Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
تعلیم ہر ایک کا بنیادی حق ھے۔ سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ والدین کے پاس اپنے بچوں کو پڑھانے کا واحد راستہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔ اسکولوں کو قطعئ طور پر کاروبار کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ خدمات کے زمرے میں آتے ہیں۔
بہت سے نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کئ نجی تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جن کے مالکان نے تعلیم کو مکمل طور پر کاروبار کا درجہ دے دیا ھے۔ ایسے اسکول مالکان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور وہ کمانے کے نت نۓ طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مالکان کے دراصل دیگر کئ اور کاروبار ہیں اور انھوں نے اپنا کچھ سرمایا تعلیم کے شعبہ میں بھی لگا دیا ھے۔ اور یوں تعلیم کے ان تاجروں نے پورے ملک میں اسکولوں کی chains قائم کر لی ہیں۔
کمائ کے season کا آغاز نۓ تعلیمی سال سے ھوتا ھے۔ Book seller سے ایڈوانس کمیشن لے کر والدین کو اسی Book seller کے پاس بھیجا جاتا ھے۔ وہ والدین سے کتابوں اور کاپیوں کی من مانی قیمت وصول کرتا ھے۔ اس طرح اسکول مالکان اور Book seller مل کر والدین کو لوٹتے ہیں۔
پھر یونیفارم کی باری آتی ھے۔ یونیفارم والا بھی ایڈوانس میں کمیشن دے جاتا ھے۔ اسکول مالکان پھر والدین کو اس مخصوص دکان پر بھیجتے ہیں جہاں سے وہ کمیشن کی رقم پہلے ہی وصول کر چکے ھوتے ہیں۔
اس طرح والدین کو پہلے Book seller لوٹتا ھے اور اس کے بعد Uniform والا چونا لگاتا ھے۔ والدین بےبس ھوتے ہیں۔ والدین 70 والی کاپی 140 میں، 250 والی کتاب 400 میں اور 1500 والا یونیفارم 2500 میں خریدنے پر مجبور ھوتے ہیں۔
تعلیم کے ان تاجروں کی یہ ھوس یہیں ختم نہیں ھوجاتی۔ لائبریری نہیں لیکن لائبریری کی فیس، کمپیوٹر لیب نہیں لیکن اس کی فیس اور اسی طرح بعض مالکان تو دو ہاتھ اور آگے ہیں۔ swimming pool نہیں ھے لیکن اس کی بھی فیس وصول کی جاتی ھے۔
پھر پورا سال activities کے نام پر پیسے بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا ھے۔
ایک طرف والدین کو مسلسل لوٹا جاتا ھے تو دوسری طرف ٹیچرز کو ان کے جائز حق سے محروم کیا جاتا ھے۔ بات بات پر ان کی تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔ اسکول کے علاوہ گھر کے لیے بھی کام تھما دیا جاتا ھے۔
جس تناسب سے بچوں سے فیس لی جاتی ھے اس تناسب سے ٹیچرز کو تنخواہ ادا نہیں کی جاتی۔
نجی تعلیمی ادارے میں ٹیچر کو کسی بھی وقت اسکول سے نکالا جا سکتا ھے۔
ٹیچرز کو بلا وجہ تنگ کیا جاتا ھے۔ کوئ کام ھو یا نہ ھو ان کو اسکول بلایا جاتا ھے۔ ان سے غیر ضروری کام کرواۓ جاتے ہیں جن کا سر ھوتا ھے نہ پیر۔
ٹیچرز کو غلام سمجھا جاتا ھے۔ کوشش کی جاتی ھے کہ ٹیچر Resign کر دے۔اس سلسلے میں senior teachers کو زیادہ تنگ کیا جاتا ھے کیونکہ ان کی تنخواہیں Juniors کے مقابلے میں کافی زیادہ ھوتی ہیں۔ جب سینئر ٹیچر تنگ آکر اسکول چھوڑ جاتا ھے تو اس کے بدلے دو سے تین کم تنخواہوں والے juniors کو appoint کر لیا جاتا ھے۔مشن ایک ھوتا ھے کہ والدین سے کیسے پیسے گھسیٹے جائیں اور ٹیچرز کے پیسے کیسے کاٹے جائیں۔
یعنی کس طرح اخراجات کو کم کر کے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاۓ اور اسکول کی برانچوں کو بڑھایا جاۓ۔
اسکول کی کینٹین میں جو سامان فروخت کیا جاتا ھے اس پر بھی مالکان کمیشن وصول کرتے ہیں۔ 20 والا جوس 30 میں اور 10 والا سموسہ 15 میں فروخت کیا جاتا ھے۔
اس کے بعد van کی باری آتی ھے۔ یہاں بھی van والے سے کمیشن طے ھوتا ھے۔اور van کا ڈرائیور اسکول مالک کو فی بچہ ماہانہ کچھ رقم دیتا ھے۔
یوں یہ لالچی اور بے ضمیر اسکول مالکان والدین کو مسلسل لوٹتے رہتے ہیں۔ اور ان کے اسکولوں کا کاروبار پھلتا پھولتا رہتا ھے۔
ایسے لالچی اسکول مالکان کی وجہ سے وہ مالکان بھی بدنام ھو رہے ہیں جو تعلیم کے پیشےکو کاروبار نہیں عبادت اور خدمت سمجھتے ہیں۔
کیا آپ میرے تجزیے اور مشاہدے سے اتفاق کرتے ہیں؟
کیا آپ کو بھی کہا جاتا ھے کہ فلاں دکان سے کتابیں اور فلاں دکان سے یونیفارم لیجیے۔؟
آپ کو ایسے اسکولوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تا کہ تعلیم کے نام پر ھونے والی تجارت کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
تعلیم ہر ایک کا بنیادی حق ھے۔ سرکاری اسکولوں کی ابتر حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ والدین کے پاس اپنے بچوں کو پڑھانے کا واحد راستہ پرائیویٹ اسکول ہیں۔ اسکولوں کو قطعئ طور پر کاروبار کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ یہ خدمات کے زمرے میں آتے ہیں۔
بہت سے نجی تعلیمی ادارے تعلیم کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں لیکن کئ نجی تعلیمی ادارے ایسے بھی ہیں جن کے مالکان نے تعلیم کو مکمل طور پر کاروبار کا درجہ دے دیا ھے۔ ایسے اسکول مالکان کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور وہ کمانے کے نت نۓ طریقے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایسے مالکان کے دراصل دیگر کئ اور کاروبار ہیں اور انھوں نے اپنا کچھ سرمایا تعلیم کے شعبہ میں بھی لگا دیا ھے۔ اور یوں تعلیم کے ان تاجروں نے پورے ملک میں اسکولوں کی chains قائم کر لی ہیں۔
کمائ کے season کا آغاز نۓ تعلیمی سال سے ھوتا ھے۔ Book seller سے ایڈوانس کمیشن لے کر والدین کو اسی Book seller کے پاس بھیجا جاتا ھے۔ وہ والدین سے کتابوں اور کاپیوں کی من مانی قیمت وصول کرتا ھے۔ اس طرح اسکول مالکان اور Book seller مل کر والدین کو لوٹتے ہیں۔
پھر یونیفارم کی باری آتی ھے۔ یونیفارم والا بھی ایڈوانس میں کمیشن دے جاتا ھے۔ اسکول مالکان پھر والدین کو اس مخصوص دکان پر بھیجتے ہیں جہاں سے وہ کمیشن کی رقم پہلے ہی وصول کر چکے ھوتے ہیں۔
اس طرح والدین کو پہلے Book seller لوٹتا ھے اور اس کے بعد Uniform والا چونا لگاتا ھے۔ والدین بےبس ھوتے ہیں۔ والدین 70 والی کاپی 140 میں، 250 والی کتاب 400 میں اور 1500 والا یونیفارم 2500 میں خریدنے پر مجبور ھوتے ہیں۔
تعلیم کے ان تاجروں کی یہ ھوس یہیں ختم نہیں ھوجاتی۔ لائبریری نہیں لیکن لائبریری کی فیس، کمپیوٹر لیب نہیں لیکن اس کی فیس اور اسی طرح بعض مالکان تو دو ہاتھ اور آگے ہیں۔ swimming pool نہیں ھے لیکن اس کی بھی فیس وصول کی جاتی ھے۔
پھر پورا سال activities کے نام پر پیسے بٹورنے کا سلسلہ جاری رہتا ھے۔
ایک طرف والدین کو مسلسل لوٹا جاتا ھے تو دوسری طرف ٹیچرز کو ان کے جائز حق سے محروم کیا جاتا ھے۔ بات بات پر ان کی تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔ اسکول کے علاوہ گھر کے لیے بھی کام تھما دیا جاتا ھے۔
جس تناسب سے بچوں سے فیس لی جاتی ھے اس تناسب سے ٹیچرز کو تنخواہ ادا نہیں کی جاتی۔
نجی تعلیمی ادارے میں ٹیچر کو کسی بھی وقت اسکول سے نکالا جا سکتا ھے۔
ٹیچرز کو بلا وجہ تنگ کیا جاتا ھے۔ کوئ کام ھو یا نہ ھو ان کو اسکول بلایا جاتا ھے۔ ان سے غیر ضروری کام کرواۓ جاتے ہیں جن کا سر ھوتا ھے نہ پیر۔
ٹیچرز کو غلام سمجھا جاتا ھے۔ کوشش کی جاتی ھے کہ ٹیچر Resign کر دے۔اس سلسلے میں senior teachers کو زیادہ تنگ کیا جاتا ھے کیونکہ ان کی تنخواہیں Juniors کے مقابلے میں کافی زیادہ ھوتی ہیں۔ جب سینئر ٹیچر تنگ آکر اسکول چھوڑ جاتا ھے تو اس کے بدلے دو سے تین کم تنخواہوں والے juniors کو appoint کر لیا جاتا ھے۔مشن ایک ھوتا ھے کہ والدین سے کیسے پیسے گھسیٹے جائیں اور ٹیچرز کے پیسے کیسے کاٹے جائیں۔
یعنی کس طرح اخراجات کو کم کر کے منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جاۓ اور اسکول کی برانچوں کو بڑھایا جاۓ۔
اسکول کی کینٹین میں جو سامان فروخت کیا جاتا ھے اس پر بھی مالکان کمیشن وصول کرتے ہیں۔ 20 والا جوس 30 میں اور 10 والا سموسہ 15 میں فروخت کیا جاتا ھے۔
اس کے بعد van کی باری آتی ھے۔ یہاں بھی van والے سے کمیشن طے ھوتا ھے۔اور van کا ڈرائیور اسکول مالک کو فی بچہ ماہانہ کچھ رقم دیتا ھے۔
یوں یہ لالچی اور بے ضمیر اسکول مالکان والدین کو مسلسل لوٹتے رہتے ہیں۔ اور ان کے اسکولوں کا کاروبار پھلتا پھولتا رہتا ھے۔
ایسے لالچی اسکول مالکان کی وجہ سے وہ مالکان بھی بدنام ھو رہے ہیں جو تعلیم کے پیشےکو کاروبار نہیں عبادت اور خدمت سمجھتے ہیں۔
کیا آپ میرے تجزیے اور مشاہدے سے اتفاق کرتے ہیں؟
کیا آپ کو بھی کہا جاتا ھے کہ فلاں دکان سے کتابیں اور فلاں دکان سے یونیفارم لیجیے۔؟
آپ کو ایسے اسکولوں کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ تا کہ تعلیم کے نام پر ھونے والی تجارت کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔