عین ایسے زمانے میں کہ جب وطن عزیز اور اُردو تنقید کا کاروبار”فارن ایڈ کے بوجھ تلے دبا ہوا“ ہے، محمد حسن عسکری کو یاد کرنا اچھا لگ رہا ہے۔یہ”فارن ایڈ“والی پھبتی بہت پہلے اِنتظار حسین نے اُن لوگوں کے لیے تراشی تھی، جومشرق کی سمت پشت کرکے کھڑے تھے اور مغرب کے تنقیدی قرینوں پر اپنا سارا بھروسہ لادے ہوئے تھے۔ تب اِنتظار حسین نے یہ بھی کہا تھا کہ’اردو ادب کو جس نقاد کی جستجو تھی وہ اسے بالآخر محمد حسن عسکری کی شکل میں میسر آگیا تھا۔‘ انتظار حسین ہی کے لفظوں میں:
”عسکری صاحب نے مغرب کا لوہا بھی کھلے دِل سے مانا مگر اُردو تنقید کو اِس صورت حال سے بھی اُنہوں نے ہی نکالا۔۔۔عسکری صاحب کے مضامین کو ذرا شروع سے آخر تک دیکھئے ”جھلکیاں“ اور ”انسان اورآدمی“کے مضامین سے چل کر ’جدیدیت‘ تک آئیے، مغرب سے مشرق تک کا کتنا لمبا ذہنی سفر ہے جو یہاں طے ہوا ہے اور جو اپنے ہر مرحلہ میں اردو تنقید کو تخلیقی فکر سے مالا مال کرتا نظر آتا ہے۔
اچھا، یہ جو انتظار حسین نے تخلیقی فکر کو عسکری صاحب کی ایسی عطا کے طور پر نشان زد کیا ہے جس سے اردو تنقید کا دامن بھرا ہوا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ عسکری صاحب نے اپنے آپ کو تنقید کے کچھ خاص پہلوؤں کے ساتھ وابستہ نہیں رکھا، نہ ہی محض تخلیق پارے بہ طور متن ان کا موضوع رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ تخلیقی عمل کے پس منظر میں کام کرنے والے عناصر کو تلاشتے اور تخلیق پاروں کو مقامی اور وسیع تر عالمی تناظر میں انسانی صورت حال کے اندر رکھ کر آنکتے اور اس کی فنی اور جمالیاتی قدر کی تعیین کرلیاکرتے تھے۔ تنقید کے باب میں جو چلن عسکری صاحب کا تھا، ان سے قبل ایسی کوئی روایت نہ تھی، چناں چہ انہیں اپنے لیے خود راستہ بنانا پڑا۔ عسکری صاحب نے ایک مقام پر اس جانب بھی نشاندھی کر رکھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”اردو ادب کی نشو و نما ایسے زمانے میں ہوئی جو سیاسی افراتفری کا زمانہ تھا۔ ایسے وقت میں تنقیدی اصول بنانے اور انہیں رواج دینے کی مہلت کسے تھی۔ چنانچہ ہمارا تنقیدی معیار بڑی حد تک غیر شعوری رہا،واضح اورمعین معیارکی شکل میں سامنے نہیں آسکا۔
تاہم اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے کہ تنقید کے باب میں حالی سے پہلے اُردو والوں کا دامن بالکل خالی تھا،تو اسے پہلے اردو ادب کے تخلیقی مزاج کو سمجھنا چاہیے۔ جی، وہ مزاج جو فن پاروں کے پرکھنے کا معیار ہو جایا کرتا تھا۔ یہ جو میر کو ایک زمانے میں، ایک معیار قائم کرتے ہوئے خدا ئے سخن کہا گیا، اور کوئی ایسا نہ تھا جو اس معیار کو رد کر پاتا،عسکری صاحب کے مطابق ”یہ مہذب اور رچے ہوئے شعری ذوق“ کا فیصلہ تھا؛ ایک تنقیدی فیصلہ۔ تذکرہ نگاروں کے ہاں،تخلیق کاروں اور فن شناسوں کے ہاں یہ جو تنقیدی فیصلے ہوتے رہے، عسکری صاحب نے مانا ہے کہ اس باب میں شعوری طور پر اصولوں کی تشکیل نہ ہوئی، تاہم یہیں وہ یہ بھی اضافہ کرتے ہیں:
”۔۔۔اس کی شہادتیں ہمیں بڑے بڑے استادوں کی اصلاحوں میں ان کے دوچار جملوں میں جو روایت کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں اور تذکرہ نگاروں کے انتخاب میں ملتی ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے یہاں شعر کی پرکھ کے معیار وہی تھے جو ایک مہذب قوم کے ہونے چاہیئں۔
تو یوں ہے کہ عسکری صاحب چوں کہ اردو ادب کی روایت اور تہذیب سے آگاہ تھے اور مغربی فکر سے استفادہ بھی کر رہے تھے، لہٰذا ایسے تنقیدی قرینے وضع کرنے میں کامیاب رہے جو اپنے ہاں کے تخلیقی تجربے کو درست درست آنکنے اور تفہیم و تعبیر کی ایک مربوط کوشش ہو سکتی تھی؛ جی، اتنی ہی مربوط اور مرصوص جتنی کہ مغربی تنقید ہو گئی تھی، یوں دیکھیں تو عسکری صاحب کاکام بہت اہم ہو جاتا ہے۔”انسان اور آدمی“ کے پیش لفظ میں عسکری صاحب نے خود وضاحت کر رکھی ہے:
”انسان اور آدمی۔۔۔غالب کی ذہنیت اور میر کی ذہنیت۔۔۔میں کتنا فرق ہے، اس کا مجھے کبھی پتہ نہ چلتا اگر میں مغرب کے ادب سے تھوڑا بہت واقف نہ ہوتا۔
صاحب!آپ اُن سے بہت سے مقامات پر اختلاف کر سکتے ہیں۔ کیجئے،ضرور کیجئے کہ یہ آپ کا حق ہے۔ اور صورت
واقعہ یہ ہے کہ وہ خود بھی، ایک جگہ ٹھہرے نہیں رہے، اپنی پوزیشن بدلتے رہے ہیں۔ ماننا ہو گا کہ انہوں ساری عمر ایک سے تنقیدی فیصلے نہیں کیے۔وہ تو یہاں تک کہہ گزرتے ہیں کہ”نئے تجربات کا تقاضا ہو تو میں اپنی رائے بڑی بے شرمی سے بدل لیتا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ بدلتے رہے ہیں اور بہ قول خود اُن کے”بے شرمی“سے بدلتے رہے ہیں کیوں کہ ادب ان کے لیے بدلتی ہوئی زندگی کی طرح ایک مسلسل تجربہ رہا۔ انہوں ”ستارہ یا بادبان“ میں لکھا تھا کہ ادب کوئی قانون تعزیرات نہیں کہ ہر بات میں ناطق فیصلے کیے جائیں یہاں تو ایک مستقل تفتیش ہی سب کچھ ہے۔ تو یوں ہے کہ وہ اس باب میں مستقل تفتیش میں رہے۔ انہوں نے یہ بھی کہیں لکھ رکھا ہے کہ ’میں تو صرف اپنے اعصاب کے ذریعے حقیقت تک پہنچنے کی لڑکھڑاتی ہوئی کوشش کر سکتا ہوں“۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہ قوی اعصاب اور بہت زیادہ زندہ حسیات کے مالک تھے۔ یہی سبب ہے کہ تفتیش کے مسلسل عمل میں خیالات اور فکریات میں یہ تبدیلی نہ تو اچانک ہوتی ہے اور نہ ہی گزشتہ تجربات سے کٹی ہوئی۔ کون نہیں جانتا کہ عسکری صاحب عین آغاز کی ادبی زندگی میں ترقی پسندوں والی فکر کو لے کر چلے تھے تاہم جب وہ ان پر معترض ہونے لگے تھے تو ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ عین مین جدیدیوں کا پڑھایا ہوا سبق ہی اگلنے لگے ہوں۔ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ جب وہ رینے گینوں اور ابن عربی سے ہوتے ہوئے زندگی کے آخری مراحل تک پہنچے تو بھی ان میں اتنا حوصلہ، قوت اور قرینہ رہا کہ اپنی بات کہہ لینے کی صورت نکال سکتے تھے۔
عسکری صاحب کے بدلنے اور بدلتے رہنے کا ذکر نکلا ہے اور اوپر ان کے مجموعے”انسان اور آدمی“ کا حوالہ آیا تو یاد آیا کہ”انسان اور آدمی“ کے عنوان سے ایک مضمون میں جو کچھ انہوں نے 1947ء میں کہا تھا، وہ اسے ٹھیک نویں سال،یعنی1954ء میں نئے رخوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس بار انہوں نے اپنے مضمون کا عنوان جمایا تھا:”آدمی اور انسان“۔ گویا ان آٹھ نو سالوں میں انسان کی جگہ آدمی نے لے لی تھی۔ یہ دوسرا مضمون لکھتے ہوئے خود انہیں بھی اپنے طرز عمل کا احساس تھا عین آغاز کے جملوں میں ہی”بے شرمی“ والا وہ لفظ برتا تھا جس کا ذکر اوپر ہو چکا۔ تاہم یہیں انہوں نے یہ بھی اضافہ کیا تھا کہ اس دوسرے مضمون کو پہلے مضمون کا ضمیمہ سمجھنا چاہیے۔تو یوں ہے کہ عسکری صاحب کا بدلناایسا نہیں ہے کہ آپ پہلے والے عسکری کو یکسر رد کر کے نیا عسکری تعمیر کرلیں۔ اسی نفی کو اثبات کا اور اثبات کو نفی کا ضمیمہ سمجھے بغیر ان کی تنقیدی شخصیت کو ڈھنگ سے نہیں سمجھا جاسکتا۔
جب میں یہ سطور لکھنے بیٹھا تھا تو یہ نیت باندھ کر بیٹھا تھا کہ عسکری صاحب کی تنقید پر ایک دو سطریں لکھ کر ان کے افسانے پر اپنی گزارشات قلم بند کروں گا مگر(اِنتظار حسین کے لفظوں میں ”فارن ایڈ کے بوجھ تلے دبی ہوئی“)نئی اُردو تنقیدجس طرح اپنے ادب کی تعیین قدر اور تعبیر کے بنیادی وظیفے سے کنی کاٹ کراورکچھ سجھانے بغیر اپنے ہی قدموں پر چکرا کر ڈھیر ہوتی رہی ہے، شاید اس سے دِل دُکھا ہوا تھا کہ حالی کے بعد(اور مجموعی اعتبار سے آج تک) اپنی تنقیدی بصیرت سے اُردو تنقید کا بھرم قائم رکھنے والے کا ذِکر اطالت کھینچ گیا۔یہ ذِکر ابھی کچھ اور طول کھینچے گا اور وہ یوں کہ عسکری صاحب نے افسانے کے باب میں بھی بہت کچھ کہہ رکھا ہے جس کی طرف دھیان رہ رہ کر جارہا ہے۔یاد رہے عسکری صاحب کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ”انسان اور آدمی“1953ء میں مکتبہ جدید لاہور سے پہلی بار چھپا تھا جب کہ اس سے بہت پہلے یعنی 1943ء میں ساقی بک ڈپو دہلی سے ایک ایسی کتاب آچکی تھی جو ان کی افسانے میں دلچسپی کو ظاہر کرتی تھی۔ جی، جس کتاب کا یہاں ذکر مقصود ہے وہ اس زمانے میں لکھے جانے والے اُردو افسانوں کا ایک انتخاب تھا؛”میرا بہترین افسانہ“۔ یہ کتاب عسکری صاحب نے مرتب کی جس میں افسانہ نگاروں کے خود منتخب کردہ افسانے تھے۔
اس پر بعد میں بات ہوگی کہ مجھے یہ کتاب کیوں یاد آئی پہلے ذرا ایک نظر اس کتاب کے افسانوں کی فہرست پر ڈال لیجئے:۔ اوپندر ناتھ اشک:”بینگن کا پودا“،۔ اختر اورینوی:”انار کلی اور بھول بھلیاں“، ۔ اختر حسین رائے پوری:”مجھے جانے دو“، ۔چودھری محمد علی:”تیسری جنس“،۔ دیوندر ستیارتھی:”کُنگ پوش“، ۔ راجندر سنگھ بیدی:”دس منٹ کی بارش“، ۔رشید جہاں:”نئی مصیبتیں“، ۔ سعادت حسن منٹو:”کالی شلوار“، ۔ عصمت شاہد لطیف:”تِل“، ۔علی عباس حسینی:”ہار جیت“، ۱۱۔ غلام عباس: ”آنندی“، ۔ کرشن چندر:”جھیل سے پہلے جھیل کے بعد“، ۔ممتاز مفتی:”ماتھے کا تل“ جب کہ عسکری صاحب نے اپناافسانہ جو اس کتاب میں شامل کیا وہ تھا”حرام جادی“۔میں یہ پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس انتخاب میں شامل افسانے، افسانہ نگاروں نے خود منتخب کرکے بھیجے تھے اور ایسا عسکری صاحب کے بہ قول ان کی”بے رحمانہ ضد“ سے ممکن ہو پایا تھا۔ اپنی ”بے رحمانہ ضد“ والی بات عسکری صاحب نے اسی کتاب کے پیش لفظ میں لکھی تھی اور اس پر یہ اضافہ کیا تھا:
”ان افسانوں میں سے ہر ایک افسانہ نگار کا بہترین افسانہ نہ سہی لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے لکھنے والے کی بہترین خصوصیات کی آئینہ داری ضرور کرتا ہوگا اور پھر چوں کہ اس مجموعے میں شامل ہونے والے اپنے زمانے کے نمایاں ترین نمائندے ہیں، اس لیے اس مجموعہ کو موجودہ دور کی افسانہ نگاری کا خلاصہ بھی کہا جا سکتا ہے۔“
وہ وجوہ جو اس کتاب کو میرے لیے اہم بنا گئی ہیں عسکری صاحب کی مقتبس عبارت میں نشان زد ہو گئی ہیں یہی کہ
1۔ عسکری صاحب نے جو کتاب ترتیب دی اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ کتاب جنگ کے زمانے میں شائع ہو رہی تھی اور اس مجموعے کی قدر و قیمت بلکہ چند سال بعد اس کے پڑھے جانے کا امکان تک اس پر منحصر تھا کہ جنگ ہماری دنیا کے ساتھ کیا کرتی ہے۔ ہم مجبور ہیں کہ ہر موجودہ چیز کو ایک غیر یقینی اور بے شکل مستقبل کی روشنی میں دیکھیں۔
2۔ عسکری صاحب نے ہمیں محض مستقبل کی طرف متوجہ نہیں کیا، رواں صورت حال کو بھی دیکھنے اور سمجھنے کی طرف راغب کیا تھا۔ ان ہی کے لفظوں میں ”جو چیز مجھے سب سے زیادہ دُکھ دیتی ہے وہ انسانی اقدار کا خاتمہ ہے۔ ہمارے ناخداؤں نے ہماری کشتیوں کے لنگر کاٹ ڈالنے اور بادبان اتار پھینکنے پربس نہیں کی، بلکہ انہیں ایسا جھکولا دیا ہے کہ ہم لہروں میں جاپڑے ہیں۔جہاں کوئی چٹان پناہ نہیں دیتی۔ جہاں تنکے کا سہارا بھی نہیں ملتا۔“
3۔ عسکری صاحب نے جن ہم عصرافسانہ نگاروں کواہم اور نمایاں ترین سمجھا ان سے بہ اصرار افسانے منگوا کر کتاب میں شامل کیے،یوں اس عہد کے نمایاں ترین افسانہ نگار اس کتاب سے نشان زد ہو جاتے ہیں۔
4۔ یہ اہم اور نمایاں افسانہ نگار کیا اور کیسا لکھ رہے تھے، اور یہ کہ عسکری صاحب کے ہم عصر کن خصوصیات والے افسانوں کو اپنا بہترین افسانہ کہہ رہے تھے، وہ بھی اس کتاب کے مطالعے سے ہم جان جاتے ہیں۔
اِسی باب کی پانچویں اور لطف کی بات یہ ہے کہ عسکری صاحب کی بہ طور افسانہ نگار پہلی تخلیق ”کالج سے گھر تک“ تک ہے،اور یہی افسانہ اُن کے افسانوں کے مجموعے ”جزیرے“ کا بھی پہلا افسانہ رہا، مگر اسے اس انتخاب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ یوں گمان باندھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے لیے بھی اپنے افسانے کا الل ٹپ نہیں کیا، اپنی ”بہترین خصوصیات“ والے افسانے ہی کو چنا ہے۔ میرا مطالعہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں، اوروں کے منتخب کردہ افسانوں کے جو مجموعے آئے، اُن میں سے اکثر میں عسکری صاحب کا یہی افسانہ شامل رہا ہے۔ یہ افسانہ عسکری صاحب کو کیوں اچھا لگتا تھا، اس بابت وہ کچھ زیادہ بات نہیں کرتے، شاید اس کا سبب اُن کا یہ ماننا رہا ہوگا کہ ”اچھا افسانہ اچھی عورت کی طرح ہے؛دونوں کا پتہ چھونے سے ہی چلتا ہے۔“ چھونے اور محسوس کرنے کا عمل عسکری کے افسانے کی بنیادوں میں پڑا ہوا ہے۔
یوں لگتا ہے صاحب کہ چھونے اور محسوس کرنے والی بات میں نے وقت سے پہلے کہہ دِی۔مجھے اپنی بات ڈھنگ سے کہنے کے لیے، اس تخلیق کار کے ہاں سوچنے سمجھنے کے قرینوں سے کچھ اور قریب ہو نا ہو گا تاکہ دیکھا جا سکے کہ اپنے ہم عصروں میں الگ ہو جانے والے اس تخلیق کار کے ہاں تخلیقی عمل کیسے کام کرتا رہاہے۔ اس مقصد کے لیے، میں یہ حیلہ کرتا ہوں کہ ان ہی پانچ باتوں کو جنہیں اوپر لکھ آیا ہوں ملخص کرکے دہرالیتا ہوں کہ یہی وہ لائق توجہ باتیں تھیں جو عسکری صاحب کی اس کتاب کے مطالعہ نے مجھے سجھا دی تھیں ۔
1۔(الف)بیانیہ کی تشکیل میں زمان و مکان کا حصہ۔(ب) مستقبل بینی اورمعنی خیزی کا عمل۔(ج)بدلتی ہوئی ثقافتی تشکیل میں نئی معنویت کے امکانات۔
2۔(الف) ثقافتی مکانیت میں اکھاڑ پچھاڑ اور فرد کی نفسیاتی اتھل پتھل میں قائم ہونے والا رشتہ۔(ب) تشکیل ِمتن میں بہ طور (تند لہروں پر جھکولے کھاتے) فرداور بہ طور ثقافتی نمائندہ، تخلیق کار کی شرکت اوراس شرکت کاتناسب
3۔(الف) عصری حسیت کو اپنے اپنے معیاروں سے برت کر نمایاں ترین ہونے والے تخلیق کاروں کی شناخت۔(ب) ان نمایاں تخلیق کاروں کے ہاں ان تخلیقی معیارات کی شناخت، جو ان کے کسی فن پارے کو ان کی نمائندہ تخلیق بناتے ہیں۔
4۔ ہم عصر تخلیق کاروں کے فن پاروں کاتقابلی مطالعہ اورفن پاروں کی قدر قائم کرنے والے عناصر
5۔ تخلیقی عمل میں تخلیق کار کی بہ طور ایک چھونے والے، محسوس کرنے والے، اور اپنے جذبات کی تظہیر میں رخنے نہ ڈالنے والے پورے آدمی کی شرکت۔
صاحب! اب ان نکات پرجی چاہتا ہے کچھ اور بات کروں، مگر آپ سے وعدہ کر رکھا ہے کہ عسکری صاحب کے افسانے پر بات کروں گا۔ سو لیجئے، اسی جانب چلتے ہیں۔عسکری صاحب کے آٹھ افسانوں پر مشتمل پہلا مجموعہ ”جزیرے“، 1943میں پہلی بار شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کے ہر افسانے کے اختتام پر دو مختلف سال بھی درج کر دیے گئے ہیں۔ ایک وہ سال ہے، جس میں افسانہ لکھا گیا اور دوسرا وہ، کہ جب وہ شائع ہوا۔ اِن مندرجات کی روشنی میں دیکھیں تو عسکری صاحب کا پہلا افسانہ ”کالج سے گھر تک“ بنتا ہے جو 9 ستمبر 1939کولکھا گیا تھا۔ گویا 1943 میں چھپنے والی اس کتاب کے آٹھوں کے آٹھوں افسانے گنے چنے مہینوں والے اس محدود دورانیے کی تخلیقی واردات ہیں۔ عسکری صاحب کے تین افسانوں پر مشتمل دوسری کتاب”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ کا سال اِشاعت آزادی کا سال بنتا ہے۔ یہ مجموعہ بھی پہلی بار ساقی بک ڈپو دِہلی سے شائع ہوا تھا۔ سینتالیس میں شائع ہونے والے اس مجموعے کے افسانے بھی کچھ برس پہلے کے لکھے ہوئے ہیں۔ یوں اس مختصر عرصے میں وہ افسانہ نگاری کی طرف متوجہ بھی ہوئے، اپنے تخلیقی جو ہر دکھائے اور پھر تنقید کی طرف متوجہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے پہلے مجموعے میں یہاں تک لکھ رکھا تھا:
”اردو ادب جہاں پہنچ چکا ہے اسے مجموعی حیثیت سے آگے بڑھانے کے لیے تخلیقی جو ہر کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی کہ ایک پر از معلومات اور جاندار تنقید کی۔ اس تنقیدی تحریک کو تازہ ترین معاشی، سیاسی، اخلاقی،نفسیاتی،عمرانی،اور فلسفیانہ نظریوں سے مسلح تو ہونا ہی ہوگا،لیکن سب سے زیادہ اس کے لیے مغرب اور مشرق کی ادبی اور تنقیدی تاریخ سے پوری آگاہی لازمی ہو گی۔اور ہر ادبی کیفیت اور انداز کا منبع اور مخرج بنانا ہوگا۔“
اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”انسان اور آدمی“ کے پیش لفظ میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ اپنے افسانوں کے مجموعے کا نام ”انسان اور آدمی“ رکھ سکتے تھے، کیوں کہ جو کچھ انہوں نے اس عنوان والے مضمون میں کہا تھا، اپنے ایک افسانے میں بھی کہہ چکے تھے کہ ان کی جذباتی اور ذہنی توجہ کا مرکز تو بس وہی رہا ہے(۶۱)۔ ”جزیرے“ میں شامل ”اختتامیہ“ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ مثلاً اسی تحریر میں وہ کہتے ہیں:
1-سچ تو یہ ہے کہ مجھ میں ہیئت کا احساس ہے ہی نہیں۔ فنی اور ہیئتی اعتبار سے میرے افسانے عجیب کانے کھدرے ہیں۔بالکل بے ڈول، کانیں نکلی ہوئی۔ لیکن اس طبعی کمزوری کے باوجود میں کچھ ٹھونک پیٹ کر ان کی شکل وصورت درست کرنے کی کوشش کر سکتا تھا، اگر قدرت نے مجھے تھوڑا سا صبر و سکون اور استقلال بھی دیا ہوتا۔ یوں افسانہ لکھنے میں تو میں مہینوں لگاتا ہوں، مگر یہ امر مشکوک ہے کہ واقعی جائز طور پر صرف ہوا ہے۔
2۔ تخلیق کا اصول ہی یہ ہے کہ پہلے موضوع کو پوری شدت کے ساتھ ایک چمکتے ہوئے نقطے کی طرح محسوس کیا جائے، لیکن اس کے لیے روحانی کاوش کی ضرورت ہے جس سے بڑے بڑوں کو پسینے آجاتے ہیں۔
3۔ جدید نفسیات نے آرٹ میں ہیئت کی بنیادیں کھود ڈالی ہیں۔ کیونکہ اس کے نزدیک انسانی زندگی نام ہی ہے ناہمواری، بے ترتیبی، اور غیر تسلسل کا۔۔۔۔ہمواری، ساخت، تعمیر اور مجسمہ سازانہ ڈھلائی کا نام نہ لیجئے۔ یا حقیقت نگاری سے کنارہ کش ہو جائیے
عسکری صاحب کے دونوں مجموعوں ”جزیرے“ اور ”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ کے افسانوں کو لکھنے کے محرکات اوراُن کے تخلیقی عمل کو سمجھنے میں وہ سارے نکات جو اب تک زیر بحث آئے کس قدر اہم، ریلے وینٹ اور معاون ہو گئے ہیں اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔
”جزیرے“ کے پہلے افسانے ”کالج سے گھر تک“ کا پہلا جملہ ہے؛”میرا کالج تین بجے بند ہوتا ہے۔“ یہ جملہ کہانی کا راوی متعین کر دیتا ہے۔ اگلا جملہ اگلی سطر میں ہے اور یہیں سے بے تکلف زبان میں کہانی کا بیانیہ بھی طے ہو جاتا ہے۔ بے تکلف زبان کا اندازہ اس جملے سے اوران میں برتے گئے الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے”صبح سے اُٹھ کرپڑھنا وڑھنا تو لگا ہی رہتا ہے۔“ یا جیسے”جوتا پھٹ پھٹاتے جاؤ اور آکر پڑ رہو۔“ یاپھر ”سیاسیات پر اٹائیں سٹائیں بحث کو بے کار سمجھتا ہوں۔“ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جسے گماں ہے کہ اسے سیاست،بین الاقوامی معاملات، ادب سب پر بہت کچھ آتا ہے لیکن کالج کے لڑکوں کا سامنا نہیں کرپاتا اور اُن سے کنی کاٹ کرنکل لیتا ہے۔ ایک مونو لاگ ہے جو آخر تک چلتا ہے۔کالج سے گھر تک پہنچنے کے مراحل میں تقریر کی مشق ہوتی ہے، لڑکیوں کا تانگہ آتا ہے تو وہ اس لڑکی کی بابت سوچتا ہے جو اسے پسند ہے۔درختوں کے جھنڈ کے بعد کمہار کا گھرآتا ہے تو کمہار کی لڑکی کا گھٹنوں سے اوپر تک پھٹا ہوا لہنگا اوربرہنہ چکنی پنڈلیوں پر نیلی رگیں بھی کہانی کا حصہ ہو جاتی ہیں۔ اپنے خیال میں مست، اپنی صلاحیت پر خوش لڑکے کی کہانی میں ادب، سماجی اونچ نیچ، جنس،بورڈنگ کی لڑکیوں کے ہاں حرامی بچوں کے پیدائش اور نہ جانے کیا کچھ داخل ہوتا چلا گیا ہے۔ کہانی اوبڑ کھابڑ راستوں پر چلتی ہوئی ان جھلکیوں سے بہت کچھ سجھا کر تمام ہو جاتی ہے۔
افسانہ ”چائے کی پیالی“ میں بھی کوئی بڑا تنازع کہانی نہیں ہوا ہے۔یہاں بھی ”کالج سے گھر تک“ جیسا ایک سفرہے۔ پہلے افسانے میں لڑکا تھا اور اس میں ایک لڑکی ہے۔ کرسچین گرلز اسکول ایلی نگر کی ساتویں کی طالب علم مس ڈولی رابنس۔ وہ پہلے تانگے اور پھر سعد آباد والی بس پر سوار ہو کر گھر پہنچتی ہے۔ گلابی فراک،اونچی اِیڑھی کا کالا جوتا،احتیاط سے بنے بال،سنہرے جھولتے بندے، سفید چکنی پنڈلیاں اور بازو گول اور گداز، یہ ہے وہ اس لڑکی کی تصویر جس سے قاری کی ملاقات ہوتی ہے۔ تانگہ شہرکے باہر باہر سے جاتا ہے اور لڑکی اندرون شہر کے ان راستوں کو ٹٹولتی جن سے وہ مانوس تھی۔سعد آباد والی بس میں بیٹھ کر اسے برنس کو خط لکھنے کا وعدہ یاد آتا ہے۔اس سے لپٹ کر باتیں کرنا۔ایک لڑکے کا خیال ہونٹوں تک پہنچا۔غزل الغزلات، ناف کا گول پیالا، چھاتیوں کے درمیان محبوب کے پڑے رہنے کا تصور،یہ سب متن کا حصہ بن چکتا ہے تو ننھے فریڈی کے ذکر پر کہانی مکمل ہو جاتی ہے اور یہیں عسکری صاحب کا کہیں اور لکھا ہوا یہ جملہ بھی دیکھ لیجئے”میری روح میں بھی اتنا ہیجان نہیں ہے۔۔۔صرف چائے کی پیالی کا طوفان“۔
افسانہ ”پھسلن“ کے ہر کردار کے دل میں کیا کھدبد ہو رہی ہے۔ذاکر اور مرزا بیدار بخت کہاں ہیں اور جمیل اوراس کا نوکر نذرو کہاں۔ یہ لڑکے ایک دوسرے میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں۔ ہر منظر یوں بیان ہوتا ہے، کہ کرداروں کے اندر ہونے والی جنسی اتھل پتھل بھی ہم پر کھلتی چلی جاتی ہے۔ ذاکر کاجمیل پوچھناکہ یہ کون صاحب ہیں بھئی؟اور اس جواب پر کہ ”نیا نوکر“ اور ذاکر کا متعجب ہو کر پوچھنا:”یعنی آپ کو بھی یہ شوق ہوا،یہ کب سے؟“ کہانی کا سارا قضیہ قاری کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ اب جمیل بھی نذرو کی بدلی ہوئی شخصیت کو دیکھ رہا ہے۔افسانے میں دوستوں کے گروہوں کے تعارف سے ہم جنسوں کے بیچ قائم ہونے والے تعلقات کی مختلف سطحیں متعین ہوتی ہیں۔ اس کی گردن میں ہاتھ ڈالنے، گال کھینچ کھینچ کر لال کرنے، اور چھاتی پر ہاتھ مارنے والے۔نچلی کلا س والادوسرا گروہ؛جن میں کھل کر جمیل ہنستا اور پھر وہ مظہر جسے وہ اکیلے میں لپٹا کر ہونٹوں سے گال چھوتاتھا۔ بدلے ہوئے موسم میں ٹوٹتے جسم کے ساتھ نذروکااپنا پلنگ گھسیٹ کرجمیل کے پلنگ کے پاس کر لینا اوراس کی ران دبا کر پوچھنا کہ”آجاؤں“۔ افسانے کی ساری پھسلن ”ابے ہٹ“ کے دو لفظوں تک ہے۔
افسانہ”حرام جادی“کا راوی واحد غائب ہے۔یہ ایک مڈ وائف ایملی کی کہانی ہے جووہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اس کی رواں زندگی میں بہت سے رخنے پیدا ہو چکے تھے۔ اب اس کے عجب سے روزو شب ہیں۔ ایک لمحے کو سکون اور قرار نہیں۔قصباتی زندگی اس کا مقدربن چکی تھی۔ زچہ کے پاس کا ہنگامہ، دائی کی موجودگی میں اس کا غیر اہم ہو جانا، ٹاؤن ایریا کے دفتر میں اندراج کے وقت بخشی جی کی آنکھوں کا چمکنا وغیرہ ایسے واقعات ہیں جو موضوع کو بھی چمکائے جاتے ہیں۔ شیخ صفدر علی کے ہاں بلائے جانے کے ذکر سے کہانی میں ایک موڑ آتا ہے اور سوتے جاگتے کی کیفیت میں ولیمسن کی یاد بیانیے کا حصہ بنتی ہے۔اس کااُسے لپٹانا،جوش وجذبے والے بوسے دے کربھینچنا یاد کرکے یہ دھیان میں لانا کہ وہ صبح اُسے جانے نہ دیتا،کہتا”مسز ولیمسن آرام کر رہی ہیں“۔ وہی پیار کرنے والا اسے بے رحمی سے پیٹتاتھا۔ دانتوں سے کاٹتا اور بید سے چمڑی اُدھیڑ دیتاتھا۔اس شرابی کی آنکھیں خونی تھیں، مگراسے یقین تھا کہ وہ اسے صبح جانے نہ دیتا۔ ولیمسن کا ایک کالے توا سی سوکھی سڑی لڑکی روزا کے ساتھ پھرنا ایملی کو برداشت نہ ہوا اور ڈینا کے بہکاوے میں طلاق مانگ لی تھی۔کہانی کے آخر میں یہی مطلقہ ایملی سفید کی بہ جائے نیلی ساڑھی پہن کر ذرا دیر سے نکلتی ہے تو حرام جادی کہلاتی ہے۔
افسانہ ”میلاد شریف“ کہنے کو توشیخ بنیاد علی کے ہاں میلاد کی تقریب کے گرد گھومتا ہے مگرہوتا یہ ہے اس تقریب سے جڑی چہل پہل میں بنیے کی لڑکی اپنی چھوٹی بہن کو لینے باہر نکلتی ہے۔لوگوں کو بیٹھا دیکھ کر کولہے مٹکاتی، کمر میں بل ڈالتی، اور ساڑھی سے بازو باہر نکالتی ہے تو اسمٰعیل کی پنڈلیوں میں گد گدی ہوتی ہے۔بوا فاطمہ،چار بچوں اور بڑی لڑکی کلثوم کے ساتھ میلاد پر اس لیے جاہی تھی کہ شیخ بنیاد کی بیٹی چھ سال بعد آگرے سے لوٹی ہے اوروہ انہیں اُس کے چال چلن دیکھنے ہیں۔ سپاہنی دیر تک نہاتی ہے اور سرخ ریشمی برقع ٹرنک سے نکال کر پہنتی ہے جس میں سے بازو باہر نکلتے تھے مگر بوا کے اعتراض پراسے سفید برقع جھاڑجھٹک کر اوڑھنا پڑتا ہے۔ افسانے میں بیانیہ بہت خوب اور رواں ہے اور اس فضا میں مختلف کرداروں کے ہاں کام کرنے والے تخیل کو گرفت میں لے رہا ہے۔ یہ سارا تخیل جنس کے جذبوں سے جڑا ہوا ہے۔ شہر کی باتیں، لڑکیا ں، ننگی پنڈلیاں اور رانیں؛ مگراس افسانے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سب بیان کرنے کے لیے عسکری صاحب نے کسی کردار کو عیسائی نہیں بنانا پڑا۔
افسانہ”اندھیرے کے پیچھے“میں فیتھ ہے، ایک عیسائی لڑکی۔ وہ قدرے دیر سے میس سے ہاسٹل کے کمرے میں آتی ہے۔ یہاں ذرا زبان کا لطف لیں ”جب اندھیرا مکڑی کے جالوں کی طرح انگلیوں میں پھنسے جاتا تھا اور مخاصمت آمیز شرارت کے ساتھ اپنا کام نہ کرنے دے رہاہوتا ہے تو وہ اپنا بستر ٹھیک کرتی ہے۔“ اپنا بستر ٹھیک کرنے کے بعد فیتھ اپنی آٹھ سالہ چھوٹی ناقابل اصلاح بہن شیلا کا بستربناتی ہے۔روڈا کا کمرے میں آنا اور اس طرح کی چھوٹی چھوٹی باتوں سے جنسی جذبوں کی جانب اشارے کرکے کہانی کا بیانیہ مکمل ہوتا ہے۔
افسانہ ”ایک معمولی خط“ایک اوسط درجے کی صلاحیت والے فرد کی کہانی ہے جو ایک معقول صورت لڑکی کو خط لکھتا ہے، ایک عام سا خط۔ پھر وہ اپنی زندگی کے دھارے میں بہتا چلا جاتا ہے۔ امید سے خالی زندگی کے بہتے دھارے میں، حتی کہ اسے پھر سے اینجلا یاد آتی ہے، وہی جسے بی اے کرلینے کے بعد گھر آنے پر خالی دنوں میں ایک عام سا خط لکھا تھا اور اس خط کے وسیلے سے ایک لڑکی اس کے لیے جینے کی تاہنگ اور امنگ بن گئی تھی۔پھر یوں ہوتا ہے کہ اسے اپنا پرانا دوست مقبول ملتا ہے جوانکشاف کرتا ہے کہ اینجلا کی ایک امیر ڈاکٹر سے شادی ہوئی تھی اور یہ کہ وہ ایک سال کے اندر اندر مر گئی تھی۔ بس یہی کل کہانی ہے۔
اس مجموعے کا آخری افسانہ ہے”وہ تین“۔ یہ ایسے تین افراد کی کہانی ہے جو اپنی رگوں میں سے سانس نکلتے اور اپنے آپ کو پتھر بنتے محسوس کر سکتے تھے۔ کہانی پتوں کی پیہم سرسراہٹ سے شروع ہوتی ہے۔ اس میں وہ وقفہ آتا ہے کہ گرجا کے گھنٹے کی غیر متوقع اور اضطراری ٹن ٹن ماحول کو کچھ اور افسردہ، بے نور اور گراں بنا دیتی ہے۔ کیلب کے اندر کا خلا بھی وسیع، عمیق اور بیکراں ہے۔ اس کی ہڈیاں سردی سے سوجنے لگی ہیں اور وہ اپنے آپ سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ اس حد تک سوج سکتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑی نہ رہ سکیں اور ان کے جوڑ ٹوٹنا شروع ہو جائیں۔ اگر اس کی ہڈیاں چاروں طرف سے پھوٹتی چلی جائیں،اور اس کے دل،پھیپھڑوں، انتڑیوں سب کو پیس کر رکھ دیں تو کیا اس شکنجے میں اس کی آنتیں تانت کر سوکھے ہوئے ٹکڑے بن جائیں گی۔
میتھلڈا اتنی بے اعتبار ہے کہ وہ اپنے بدن کی خشکی کے داغوں والی تھل پل کرتی پیلی پڑتی کھال کو دیکھ کر برداشت نہیں کر پاتی تو اسے چھپانے لگتی ہے۔ اس کی ٹانگیں سردی سے بے خبرہیں۔اس کے اعصاب بالکل مردہ ہو گئے ہیں مگر نینسی کو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے اس کا دِل مسل ڈالا ہے۔اس کی شامیں ایک بے رونق برآمدے میں برباد ہورہی ہیں اور وہ اپنا دل ہلکا کرنے کے لیے کسی پر بگڑ جانا چاہتی ہے۔تاہم نہیں جانتی کہ وہ کس پر بگڑے،صرف اس کے اندرہوا کے جھونکوں کے خلاف ایک ذاتی عداوت کا جذبہ ابل رہاہے۔
یہ ہیں اس مجموعے کے سارے افسانے۔ ان افسانوں کے ساتھ دوسرے مجموعے ”قیامت ہم رکاب آئے نہ آئے“ کے افسانے ملا کر پڑھ لیں لگ بھگ بیانیہ کی تشکیل کا قرینہ وہی رہتا ہے سوائے ایک افسانے ”ذکر انور“ کے جس میں کہانی کا مواد بدلا ہے اورمزاج بھی۔ اِن افسانوں کو لکھتے ہوئے وہ تیکنیک کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھتے ضرور رہے ہیں، مگر اپنے کرداروں، اور اپنی روح کو انہوں نے مخصوص ہندوستانی فضا ہی میں رکھا۔ یہاں کی زندگی کے بنیادی مسائل سے لاتعلق نہیں ہوئے تاہم زندگی میں پیش آنے والے واقعات سے کہیں زیادہ وہ انسانی وجود کے اندر اٹھنے والے ابال سے کہانی کشید کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم فکشن میں ہر قسم کے تجربے کر رہے ہیں سوائے روحانی بے چارگی کے اور یہ کہ جنسیت سے مغلوب ہو کر ہم نے قلب کی معصومیت کھو دی‘، لہٰذا وہ ادھر متوجہ ہوئے تھے اور جنسیت سے مغلوب ہوئے بغیر اسے اپنا موضوع بنایا اور قلب کی معصومیت کو بھی بچا لیا۔
اس باب میں انہوں نے جہاں عام فرد کی قلب کی معصومیت کو بچانے کے جتن کیے وہیں ہندوستانی شعور کی ہتک سے بچنے کے لیے اپنے بیشترکرداروں کے نام ہندوؤں یا مسلمانوں والے رکھنے کی بہ جائے عیسائیوں والے رکھ لیے۔ یاد رہے جب یہ افسانے لکھے گئے تھے تب یہ طبقہ بہت توجہ پارہا تھا۔ عسکری صاحب نے اس باب میں یہ دلیل دی کہ”پچھتر فی صد مغربی شعور کو سو فی صد ہندوستانی نام دینا ہندوستانی روایتی شعور کی ہتک تھی۔“(۹۲) لطف کی بات یہ ہے کہ ”میلاد شریف“ لکھتے ہوئے انہیں ایسا خیال نہیں آیا تھا۔ ”چائے کی پیالی“ خود عسکری صاحب کے نزدیک بھی فحش ہو گیا تھا۔ بہ قول ان کے زولا کے زیر اثر غیر مشروط حقیقت نگاری، خارجیت اور معروضیت کے ذریعے فورا مقبول ہو جانے کی تمنا کا شاخسانہ یہ افسانہ تھا اور یہ بھی کہ اس کے بعضے حصے پڑھ کر خود انہیں بھی شرم آتی تھی۔ مجھے عسکری صاحب کا یہ بیان بھی مبالغہ لگتا ہے کیوں کہ وہ اس افسانے میں بھی کرداروں کے نام سے لے کر جذبوں کی تظہیر تک ویسے ہی محتاط رہے ہیں، جیسا کہ دوسرے افسانوں میں تھے۔افسانہ ”حرام جادی“ کے بارے میں عسکری صاحب کا کہنا تھا کہ یہ انہوں نے چیخوف کے افسانے ”اسکول مسٹریس“ سے متاثرہو کر لکھا تھا اور اس کے بیانیے(جسے خالص موسیقی کہا گیا) کی نغمگی کو اپنے اس افسانے میں پیدا کرنا چاہا تھا۔ ”چائے کی پیالی“ جتنا فحش ہے اس سے قدرے زیادہ ”حرام جادی“ بھی ہے مگر اس افسانے کے باب میں انہیں اپنے آپ سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ”حرام جادی“ کے آدھے حصے کو پڑھ کرتو وہ جھوم جھوم اٹھا کرتے تھے۔ اس کے باقی آدھے حصے پر اگرانہیں کوئی اعتراض تھا تو یہ کہ باقی حصہ بھی اچھا ہوسکتا تھااگروہ اپنے کردار کے خیالوں کی رو کا پیچھا نہ کرنے لگتے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق چلاتے۔ اپنے اس افسانے پر ان کا یہ اعتراض بھی ہمیں مطمئن نہیں کرتا کہ کرداروں پر حد سے زیادہ مرضی مسلط کرنے کا کبھی مثبت نتیجہ نہیں نکلا کرتا۔ عسکری صاحب فنی نقطہ نظر سے بہ نسبت اور افسانوں کے ”ایک معمولی خط“ سے زیادہ مطمئن تھے کہ یہ افسانہ انہوں نے والٹر،موپساں، اناتول فرانس اور استاں داں کے تازہ اثرات کے تحت لکھاتھا اور یہ کہ بہ قول ان کے وہ اس افسانے میں اپنے مواد پر پوری طرح قابض رہے تھے(۰۳)۔ تاہم مجھے یوں لگتا ہے کہ اپنے مواد کے اعتبار سے یہ باقی افسانوں کی بہ نسبت کمزور افسانہ ہے۔ عسکری صاحب کی اس بات سے انکار تو ممکن نہیں کہ تجربے اور محسوسات پر ’آزادانہ غلبہ‘ ادب کی جان ہے مگر یہاں ’غلبہ‘تو ہے’آزادانہ‘ نہیں ہے۔
مجموعی طور پر دیکھیں تو ان کے معاصرین کے ہاں کہیں بھی ایسے بیانیے کی تشکیل کے آثار نہیں ملتے جو عسکری صاحب کے ہاں متشکل ہوا ہے۔ پھر یوں بھی ہے کہ وہ کہانی کا مزاج بھی مختلف کر لینے پر قادر تھے۔انہوں نے انسانی زندگی کی ناہمواری کوانتہائی لطیف سطحوں سے گرفت میں لیا، انسانی نفسیات کو کھنگالا اور اس مقصد کے لیے ایسی زبان کاا ہتمام کیا جوکرداروں کے قبیلے میں مروج ہو کر بھی قدرے بلند رہی، خوب رواں اورایسی کہ جس میں خیال اور ماجرا بہم ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس ڈھلی ڈھلائی کہانی نہیں تھی، کردار جس قدر بیانیے میں متحرک رہتے اُتنا ہی واقعہ بنتا۔ شاید اسے واقعہ کہنا درست نہ ہوگا؛ خیال کہہ لیں۔ احساس یا پھر جذبے کا ہیولا بھی کہ فی الاصل یہی واقعہ تھا اور یہی ماجرا۔ جب عسکری صاحب کے ناقدین نے ان کے افسانوں میں کم سے کم پلاٹ ہونے کو نشان زد کیا تو انہیں کہنا پڑا تھا ”کاش کہ ہوتا۔“ خیر، اگر ان کے ہاں روایتی تصور کے تحت پلاٹ تشکیل پاتا تو وہ اپنے ہم عصروں سے کیوں کر مختلف ہو سکتے تھے، اسی تصور کو توڑ کرہی تو وہ مختلف ہوئے ہیں۔ ان سب افسانوں میں کم یا زیادہ کچی جنس کا جذبہ موجودرہا۔بالعموم اُٹھتی ہوئی عمر میں اس جذبے کا جاگ اُٹھنا ہی متن کا حصہ ہوا ہے۔ پھر اسی جذبے سے جڑی ہوئی دیوانگی، تنہائی، اداسی اور انفعالیت کو لے لیجیے جو کہانی کے کرداروں کو سماجی سطح پر الگ تھلگ، غیر موثر اور نمایاں بناکر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس سماجی صورت حال کی طرف متوجہ کرتے ہیں جس میں یہ کردار رس بس رہے ہوتے ہیں۔
آخر میں پھر سے دھیان انتظار حسین کی”فارن ایڈ“ والی پھبتی کی طرف چلا گیا ہے، اس کے ساتھ میں نے عسکری صاحب کے اس بیان کو جوڑ کر دیکھا جس میں ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ہمیں اپنے ادب کو انسانی ترکے کا ایک حصہ بنانا ہے تو اپنے آپ کو زمان و مکان میں محدود نہیں کرنا ہوگااور یہ بھی کہ ادب کی ”سونے کی سرزمینیں“ فتح کرنے کے لیے ساری دنیا کے بڑے تخلیق کاروں سے اپنا مقابلہ کرنا ہوگا‘۔تاہم ’فارن ایڈ‘ والی پھبتی کا درست تناظر تب سمجھ میں آیا جب عسکری صاحب کی تنقید کو افسانے کے ساتھ اور افسانے کوان کے اس بیان سے جوڑ کر دیکھا تھا کہ’کسی قوم کا ادب ان عناصر، اس مخصوص مزاج اور فضا کو پیش کرنے کی وجہ سے قابل قدر ہوتا ہے جو دنیا کی کوئی دوسری قوم پیش نہیں کر سکتی اور یہ مخصوص مزاج اپنی روح کو عوام کی زندگی میں رسا بسا لینے سے ہوتا ہے‘۔ محمد حمید شاہد پاکستانی ادب کے سب سے بڑے علمبردار کے فن کا جائزہ لیتے ہیں