جی ہاں! اگر موجودہ کراچی کو پاکستان کا Dustbin کہا جاۓ تو یہ غلط نہ ھو گا۔ اور شائد یہ دنیا کا سب سے بڑا Dustbin ھے جس کا ڈھکن تک موجود نہیں۔ جس کی وجہ سے پورے شھر میں کچرے کی بدبو کا راج ھے۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر تو یہی تاثر دیتے ہیں کہ پورے ملک کا کچرا اس Dustbin میں ڈالا جاتا ھے۔اس شھر کو میٹروپولیٹن شھر کہنا کس بھی میٹروپولیٹن شھر کی توہین ھے۔حقیقت تو یہ ھےکہ کراچی اب ایک شھر بھی نہیں رہا بلکہ ایک گوٹھ کی شکل اختیار کر چکا ھے۔
ملک کے دیگر شھروں سے جو لوگ بڑی چاہ کےساتھ یہاں گھومنے کی غرض سے آتے ہیں وہ شھر کی حالت دیکھتے ہیں، توبہ توبہ کرتے ہیں ، یہاں کے رہنے والوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے شھروں کی اچھائیاں بتا کر یہاں کے رہنےوالوں کا خون مزید جلاتے ہیں۔
اس شھر کو صرف صفائ ستھرائ ہی کا مسئلہ درپیش نہیں بلکہ کئ سالوں سے یہ شھر لاتعداد مسائل کا شکار ھے جن میں پانی ، بجلی ، گیس ، ٹرانسپورٹ ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ، بیروزگاری ، جرائم، غربت، صحت اور غیر معیاری نظام تعلیم جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔ان مسائل کی شدت میں روز بروز اضافہ ھوتا جارہا ھے اور اس شھر کی حالت ابتر سے ابتر ھوتی جارہی ھے۔ اس شھر کے مسائل حل کرنے میں وفاقی، صوبائ اور مقامی تینوں حکومتیں مکمل طور پر ناکام ہیں۔
اس شھر کے مسائل کو حل کرنے کی اولین ذمہ داری تو حکمران جماعت پر ہی عائد ھوتی ھے۔ لیکن اس کے بڑھتے ھوۓ کئ مسائل کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔
پورے شھر میں کی جانے والی ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔اسی طرح اپنے گھروں کا سارا کوڑا گلیوں اور نالوں میں ہم خود ہی پھینکتے ہیں۔کیا حکومت ہمیں تجاوزات تعمیر کرنےکے لیے مجبور کرتی ھے؟ کیا حکومت ہمیں کہتی ھے کہ ہم اپنے گھروں کا کچرا باہر گلیوں اور نالوں میں ڈالیں؟
کراچی کے بڑھتے ھوۓ مسائل کی سب سے بڑی وجہ اس کا رقبہ اور اس شھر کی بڑھتی ھوئ آبادی ھے۔دنیا کے کئ ممالک رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کراچی شھر سے بھی چھوٹے ہیں۔
کراچی کا رقبہ 3780 مربع کلو میٹر اور اس کی آبادی تقریباً ڈھائ کروڑ ھے جبکہ سنگاپور کا رقبہ صرف 719 مربع کلو میٹر اور اس کی کل آبادی تقریباً 60 لاکھ ھے۔ یعنی رقبے اور آبادی کے لحاظ سے کراچی سنگا پور سے تقریباً پانچ گنا بڑا ھے۔
اسی طرح آسٹریلیا کا رقبہ 77 لاکھ مربع کلو میٹر اور آبادی ڈھائ کروڑ جبکہ کراچی کا رقبہ صرف 3780 مربع کلو میٹر اور لیکن اس کی آبادی بھی تقریباً ڈھائ کروڑ ہی ھے۔ یعنی رقبے کے لحاظ سے آسٹریلیا پاکستان سے 2000 گنا سے بھی بڑا ھے جبکہ دونوں کی آبادی برابر ھے۔
سندھ جیسے بڑے صوبے اور پھر اس صوبے کے کراچی جیسے بڑے شھر کا انتظام چلانا کسی بھی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ یہ مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ھے۔ اس لیے کراچی کو انتظامی بنیادوں پر علیحدہ صوبے کا درجہ دیا جانا چاہیے۔
انتظامی یونٹ جتنا چھوٹا ھو گا اس کے مسائل کو حل کرنا اتنا ہی آسان ھو گا۔
میں صرف کراچی ہی کو نہیں پاکستان کے کئ بڑے شھروں کو بھی انتظامی بنیادوں پر صوبے کا درجہ دینے کے حق میں ھوں۔ ابتدائ طور پر تمام صوبائ دارلحکومتوں یعنی کراچی، لاھور ، پشاور اور کوئٹہ کو صوبوں کا درجہ دے دینا چاہیے۔
دوسرے مرحلے میں مزید علاقوں یا شھروں کا انتخاب کر کے انھیں بھی صوبوں کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ ہم سب کو زہن میں بس ایک بات رکھنی چاہیے کہ مسائل کے فوری حل کے لیے انتظامی یونٹ کا چھوٹا ھونا نا گزیر ھے۔
اپنے مسائل سے نکلنے کے لیے ہم سب کو پاکستانی بن کر سوچنا ھو گا۔نۓ صوبوں کے قیام کا قطعئ یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ یہ کسی قسم کی کوئ تقسیم ھے۔ اس ملک کے تمام شھر اور صوبے ہم سب کےہیں۔ صوبوں کے بننے پر اگر کسی سیاسی جماعت کے تحفظات ہیں تو مل بیٹھ کر ان تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔ کسی کی دل آزاری نہیں ھونی چاہیے۔
اگر ہم واقعئ پاکستان کی ترقی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے ھوں گے۔اور اس ملک میں ایک نہیں انتظامی بنیادوں پر مزید کئ صوبے بنانے ھوں گے اور ہر صوبے کی ترقی کے لیے ہم سب کو مل کر کام کرنا ھو گا تا کہ لوگوں کو اپنے ہی صوبے میں روزگار سمیت تمام سہولتیں میسر ھوں اور وہ دوسرے صوبوں میں نقل مکانی نہ کریں۔
awesome thank you!