یار میں جاپان میں چھ مہینے لگا کر آیا ھوں۔ بہت مزا آیا۔ اچھے پیسے کماۓ۔ یہ بات کراچی یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں میری پچھلی میز پر بیٹھے ھوۓ ایک لڑکے نے چاۓ کی چسکی لیتے ھوۓ اپنے دوستوں سے کہی۔ یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئ اور میں نے بھی جاپان جانے کی ٹھان لی۔
میں مالی اور چند دیگر وجوہات کی بناء پر پاکستان چھوڑنا چاہتا تھا۔اور بیرون ملک جانا چاہتا تھا۔ جاپان مجھے اس لیے آئیڈیل لگا کیونکہ وہاں کم وقت میں زیادہ پیسہ بھی کمایا جا سکتا تھا۔
اس وقت پوری دنیا خاص طور پر جنوب مشرق ایشیاء کے ممالک کے لوگ جوق در جوق جاپان پہنچ رہے تھے جہاں ملازمتوں کے وسیع تر مواقع موجود تھے۔ پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل تھا جس کے لوگ جاپان کے ائیر پورٹ پر انٹری ویزا حاصل کر سکتے تھے لیکن آپ کے پاس جاپان آنے کی کوئ معقول وجہ کا ہونا ضروری تھا ورنہ ایئر پورٹ ہی سے واپس بھیج دیا جاتا تھا۔
ان دنوں میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کا طالب علم تھا۔اور دو مختلف میگزینز کا ایڈیٹر بھی تھا۔ ایک اردو میگزین یونیورسٹی ٹائمز اور دوسرا انگریزی میگزین دی اسٹوڈنٹ گزٹ۔
میں جاپان جانا تو چاہتا تھا لیکن میں deport ھو کر اپنے پیسے ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس کے لیے مجھے جاپان میں داخلے کےلیے ایک بہت ہی معقول وجہ کی ضرورت تھی۔ بہر حال میرے ذہن میں ایک ترکیب آگئ۔
میں یونیورسٹی کی لائبریری گیا اور وہاں سے جاپان کی مختلف یونیورسٹیوں کے پتے نکالے۔ میں نے ان یونیورسٹیوں کو لکھا کہ میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کا طالب علم ھوں اور اس شعبے سے دو میگزین نکالتا ھوں۔ میں جاننا چاہتا ھوں کہ جاپان کی برق رفتار ترقی کا راز کیا ھے۔اور جاپانی یونیورسٹیوں کا اس میں کیا کردار ھے۔اس کے لیے میں ایک تحقیقی مقالہ لکھ رہا ھوں جس کے لیے میرا جاپان آنا اور یونیورسٹیوں کا visit کرنا ضروری ھے۔ آپ مجھے جاپان آنے کا دعوت نامہ جاری کیجیے تا کہ میں باآسانی جاپان آ سکوں۔
میں نے ایسے خطوط دس یونیورسٹیوں کو لکھے تھے اور مجھے تقریباً چھ یونیورسٹیوں نے دعوت نامے جاری کر دیے۔
اس کے ساتھ میں نے YMCA کی ممبر شپ لے لی تا کہ اگر رہائش کا مسئلہ ھو تو میں YMCA کے ھوسٹل میں قیام کر سکوں۔
میرے ساتھ میرا یونیورسٹی کا دوست سلیم بھی تھا، وہ بھی جاپان جانے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ میں نے اسے بھی ساتھ لے لیا۔ہم دونوں نے صحافیوں کا روپ دھارا۔ اپنے دوست سلیم کو میں نے کیمرہ مین بنایا۔
میں نے اس سفر کے بارے میں اپنی بڑی بہن کے علاوہ کسی کو بھی نہ بتایا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ گھر کے سب لوگ بہت جذباتی ہیں اور وہ کبھی بھی مجھے بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ گھر والوں کو بتایا کہ میں ایک دوست کی شادی کے سلسلے میں تین دن کے لیے اسلام آباد جا رہا ھوں۔
میں نے صدر کے لنڈا بازار سے کچھ استعمال شدہ کپڑے ، جوتے، بیگ اور کچھ اور ضروری سامان خریدا۔ ہم نے Phillipine Air lines کی ٹکٹ لی تھی۔ جہاز نے جدہ سے آنا تھا اور ہمارا سفر کراچی سے بینکاک اور پھر فلپائن کا دارلحکومت منیلا تھا۔جہاں میرا ایک دوست ناصر Adamson university میں MBA کر رہا تھا۔ منیلا میں ہمارا ایک رات کا stay تھا۔ اگلے دن ہمیں جاپان کے شھر ٹوکیو کے لیے روانہ ھونا تھا۔
میں نے اپنے دوست ناصر کو بتا دیا کہ ہم جاپان جا رہے ہیں اگر ہمیں اگلی فلائیٹ سے deport کر کے واپس بھیج دیا گیا تو تمہارے ساتھ دس پندرہ دن گزاریں گے اور اپنے ٹکٹ کےپیسے پورے کریں گے اور نیو ایئر منیلا ہی میں منائیں گے۔ میں اور سلیم اپنے چند عزیزوں کے ہمراہ صبح چار بجے ایئر پورٹ پہنچے۔ فلپائن ایئر لائن کے اس جھاز نے چار بجے کراچی پہنچنا تھا اور تین گھنٹے کے بعد بنکاک کے لیے اڑان بھرنی تھی۔
اعلان کیا گیا کہ Boarding شروع ھو چکی ھے۔ ہم نے اپنا سامان اٹھایا اور دبے قدموں کے ساتھ جہاز کی طرف چل دیے۔ کچھ دیر بعد ہم جہاز کے اندر موجود تھے۔ جہاز مسافروں سے کھچا کھچ بھرا ھوا تھا۔
مسافروں کی بڑی تعداد فلپائنی عورتوں پر مشتمل تھی۔ یہ ساری وہ خواتین تھیں جو سعودی عرب میں maids کے طور پر کام کرتی تھیں اور کرسمس کی چھٹیاں گزارنے جدہ سے اپنے ملک فلپائن جا رہیں تھیں۔ اس جہاز پر کراچی سے بہت کم مسافر سوار ھوۓ تھے۔ کچھ دیر بعد جہاز کی روانگی کے بارے میں اعلان ھوا۔
تین گھنٹے کراچی ایئر پورٹ پر رکنے کے بعد جہاز اپنی اگلی منزل بنکاک کی طرف روانہ ھو گیا۔
یہ صبح ساڑھے سات بجے کا وقت تھا۔ روزانہ صبح اس وقت میں ہونیورسٹی کے پوائنٹ سے یونیورسٹی روانہ ھوتا تھا۔ آج وقت تو وہی تھا لیکن منزل یونیورسٹی نہیں بلکہ تھائی لینڈ کا شھر بینکاک تھا۔یونیورسٹی اور ایئر پورٹ کے درمیان بہت کم فاصلہ ھے۔ میں کچھ دیر کے لیے یونیورسٹی کی یادوں میں کھو گیا۔ میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ میری تعلیم بہت اچھی چل رہی تھی۔ اور عملی صحافت کرتے ھوۓ مجھے بہت مزا آرہا تھا۔میں نے کراچی یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بار اخبارات جاری کیے تھے۔
میں یونیورسٹی کی یادوں میں گم تھا کہ ایک شور مجھے میری یادوں سے نکال کر واپس جہاز میں لے آیا۔ جہاز پرواز کر چکا تھا اور ایک پاکستانی بھائی ایئر ھوسٹس سے الجھ رہے تھے اور مسلسل شراب کا تقاضہ کر رہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ شراب کے برسوں کے پیاسے تھے۔ اور انہوں نے شراب کے بغیرپاکستان میں بہت مشکل وقت گزارہ تھا۔( جاری ھے)