ایک نئی کہانی شروع ھوئی ھے کہ پرائیویٹ سکول گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک ساتھ دو یا تین ماہ کی فیس مانگتے ھیں ان کو حکم کیا جائے کہ وہ ماھانہ کی بنیاد پر فیس لیں۔ والدین کیلئے مشکل ھوجاتا ھے اتنی فیس اکٹھی دینا، سپریم کورٹ سب سے بڑی عدالت ھے انھوں نے فیصلہ بھی سپریم سنا دیا کہ جناب گرمیوں کی چھٹیوں کی فیس واپس کردی جائے یا نہ لی جائے، اب اس میں مختلف ابہام آنا شروع ھوگئے، اور سکولوں کی علحیدہ ایسوسی ایشن بن گیئں اور والدین کی الگ، اب جناب ایک نئی بحث چھڑ گئی اور سوشل میڈیا بھر گیا۔ اس سے متعلق پوسٹوں سے ۔ بالکل ٹھیک مشورے تھے۔
سکول والوں کو چاھیئے یہ تھا جب بھی چھٹیاں ھوں فورا سارے اساتذہ اور عملے کو نکال دیں، عمارات خالی کردیں، بجلی، گیس کے کنکشن کٹوا دیں۔ جب سکول دوبارہ شروع ھوں تو پھر سے اساتذہ اور عملے کو دوبارہ ملازمت پر رکھیں، نئی عمارات تلاش کریں اس میں بجلی گیس کے کنکشن لگوائیں کھیل کے میدان بنوائیں، کمپیوٹر لیبز اور لائبریری بنوائیں کلاسز کا فرنیچر بنوائیں ، ائیر کنڈیشنر لگوائیں ھیٹر لگوائیں، باقی سازو سامان پورا کرکے سیکورٹی ھائیر کریں اور سکول کھول دیں، ابھی کرونا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ھیں بغیر کسی اطلاع کے ھنگامی طور پر انکو بند کردیا گیا اور کچھ عقل عظیم رکھنے والے لوگ لکھ رھے ھیں کہ کس بات کی فیس، کوئی فیس ادا نہ کرے، میں رفاہ یونیورسٹی کا طالبعلم ھوں کچھ طلباء نے گروپس میں لکھا یونیورسٹی کو فیس کم کرنی چاھیئے یا واپس کر دینی چاھیئے۔
میں بطور استاد دو یونیورسٹیوں میں پڑھاتا ھوں آن لائن کلاسز ھوتی ھیں اسائنمنٹ ھوتی ھیں سب طلباء ریگولر آن لائن کلاسز لے رھے ھیں، اور ھر مہینے پہلی تاریخ کو ھمارے اکاونٹ میں یونیورسٹی اتنے ھی پیسے بھیجتی ھے جتنے کہ ھم وھاں جا کر پڑھانے کے لیتے تھے۔ یونیورسٹیوں، کالجز اور سکول کی عمارات خالی پڑی ھیں، سب وسائل وھاں پر طلبہ کے انتظار میں ھیں، میری ایک بیٹی نیشنل کالج آف آرٹس راولپنڈی کی طالبہ ھے۔ پہلے کی طرح صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کلاسز ھوتی ھیں اور اسائنمنٹس بلکل ویسے ھی ھیں جیسے کالج میں دیتے ھیں، اس سے چھوٹی دو بیٹیاں پنجاب کالج کی طالبہ ھیں انکی روزانہ کی بنیاد پر آن لائن کلاسز ھوتی ھیں اور صبح وقت پر اٹھ کر وہ کلاسز اٹینڈ کرتی ھیں، سکول کے بچوں کو ھوم ورک اور اسائنمنٹس آن لائن روزانہ کی بنیاد پر فراھم کی جاتی ھیں جب یہ سب سروسز جاری ھیں تو فیس نہ دینے کی وجہ بیان کردیں۔
سب ادارے جو کرونا کی وجہ سے بند ھیں یا اس کے باجود کھلے ھیں وقت پر سارا نظام چلا رھے ھیں، تنخواھیں ادا کر رھے ھیں۔ تمام سرکاری سکولوں کی کتب اور تعلیم مفت ھے کاپیاں اور یونیفارم خریدنا پڑتی ھیں، پرائیویٹ سکول میں جب بھی آپ بچہ داخل کرواتے ھیں تو اس سکول کی پڑھائی کے مکمل اخراجات ترتیب دیتے ھیں کتنے اخراجات ھوں گے، فیس، کتب، ٹرانسپورٹ وہ آپ کو سمجھ آتے ھیں تو بچہ داخل کرواتے ھیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام وائس پریزیڈنٹ اور ڈین ھیں اقراء یونیورسٹی اسلام آباد کے بڑے بھائیوں کی طرح ھیں ایک دن ایک بچی رو رھی تھی کہ میرے پاس فیس نہیں ھے اور یونیورسٹی ڈسکاونٹ نہیں دے رھی مجھے بڑا ترس آیا اور ڈاکٹر صاحب پاس اسکی درخواست لیکر چلا گیا، ڈاکٹر صاحب نے درخواست پڑھی اور مسکرائے کہنے لگے اظہر بھائی ھم مستحق بچوں کو ڈسکاونٹ بھی دیتے ھیں اور سکالرشپ بھی لیکن یہ کیس دوسرا ھے، اچھا آپ کی کتنی بیٹیاں سکول جاتی ھیں جی تین کہاں جاتی ھیں، آرمی پبلک سکول، جب داخل کروایا معلومات لیں تھیں کہ کتنی فیس ھے اور کیا میں افورڈ کرتا ھوں کہ یہ یہاں پڑھیں جی ڈاکٹر صاحب ، تو آپ کے خیال میں جب اس بچی کو والدین نے داخل کروایا ھوگا کیا کوئی حساب کتاب نہیں لگایا ھوگا، جی ضرور لگایا ھوگا، کہنے لگے آپ ایک سادہ دل انسان ھیں، انکی باتوں پر توجہ نہ دیں۔ میرے پاس روز ایسے کیس آتے ھیں اکثر بچے گھر سے پیسے لیکر پارٹی کر لیتے ھیں جب امتحان کے دن آتے ھیں ھم نوٹس لگاتے ھیں کہ بغیر فیس ادا کیئے آپ امتحان نہیں دے سکتے تو یہ آپ جیسے اساتذہ کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ھیں۔
میرے علم میں یہ نئی بات تھی، میں نے جب کچھ بچوں سے معلومات لی تو ڈاکٹر صاحب کی بات سچ تھی۔ اور مجھے اپنی سادگی اور بیوقوفی کا احساس ھوا۔
مجھے سب دوستوں کی مشکل کا احساس ھے۔ میری چوتھی بیٹی الحمدللہ سرکاری سکول میں پڑھتی ھے تمام کتب سکول سے مل چکی ھیں، ھوم ورک بھی مل چکا ھے روزانہ کی بنیاد پر گائیڈ لائنز بھی سکول والے دے رھے ھیں، وہ کام بھی کر رھی ھے، بچوں کے وین والوں کو ھم ھر مہینے فیس ادا کرتے ھیں ۔ کیونکہ وہ کہاں جائیں جن کا روزگار اس سے وابستہ ھے ھم کہیں جی بچے نہیں جارھے تو وہ وین ھی بیچ سکتا ھے اور کوئی ذریعہ ھی نہیں ھے اسکے پاس۔
جب آپکے علم میں ھے کہ پرائیویٹ سکول، کالج، یونیوسٹیاں ایک انڈسٹری کا درجہ حاصل کرچکی ھیں تو پھر فیسوں، کتابوں، کاپیوں کی قیمتوں کا رونا کیسا اگر فیس آپ کے بس سے باھر ھے تو دفع کیجئے اور سرکاری سکول میں داخل کروایئے وہ بھی اتنے ھی اچھے سکول ھیں جتنے کہ پرائیویٹ ادارے۔ اور جب ھم سب اپنے بچے سرکاری سکولوں میں دا،خل کروائیں گے تو انشاءاللہ ھماری اور سکول کی مشترکہ کوششوں سے ھم انکو مزید بہتر کر سکتے ھیں۔
بزنس کلاس اور اکانومی کلاس کے ٹکٹ کی قیمت میں بہت فرق ھوتا ھے۔ بزنس کلاس کا ٹکٹ لیکر مہنگائی پر بات کرنا مناسب نہیں لگتا، چائے خانہ پانچ سو کی چائے دیتا ھے اور ڈھابے والا چالیس روپے کی جو آپ کے بجٹ میں آتا ھے وھاں جایئے چائے خانہ کے ماحول میں بیٹھ کر مہنگائی کا رونا مت روئیں۔ بلکہ اپنے سوچنے کے انداز کو بہتر کریں۔ شکریہ