دانش مندی کے ساتھ رزق و روزی روٹی میں بھی یقنی طور پر اضافہ ہوجاتا ہے لمحہ موجود میں مادی ترقی و پیشرفت ہوئی ہے اس لئے خوشحالی اور ترقی میں نمایاں اضافے نے ہر فرد مرد و عورت اور بچے و بوڑھے کی مجموعی کمائی و دانش مندی میں اضافے ہی کئے ہیں اگرچہ سیاسی و سماجی شعور کی ناپختگی اور عدل و انصاف کے مستحکم نظام زندگی و سماجیات نہ ہونے کے باعث معاشرتی ترقی و خوشحالی کے ثمرات اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تکمیل میں ابھی انسانوں نے محنت شاقہ کرنی ہے، لیکن لمحہ موجود میں انسانی شخصیت کے ارتقاء و تعمیر ذات مبارکہ کے لئے ماضی و حال کے موازنے سے ہی سمجھداری ممکن ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
آئیے دو مثالیں پیش کرتے ہیں چلتے ہیں پندرہ سو سال پیچھے کی طرف جہاں مکہ و مدینہ میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر مبارکہ کا موازنہ و تجزیہ آج پندرہویں صدی ہجری یعنی اکیسویں صدی عیسوی سے کرتے ہیں اپنے سمجھداری اور آئیڈیالوجی کلیئر قرار دینے کے لئے، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کتابیں راہنمائی دیتے ہیں کہ سیدی اعلی حضرت رحمتہ اللہ علیہ سیدۃ النساءفاطمہ رضی اللہ تعالی کے بارے میں فرماتے ہیں:
,,نور بنت نور زوج نور ام نور و نور،،
اہل بیت میں ہر فرد خصوصی اہمیت و کردار کا حامل ہے لیکن سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور نہایت اعلی اخلاق و پاکیزگی کی مثال ہیں۔3 رمضان المبارک سیدہ کا یوم وصال ہے۔آپ کا رتبہ نہایت اعلی ہے ایک روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ کو بتایا کہ میرے پیٹ میں درد ہے کیونکہ میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔تو سیدہ نے جواب میں فرمایا:یا رسول اللہ میں نے سات دن سے کچھ نہیں کھایا کیونکہ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے اور فرمایا:
یا فاطمہ،میری آنکھوں میں آنسو ہیں کیونکہ اللہ نے مجھے تم عطا کی ہو جو کوئی شکوہ زبان پر نہیں لاتی۔اگر میں اللہ سے کہوں تو وہ آسمان سے میرے لیئے خوان بھیجے لیکن اس رب کی محبت میں ،میں یہ ترجیح دیتا ہوں کہ بھوکا رہوں اور جنت میں بھوکا داخل ہوں۔سیدہ فاطمہ رض نے پھر جواب دیا:میں بھی آپ کی طرح ہوں اور میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتی ہوں۔( یعنی مقصد حیات کے لئے بھوک کی برداشت ضرورت ہے)
یہ بھی دیکھئے:
پانچواں پارہ: فرضیت حج، امتناع فرقہ داریت، تعدد ازدواج، قانون وراثت
ڈپلومیٹک کیبل: حساس سفارتی مراسلے کیسے لکھے اور بھیجے جاتے ہیں؟
آئین شکنی یا شخصی آمریت: ہم کس کے ساتھ ہیں؟
آج ہمارے گھر ہرطرح کے کھانے سے بھرے ہونے کے باوجود شکایات کا ایک دفتر ہماری زبانوں پر جاری رہتا ہے۔اس رمضان المبارک کی نسبت سے ہمارے اہداف کا اہم جزو شکر کی صورت میں بھی موجود ہونا چاہیے۔ رمضان المبارک میں تاریخ کے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں غزوہ بدر اور فتح مکہ بھی شامل ہیں۔ہر واقعہ خصوصی اہمیت اور الگ اسباق لے کر آتا ہے۔رمضان کے تناظر میں اپنا محاسبہ کر کے ہم ایک متوازن شخصیت کی تخلیق و تعمیر کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ہمیں معاشرتی و سماجی اور حکومتی و معاشی سطح پر رمضان المبارک کو پریکٹیکل بنانے کی طرف خصوصی توجہ و اہتمام پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقیات پر فوکس کرنے کے ساتھ معاملات زندگی اور سماجی و معاشرتی رویوں کی تشکیل و تکمیل کے لئے اجتماعی خود شعوری پیدا کرنے کی کوشش شروع کرنا چاہیے۔ لمحہ موجود میں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں کہ ان تمام معاملات کو موَثر تبھی بنا سکتے ہیں جب ہم اپنے لائف سٹائل سے ڈسٹریکشنز کو کم کریں گے۔
ہر وہ چیز ڈسٹریکشن ہے جو ہماری توجہ ہمارے مقصد سے ہٹا دے۔غیر ضروری طور پر زیادہ کھانوں کا تیار کرنا اور اکٹھا کرنا بھی ڈسٹریکشن ہے جو روزے کی اصل روح سے دور کرنے والا فعل ہے اسی طرح غیر ضروری طور پر سوشل میڈیا کا استعمال بھی ڈسٹریکشن ہے۔
ایک اور عادت جو نوجوان طبقے میں اکثر موجود ہے وہ ہے رات کو ٹی وی دیکھتے ہوئے جاگنا، غیر ضروری مجالس کے انعقاد میں دلچسپی اور دن کو سونا تاکہ روزہ نہ لگے، اگر روزہ نہ لگنے والی اپروچ اختیار کیا جاتا ہے تو پھر روزے کی معنویت اور مقصدیت کا احیاء و تجدید کیسے ممکن ہے، یہ تمام باتیں ان احساسات سے دور کرنے والی ہیں جو روزے کی نسبت سے جگانا اور
پھر اس کے اوپر خوبصورت محل و دانش مندی کی آرزو مندی مقصود ہیں۔
ایک اور بات جو بہت عام ہے وہ ہے کسی بھی کام کے کرنے میں تساہل سے کام لینا، کیونکہ میرا روزہ ہے، ایک بڑی نامعقول بات ہے۔مسلمانوں نے روزوں میں جنگیں بھی لڑی ہیں تو اپنی پیشہ ورانہ اور دیگر ذمہ داریوں کو ان ایام میں زیادہ توجہ کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ روزہ ہمیں اپنے کاموں کی انجام دہی سے بلکل نہیں روکتا۔بلکہ احساس ذمہ داری اور پروفیشنل ڈیولپمنٹ میں جوہری تبدیلیاں رونما کرتے ہوئے طبیعت و مزاج میں توانائی و فکری دانش مندی بھرر دیتا ہے
خدا ہماری نیتوں میں خلوص اور عمل میں برکتیں عطا فرمائے،اور ہمیں معاشرتی ترقی و خوشحالی کے لئے زندہ کردار ادا کرنے کی ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے، رب العالمین آسانی سے ہمیں اکسیویں صدی کے معروف ضروریات کے تعین میں احتیاط برتنے اور سمجھ داری کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت عطاء فرمائیں رب العالمین ہمارا اور آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔