فاسٹ اور جنک فوڈ نے بیشتر روایتی پکوانوں کو نگل لیا، نوجوان نسل تو اپنے کھانوں سے خاصی بیزار نظر آتی ہے، پیزا، برگر، بروسٹ کچھ نہ ہو تو فرائیز ہی سہی مگر گھر کا کھانا نہیں کھانا۔ سبزیاں، قیمہ، دالیں نہیں چلتی تو عمدہ اور لذیذ کھانوں کی کیا بات کی جائے۔ شب دیگ، نرگسی کوفتے، ہرا قیمہ، انواع و اقسام کے کباب، قورمہ، تار، سرسوں کا ساگ مکئی کی روٹی، پالک گوشت، آلو گوشت، بگھارے بیگن، کڑھی، طاہری، بھت پلائو، بلوچی نمکین، کشمیری روٹھ اور وزوان، گلگتی چھپ شورو، دال چاول، چٹنیاں، ربڑی، کھیر، گاجر کا حلوہ، ایک طویل فہرست ہے جو رفتہ رفتہ سکڑتی جا رہی ہے۔ مگر جناب کچھ روایتی کھانے ایسے لذیذ ہیں جو نہ صرف خم ٹھوک کر فاسٹ فوڈ کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ لذت اور ذائقے کی دنیا پر اب بھی راج کرتے ہیں۔ بریانی، پلائو، نہاری، حلیم، کڑھائی یہ ایسے کھانے ہیں جو نوجوان نسل بھی بیحد پسند کرتی ہے، کچھ تو ذائقے کی سخت جانی اور کچھ لذت، ان روایتی کھانوں نے پاکستانیوں کو سحر میں جکڑ رکھا ہے۔
آج نہاری کی بات کرتے ہیں، نہاری یوں تو پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں ملتی ہے، ہر جگہ بڑے چھوٹے نہاری ہوٹل ملتے ہیں جہاں کھانے تو بہت سارے ہوتے ہیں مگر ہوٹل نہاری کے باعث ہی چلتا ہے۔ بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کراچی جیسی لذیذ نہاری کہیں اور نہیں ملتی، ہر شہر میں ایک دو ہوٹل نہاری کے حوالے سے مشہور اور مقبول ہوتے ہیں مگر کراچی میں ایک دو نہیں، دس سے بارہ ہوٹل ایسے ہیں جن کی نہاری کی دھوم مچی ہوئی ہے۔ خیر یہ تو ایک علیحدہ بحث ہے مگر نہاری سب ذوق و شوق سے کھاتے ہیں، نلی یا مغر نہاری، گرما گرم تندوری روٹی، ادرک، باریک کتری ہری مرچ، دھنیا اور چند قطرے لیموں کے، ایسی مزیدار پھر بھلا کسی کا ہاتھ کیسے رکے۔
مزیدار بات یہ ہے کہ نہاری کا شوق تو سب کو ہے مگر تاریخ نہیں جانتے، نہاری کب اور کہاں بنی، کیوں بنائی گئی۔ چلتے ہیں 18ویں صدی کے دلی، جہاں جامع مسجد کے آس پاس گلیوں میں پہلے پہل نہاری بنائی گئی، نہاری تو صبح کا ناشتہ تھا پھر صبح دوپہر شام، یہ رواج کیسے پڑا؟ جانتے ہیں نہاری کا دلی سے کراچی تک کا سفر،،، دیکھتے ہیں یہ ڈاکومنٹری