کر نہایت سخت گیری سے کی۔ ایسے بچے اکثر ہم جنس پرستی کا رجحان رکھتے ہیں۔ پھر ساحر صاحب نے بہت سی خواتین سے فلرٹ ضرور کیا مگر جسمانی طور پر کسی کے قریب نہیں ہوئے۔ کسی خاتون سے چوری چھپے ہی سہی، کسی قسم کے کوئ جنسی تعلقات پیدا نہیں کیے۔
امرتا نے اس کرب بھرے قرب کے بارے میں ایک ناری کی شرم و حیا سے مبرا ہو کر کھل کر لکھا ہے۔ وہ تنہائ میں ان سے نزدیک آنے کی بجائے ان سے دور ہو کر گریز کر لیتے تھے۔ ایک نارمل نوجوان مرد کبھی اتنا سادھو نہیں ہوتا کہ ایک حسین و جمیل دوشیزہ کی خود سپردگی پر اس سے خود پیچھے ہٹ کر پیچھا چھڑوا لے۔ امرتا نے ساحر صاحب سے اس موضوع پر بات چیت بھی کی تھی اور اسے دام تحریر لا کر فیصلہ قاری کے سپرد بھی کر دیا تھا۔ ان کی تحریروں کے موجب وہ امرتا کی خوبصورتی سے خائف تھے۔ امرتا جی نے لکھا تھا کہ یہ سن کر میں سن ہو کر رہ گئ۔ پہلی بار مجھے اپنی سندرتا سے نفرت ہوئ۔ حسن کی اتنی بھاری بے توقیری، اتنی بڑی قیمت؟
انھوں نے عمر بھر شادی نہیں کی تھی۔ یہ وہ خطرے کی گھنٹی ہے جو صاف صاف کہے دیتی ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا۔
برصغیر میں ایک حالیہ سروے کے مطابق ہم جنس پرست لوگوں کے کلازٹ کیسز آج کے ماڈرن زمانے میں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس زمانے میں بھی ضرور ہوتے ہوں گے۔ ایسے لوگ اپنے ہی جیسے دوست ڈھونڈ لیتے ہیں اور مکمل رازداری ان کے باہمی رشتوں اور تعلقات کی خاص اور اہم بنیاد ہوتی ہے۔ یہ نہایت قریبی دوست اپنے دوستوں سے جنسی تعلقات کا ذکر کبھی کسی سے بھول کر بھی نہیں کرتے کیونکہ اس بات سے خود ان پر بھی آنچ آتی ہے۔ یوں ان کے بارے میں کسی کو کانوں کان کچھ خبر نہیں ہوتی۔