مئی 2020ء میں امریکہ میں سیکورٹی اہلکار کے ہاتھوں ایک سیاہ فارم شہری جارج فلائیڈ کی موت کے بعد احتجاج اور ہنگامے شروع ہوئے تو اس ماورائے عدالت قتل کے نتیجے میں پورا امریکہ سڑکوں پر احتجاج کے لئے موجود تھا۔ نہ صرف امریکہ کے مین سٹریم میڈیا بلکہ دنیا بھر کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں ہفتوں یہی قتل اور اس پر عالمی ضمیر کا احتجاج ٹاپ سٹوری بنا رہا۔ انسٹاگرام اور سوشل میڈیا پر بے تحاشا لکھا جا رہا تھا،
اجتجاجی ویڈیوز اپ لوڈ ہو رہی تھیں۔ سیاسی پارٹیاں سٹیٹس مین اور سینٹرز سول سوسائٹی صحافیوں اور ادیبوں کی انجمنیں شوبز اور آرٹ غرضیکہ ہر شعبہ زندگی سےتعلق رکھنے والے فرد نے اجتجاج ریکارڈ کروایا، سڑکوں پر توڑ پھوڑ بھی ہوئی، مارکیٹس لوٹی گیئں لیکن پولیس یا دیگر سیکورٹی اہلکاروں نے دوبارہ کسی کو مارنے یا تشدد کرنے کی راہ نہیں اپنائی، تحمل کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی اور لوگوں کے برے رویئے برداشت کرتے رہے، کسی کو دوبارہ مارا پیٹا نہیں۔ اس اجتجاج پر کسی نے بھی سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو غدار نہیں کہا، نہ ہی ملک دشمنی کا ایوارڈ دیا گیا، بلکہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے رہے، میں نے انسٹاگرام پر دیکھا کہ لپ اسٹک اور نیل پالش سے بھی مرنے والے کا نام لکھا گیا، یہ بھی اجتجاج کا ایک پر امن طریقہ تھا جو میک اپ آرٹسٹ نے اپنایا۔
ہمارے ملک میں انیس سو اڑتالیس میں بھابرا خیبر پختون خواہ میں چھ سو خدائی خدمت گاروں کو قتل کرنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکورٹی فورسز نے آج تک عوام کے جان و مال پر کوئی احتیاط نہیں کی ھے۔ حالیہ برسوں میں چاہے وہ اکبر بگتی کا قتل ہو یا کراچی میں نقیب اللہ محسود کا قتل۔ کراچی ہی میں رینجرز کے ہاتھوں سرفراز کا قتل ہو یا ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کا قتل۔ غرضیکہ کراچی سے خیبر تک کسی بھی ایسے واقعے کو غلط فہمی کا رنگ دے کر معافی مانگ لی جاتی ہے۔
معافی مانگ لینے سے والدین کے پیارے واپس نہیں آتے نہ ہی بچوں کو انکے والدین واپس ملتے ہیں، ہر دور حکومت میں ایسا واقعہ ہوا، لیکن مظلوم کے ساتھ انصاف نہ ہوا۔ تسلسل سے ہونے والے ان واقعات میں تازہ ترین واقعہ تربت میں ایف سی کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایک نوجوان طالب علم حیات بلوچ کا قتل ھے۔ جس پر نہ تو مین سٹریم پولیٹیکل پارٹییز اور نہ ہی دینی اور علاقائی پارٹیوں نے کوئی موئثر صدائے احتجاج بلند کی اور نہ ہی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا نے اسے ٹاپ سٹوری بنایا۔ کسی بڑے شہر میں کوئی بڑا احتجاج نہیں ہوا۔
ملک میں سوشل میڈیا کی آمد کے بعد ان واقعات پر اجتجاج کرنے والے افراد کو غدار، ملک دشمن افواج پاکستان کے دشمن اور نہ جانے کن کن برے القابات سے یاد کیا گیا ہے، حالانکہ ہمارے جیسے ملک میں یہ صورتحال کو لیٹرل ڈیمج کہلاتی ہے ،یعنی آج کوئی اور ہے لیکن کل آپ ہو سکتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی کئی آرٹیکل میں اس پر لکھا ہے اور ایک بار پھر لکھ رہا ہوں، اور بار بار لکھتا رہوں گا جب تک ہم سب اجتماعی طور پر لاقانونیت کے خلاف کھڑے نہیں ہونگے ہمیں امن اور تحفظ فراہم نہیں ہو گا۔ ملک میں اپنے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی لاقانونیت پر اجتجاج کیجئے، مظلوم کی داد رسی اور انصاف کے حصول میں مدد کے لئے کام۔کیجئے، عدلیہ پر عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے زور دیجئے، ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن کہنا بند کیجئے، ملک کی اشرافیہ کی طرح ہمارے پاس تو دوسرے ملکوں کی شہریت نہیں ہے ہمیں تو پھر اپنے ہی ملک میں رہنا ہے۔ انصاف اور عزت کے ساتھ رہنے کے لئے آیئے اپنے معاملات کی اصلاح کیجیئے۔
ان شا اللہ پاکستان ایک عظیم ملک اور پاکستانی قوم ایک عظیم قوم بنے گی۔