زندگی رواں دواں تھی مگر خوف و دہشت اور ظلم و استہزاء ناانصافی و فکری نصب العین سے دوری انسانیت کے لئے مسائل پیدا کررہی تھی مکہ مکرمہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مقدور بھر کوششیں کی کہ معاشرہ سنبھلنے کا نام لے اور اعتماد و اعتبار کا نظام انصاف قائم ہوسکے مگر جہالت و خود غرضیوں کی مجموعی فضاء میں یہ پاکیزگی اور انسانوں کے لئے نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے کا راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ، تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے الہامی راہنمائی اور اپنی قیمتی بصیرت و دانش مندی کی روشنی و راہنمائی میں حکمت و جستجو برابر جاری رکھی یہاں تک کہ خدائے واحد و مہربان نے انسانیت کی رہبری و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے نئے راستے” ہجرت” کا انتخاب کیا جسے سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام کی لازوال داستان میں بنیادی تبدیلی اور ہجرت مبارکہ بھی کہا جاتا ہے.
یہودیت و عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد و نظریات کے لئے متفقہ رہبری میں نمایاں و معتبر نام قرآن کریم کی سب سے پسندیدہ شخصیت جناب سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی کے مطابق لق و دق صحرا مکہ مکرمہ میں اپنے آبائی علاقے سے زوجہ محترمہ حضرت حاجرہ علیہ السلام کے ساتھ ہجرت فرمائی اور آج بھی تاریخ ان بے مثال قربانیوں کا ثمر مبارک پانے کے لئے نئے سرے سے آمادہ و تیار ہوتی نظر آتی ہیں 21 ویں صدی کے اوائل میں نوآبادیاتی دور کے مسائل اور ذھنیت Statusquo سے نکلنے کے لئے بلاشبہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی الہامی راہنمائی و روشنی کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے ہجرتوں کے درمیان مشترکات و فکری مماثلتیں کیا ہیں سیدنا حضرت ابرہیم علیہ السلام و بی بی حاجرہ علیہ السلام کے لازوال کردار اور ہجرت مبارکہ کے بعد انسانی تاریخ مکہ مکرمہ کی سرزمین پر جناب سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی انقلابی اور رومانوی تحریک میں ہجرت مدینہ نے ایک نیا دروازہ ہجرت و برکات کا کھول دیا۔
نئی دنیا بسانے کے لیے نئے امتحانات سے بھی گزرنا پڑتا ہے اور ہجرت مدینہ اسی خاندان ابراہیمی کی ہجرت کی طرح بڑا کٹھن اور صبر آزما مرحلہ تھا ۔ہجرت کا مقصد ان بنیادی ستونوں کی تعمیر تھی جو ایک نئے نظام کی داغ بیل ڈالے بنا ممکن نہ تھا ۔اس نئے نظام کے نئے باسیوں کو وہ تربیت دینا بھی مقصود تھا کہ اس میں رہنے کے قابل بھی ہو سکیں۔ اور انسانیت کی رہبری و دانش مندی کا عالمی فریضہ انجام دینے کے قابل ہو سکیں۔ جبر و استبداد کی سرزمین سے وباووں کی سرزمین کی طرف،معلوم سے نامعلوم کی طرف،اہل و عیال سے اجنبیوں کی طرف اور مال و دولت سے بے سروسامانی کے خوف کی طرف یہ سفر انسانیت کو توکل،صبر اور شکر گزاری کے وہ پیکر عطا کرتا ہے جو انسانی معاشرے کی معراج بنتے ہیں ۔اس نبی آخر الزمان کی برکت سے یثرب مدینہ منورہ بن کر چہار دانگ عالم میں اپنے نور کی شمعیں روشن کرتا ہے اور پھر مشکلات کا سفر آسانی کی طرف طے ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ہجرت مدینہ دنیا کے افق پر ایک نئی صبح کا ظہور ہے جس کے ثمرات رہتی دنیا تک قائم و دائم رہیں گے ۔ اور اسی نئی صبح سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سال نو کا آغاز کیا اور ایک نئے سماجی اور ثقافتی ورثے کا آغاز بھی فرمایا۔ ہجرت مبارکہ اسلامی تاریخی کردار کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے 1442 سالوں سے مسلسل جاری ہیں اور آج 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی و سماجی افراتفری کے عالم میں روحانی و اخلاقی اطمینان و سکون کے لئے تہذیب و تمدن اور علوم و فنون کو فعال و متحرک کرنے کے نئے نظریاتی و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعبیر نو کی ضرورت ہے جسے ہجرت مبارکہ کے مبارک موقع اور نئے ہجری سال کے آغاز و اختتام پر موضوع بحث و نظر بننا چاہئے۔ یکم محرم الحرام کے دن جہاں نئے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے اور مسلم معاشروں میں الہامی راہنمائی و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے جذبات و احساسات اور ارمانوں و آرزوؤں کے ساتھ مثبت و ثمر بار منصوبے تشکیل دینے چاہییں وہی یکم محرم الحرام خلیفہ دوئم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی المناک شہادت کی یاد دلاتی ہے جناب سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نئے پیراڈایم میں بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق زندگی کی تشکیل و تعبیر نو کے متعلق ضرور لکھنا چاہیے ہماری بدقسمتی دیکھنے کی قابل اور قابل گرفت ہیں کہ ہم نے گزرے صدیوں میں امت کے پاکیزہ افکار و نفوسِ قدسیہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مسلکوں کے بریکٹ میں بند کر کے ان کے عالمی وژن و فکری لہروں کے اثرات مرتب کرنے سے جان بوجھ کر انسانیت کو محروم رکھا گیا ۔
خدا کا شکر ہے کہ مسلم معاشروں کی مجموعی ترقی و پیشرفت اور مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں ہمارے پاس وہ بنیادیں موجود ہیں جن پر اسلام نے ایک بار پھر ایک عالمی طاقت بننا ہے اور آزادی کے ساتھ دنیا کے مذاہب کو اپنی اصلی جھلک دکھانی ہے۔تاکہ تمام دنیا عالم اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو سکے۔اور عالم انسانیت کی رہبری و دانش مندی کا جو فریضہ انجام دینا اسلامی و الہامی راہنمائی و روشنی کے ذمے داری ہے اس پورا کیا جاسکے مطالعہ قرآن کی نئی جہتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے اور شعور نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی و روشنی میں تحقیق و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی نئی دنیا آباد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور انسانی ذہانت و قابلیت اور استعداد و توان ضائع ہو جاتا ہے فی الوقت کرونا وائرس اور سائنسی و فکری تباہ کاریوں سے انسانیت کراہ رہی ہیں ہجرت مدینہ منورہ کی الہامی راہنمائی کی تشکیل و تعبیر نو کی طرح انسانی ذہانت و فطانت اور قوت و توانائی کو گناہوں سے توبتہ النصوح یعنی پاکیزہ و خوبصورت ترین مقدمے کا فیصلہ نیکیوں کے وسیع تر مفہوم و دانش مندی سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے نئی دینا تشکیل و تعمیر کرنے کی ضرورت ہے یہی زندگی میں اطمینان و سکون اور خوشی و مسرت کا اظہار ہے کہ انسان و دانش اور نظام زندگی و سماجیات شعوری ارتقاء کی طرف گامزن ہو کر علمی و فکری اور نظریاتی و سائنسی ہجرت مبارکہ کا انعقاد کرسکیں اور انسانوں کے لئے نئے عمرانی ارتقاء و فکری مکالمے کی کاوشیں اطمینان و راحت کا پیغام دینے کے قابل ہو سکیں ورنہ نیو ورلڈ آرڈر اور عالمی استعماری طاقتوں کے بدولت معاشرے اور افکار خوبصورت و معنی خیز بننے کے بجائے مکروہ عزائم اور انسانیت کش پالیسیوں کے بدولت خرابی و آبرو مندی کے ضیاع کی طرف مسلسل عروج و دانش مندی کی بجائے اجتماعی بدبختی اور زوال کی طرف گامزن ہے جسے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ھجری سال نو اور یکم محرم الحرام خلیفہ دوئم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاکیزہ افکار و تصورات کی فریم ورک میں ترقیاتی اپروچ اختیار کرنے اور نئے زمانے کے بدلتے رجحانات اور تحقیقات سے استفادے کے نظام انصاف و ترقی کے میکنزم تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث و فیصلوں کے ذریعے انسانیت کے تصورات اور زندہ سوالات کو ایڈریس کرنے اور اطمینان و سکون کی راہ ہموار کی جاسکے۔