سب کو اپنی اپنی پڑی ھے۔ خود غرضی کا زمانہ عروج پر ھے، فوٹوگرافر فوٹوگرافرز کی سوچ رھے ھیں، صحافی صحافیوں کی سوچ رھے ھیں، سیاست دان سیاستدانوں کی سوچ رھے ھیں، دوکاندار دوکانداروں کی سوچ رھے ھیں، ڈاکٹر ڈاکٹرز کی سوچ رھے ھیں، امیر امیروں کی سوچ رھے ھیں، غریب غریبوں کی سوچ رھے ھیں، نشئی نشئیوں کی سوچ رھے ھیں، زراعت والے زراعت والوں کی سوچ رھے ھیں، ڈرائیور ڈرائیوروں کی سوچ رھے ھیں ، حاجی حج کی سوچ رھے ھیں، نمازی مسجدوں کی سوچ رھے ھیں، سکھ گردواروں کی سوچ رھے ھیں، عیسائی چرچوں کی سوچ رھے ھیں، بیکر بیکرز کی سوچ رھے ھیں ، چور چوروں کی سوچ رھے ھیں، ڈاکو ڈاکوؤں کی سوچ رھے ھیں، پیر مزاروں کا سوچ رھے ھیں، بازار خریداروں کا سوچ رھے ھیں۔ دلہے دلہنوں کی سوچ رھے ھیں، کوئی لاک ڈاون کر رھا ھے کوئی کرفیو لگا رھا ھے ۔ پر کوئی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کر رھا میرا اللہ کیا سوچ رھا ھے۔ کیا دیکھ رھا ھے، کیا کرنے جارھا ھے، کوئی سوچ بھی تو نہیں سکتا، میرے اللہ تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں، بس ایک وہ ھی تو ھے جو دلوں کے حال جانتا ھے۔ سب کچھ سوچنے کے باوجود سب کچھ بند ھے اور سوچ بھی۔ اب یہ تب ھی کھلے گا، جب میرا رب کھولنا چاھے گا، یونیورسٹی بنانے کیلئے ھائر ایجوکیشن کمیشن کہتا ھے، ڈیڑھ سو کنال زمین ھو، کیمپس کھولنے کیلئے اسی کنال زمین ھو، پھر بھی مائیکروسافٹ نے ٹیمز سافٹ ویئر بنایا، کسی نے زوم سافٹ وئیر بنایا، کسی نے واٹس ایپ گروپ بنایا، کسی نے سکائپ بنایا، یہ کون تھا جو یہ سارے قوانین بنارھا تھا، یقیننا ایک بورڈ ھوگا پی ایچ ڈی ڈاکٹرز کا، پھر کیا فائدہ پی ایچ ڈی کا جب اتنے بڑے کیمپس اب قرنطینہ سینٹر کے طور پر استعمال ھورھے ھیں اور موبائل، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ، ڈیسک ٹاپ کلاس کیلئے استعمال ھورھے ھیں کسی کو کچھ پتہ نہیں کون کہاں ھے، کہاں سے پڑھ رھا ھے وہ ایک قانون تھا 75% حاضری کا اس کے نمبر بھی تھے اور اس کے بغیر پرچے میں نہیں بیٹھ سکیں گے، سب رہ گیا، اگے چلتے ھیں یہ موٹر وے ھے اس کی آخری سپیڈ 120 ھے ورنہ کیمرے کی مدد سے پکڑ کر چالان کردیں گے۔ اب کوئی کیمرے والا ھی نہیں ھے موٹروے پر کیونکہ گاڑی بھی تو کوئی نہیں ھے، دوسو اسی روپے سے شروع ھونے والا ٹول سات سو تک چلا گیا، اب لیں کس سے، یہ راولپنڈی اسلام آباد کی سب سے بڑی بیکری ھے دوکروڑ سیل ھے جی روزانہ کی اب کدھر گئی سیل، یہ چاول کباب کی سب سے بڑی دوکان ھے بند ھے جی یہ تکہ کباب کا ریسٹورانٹ ھے اسکی سفارش ھے کہ آئس سے ھلاک ھونے والے بچے کے قاتلوں کو چھوڑ دو، کرلو سفارش، یہ سب سے بڑی گیلری ھے ان کے پاس وقت نہیں ھے اگلے دوسال نمائش کیلئے، سب بند ھے۔ میری درخواست ھے وقت کے فرعونوں سے توبہ کر لو توبہ، ھر سال حج کرنے سے گناہ معاف نہیں ھوتے اگر اس سال حج نہ ھوا تو اس سال کے گناھوں کا کیا کروگے، ظالمو میرے رب نے تو ھم سے عبادت کا حق بھی چھین لیا ، فیصل مسجد میں قرعہ اندازی سے اعتکاف کے نام نکلتے ھیں، یہ مسجد قباء ھے اسلام آباد۔ لاکھوں روپے رمضان میں ملٹی میڈیا اور ایئرکنڈیشن کی مد میں کرایہ ادا ھوتا ھے، اوئے کن چکروں میں پڑ گئے ھو ظالمو، واپس آجاو دین کی طرف، اس کو ویسا ھی سادہ رھنے دو جیسے یہ آیا تھا۔ یہ کرونا وائرس نہیں وارننگ ھے، بس کردو اپنی مرضیاں اللہ کی مان لو توبہ کر لو۔ مجھے نیند نہیں آئی اس دن سے جب خبر آئی گولڑہ میں تین بھائی اپنی سگی بہن سے حوص مٹاتے رھے، مجھے کسی نے کہا اس پر لکھو پر میں رو پڑتا تھا کیسے لکھوں۔ الفاظ نہیں تھے۔ رشتوں کی حرمت ختم ھوگئی، سوچتا تھا روتا تھا یااللہ ھم اس نہج پر پہنچ گئے ھیں تو قیامت کب آئے گئ، یاللہ تیری فرشتہ کی عصمت وزیراعظم کے گھر سے چند کوس کے فاصلے پر تارتار ھوگئی وہ قتل ھوگئی اور کئی مہینوں بعد بدبخت وزیراعظم رو رھا ھے اور ویڈیو بن رھی ھے کہ وزیراعظم رو رھے ھیں ۔ کس بات پر رو رھے ھیں، ھمارے سارے وزیراعظم بھی روئیں، آنسووں سے پاک سر زمین کو دھوئیں، تب بھی اس پاک سرزمین کو پاک کرنا مشکل نظر آرھا ھے۔ ندیم افضل چن نے ٹھیک کہا کہ مختاریا ۔۔۔۔۔ جانی دیا گھر وچ بو، اس کے مخاطب وہ سب صاحب اختیار ھیں، سب سیاستدان ھیں، وہ سب گدی نشین ھیں، سب عالم ھیں، سب میڈیا پرسنز ھیں، سب ایڈمینسٹریشن ھے، جنہوں نے ساری دنیا کو اپنی خود غرضی سے اس نہج تک پہنچایا اور خود مختارے بن گئے۔ اور چندے کی اپیل ھے ھر طرف، اور تو اور ایدھی فاونڈیشن حکومت وقت کو چندہ دے رھی ھے، ھائے وہ میرا عبدالستار ایدھی جو سڑک پر کھڑا ھو کر بھیک مانگنے کیلئے جھولی پھیلاتا تھا اور سب اپنا سب کچھ اس کی جھولی میں ڈال دیتے تھے اور آج ھم نے بادشاھی میں فقیری کی۔ سیلانی ٹرسٹ کے دسترخوان پہلے سے چل رھے ھیں چلنے دو انکو سیاسی دستر خوان مت بناو، یا پھر سارے لنگر خانے بھی سیاسی کر دیتے ھیں، ویسے تو لوگ پہلے ھی حضرت داتا سرکار، حضرت بری سرکار، حضرت شاہ شمس تبریز سرکار، حضرت بہاءالدین زکریا سرکار اب سمجھ آیا کہ انکے نام کے ساتھ لوگ سرکار کیوں لگاتے تھے، یہ اب سب سرکاری ھوجائیں گے۔ ان کا چندہ اب سرکار کے پاس جمع ھوگا۔ پہلے کسی کو سمجھ ھی نہیں آئی۔ یہ ھوتا ھے ویژن ۔ یہ ھوتی ھے تبدیلی ۔ سمجھ آئی جے مختاریا ۔۔۔۔۔۔ جانی دیا۔