مان نہ مان میں تیرا مہمان کے مصداق آج کل کراچی میں مکھیاں ایسے ابلی پڑی ہیں جیسے کراچی کی گلیوں میں سارا سال بغیر ڈھکن کے گٹر ابلتے ہیں- اب جب اتنا سب کچھ ابلے گا تو ان مکھیوں سے بے زار کراچی کے شہریوں کا فشارِ خون ابلنے کی دوڑ میں کیسے پیچھے رہ سکتا ہے؟ لہٰذا آج کل یہ سب دیکھ کر وہ بھی خوب شدت سے ابل رہا ہے-
کراچی میں ذمہ دار اداروں کی ماضی کی کارکردگی کو مدنظر رکھا جائے تو دل کے پھپھولے پھوڑنے اور شکایات کا انبار لگانے کے باوجود بھی راقم الحروف کو یقین ہے کہ شہرِ قائد کی صفائی کے ذمہ داران اور میونسپلٹی افسران کے کانوں پر شاید ہی کوئی جُوں رینگے کہ میونسپلٹی کے اکثر اعلیٰ افسران گرمی کے موسم میں “دن دہاڑے” اپنے سروں پر چاند چمکا کر بیٹھے ہوتے ہیں کہ نہ رہے گی “جُوں” اور نہ کھجائیں گے چَندیا-
مہنگائی کے اس پر آشوب دور میں ہماری تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ سودے سلف کی خریداری ہمیں نہ کرنی پڑے کہ ہمارا دلِ ناتواں اتنا سا بھی مضبوط نہیں کہ اشیائے خوردونوش کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کا جھٹکا برداشت کر پائے لیکن کل شام چہل قدمی کرتے ہوئے ہمیں اس وقت حیرت کا شدید جھٹکا لگا جب ہم نے سڑک کنارے کھڑے پھل فروش سے پوچھا…
ہاں بھئی یہ شہتوت کیا حساب دیے ہیں؟
پھل والے چچا میاں نے اک شانِ تغافل سے اپنے سامنے پڑا کپڑا اٹھایا اور ٹھیلے پر سجے پھلوں پر مار کر ان پر شانِ بے نیازی سے براجمان مکھیوں کو اُڑایا اور کہا…
ارے باجی یہ تو انگور ہیں… شہتوت اس سیزن میں کہاں-
یقین جانیں اپنی ناقص علمی پر ہمیں عملی طور پر شاید ہی کبھی اتنی شرمندگی ہوئی ہوگی جتنی اس وقت ہوئی اور یکلخت منظر بدل جانے کا یہ منظر دیکھ کر ہماری آنکھیں حیرانی سے بالکل اسی طرح پھیل گئی تھیں جیسے شدید بوریت میں ٹی وی چینلز آگے پیچھے کرتے ہوئے اچانک کسی پشتو فلم کا رقص سامنے آ جانے پر پھیل جاتی ہیں-
بہرحال اس صورتحال پر کچھ دیر اچھی طرح جھینپنے کے بعد ہم نے اپنے پرس سے نظر کی عینک نکال کر ٹشو پیپر سے بڑی نفاست سے کوئی چار دفعہ اچھی طرح صاف کر کے واپس پرس میں ڈال لی کہ سب کچھ صاف صاف دکھنے پر پھر لکھنے کا کام بھی تو بڑھ جائے گا اور بے چارے پڑھنے والوں کی شامت آ جائے گی- تو بس اس مکھی پلس لاک ڈاؤن سیزن میں جو دکھ رہا ہے وہ بِک رہا ہے اورجتنا دکھ رہا ہے، اتنا ہی بِک رہا ہے-
کراچی میں بن برسی برسات کے اس موسم میں اس وقت مکھیوں کی صورت حال کچھ اس طرح کی ہو چکی ہے کہ یہاں جنبشِ لب بڑی مہنگی پڑ سکتی ہے- اس لیے منہ بند رکھنے میں ہی عافیت ہے بھلے آنکھیں کچھ بھی دیکھتی رہیں-
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال کی یہ محفل اتنی وسعت اختیار کر چکی ہے کہ آج اس محفل میں پورا شہرِ قائد ہی سمٹ آیا ہے- اس مکھی سیزن میں آپ اپنا منہ بند رکھ کر کسی بھی جگہ واک تو کر سکتے ہیں مگر ٹاک نہیں کر سکتے کہ منہ کھولنے پر مکھیوں کی فوج ظفرِ موج ایسے حملہ آور ہو جاتی ہے جیسے شادی ہال میں کھانا کھلنے پر باراتی-
ویسے مکھیاں بھی بڑی سیاسی ہوتی ہیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نکلتی ہیں- ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ مہنگائی کے خلاف عوام کا احتجاج دیکھ کر، حکمرانوں نے کمال ہوشیاری سے عوام کا منہ بند رکھنے کے لیے ان مکھیوں کی فوج کا استعمال کیا ہے- واضح رہے کہ عوام کے ہاتھ تو پہلے سے ہی کورونا کے بعد سے بڑھتی بیروزگاری کی وجہ سے مکھیاں اڑانے میں مصروف تھے-
ویسے ابھی یہ بھی طے کرنا باقی ہے کہ مکھیاں زیادہ ڈھیٹ ہوتی ہیں یا سیاست دان، کیوں کہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے- کئی بار اُڑانے کے باوجود بھی اَڑ کر واپس آ کر وہیں بیٹھ جاتے ہیں جہاں سے اُڑے تھے کبھی-
مکھیاں اپنی افزائشِ نسل بہت تیزی سے کرتی ہیں ہمیں حیرت ہے کہ بہبود آبادی والوں کی نظروں سے اب تک کیسے اوجھل ہیں ورنہ ہیلتھ ورکرز گندے پانی کے جوہڑوں اور کچرا کنڈیوں کے سامنے بھی “بچے دو ہی اچھے” کے پمفلٹ پھینک آتے- ویسے کراچی میں کچرا دیکھنے کے لیے آپ کو کچرا کنڈی تک جانے کی زحمت نہیں کرنا پڑے گی کیونکہ ہم شہری اپنی کچرا کنڈیوں کو بالکل صاف رکھنے پر یقین رکھتے ہیں لہذا یہاں کچرا کنڈی کے سوا ہر جگہ کچرا پھیلا ہوا نظر آتا ہے- مگر کیوں کہ یہ کچرا میونسپلٹی والوں کو نظر نہیں آتا اس لیے اٹھایا بھی نہیں جاتا کیونکہ میونسپلٹی کے ملازمین امیر مینائی کے اس شعر پر عمل پیرا رہتے ہیں کہ……..
گاہے گاہے کی ملاقات ہی اچھی ہے امیرؔ
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
ان مکھیوں نے ساس بہو تعلقات کو بھی نہیں بخشا- ہماری اک پڑوسن ہیں جو اپنی بہو کی سست طبیعت سے ہر وقت نالاں نظر آتی ہیں، ان مکھیوں سے تنگ آ کر کل اپنی بہو سے طنزیہ لہجے میں کہنے لگیں کہ…
اے بہو!!! ویسے تو یہ عمر پیسے جمع کر کے گھر والوں پر اُڑانے کی تھی لیکن تمہارے بچے ابھی تک مکھیاں اُڑا رہے ہیں-
اب شادی سے پہلے ہواؤں میں اڑنے کا خواب دیکھنے والی بہو بیگم یہ سن کر اندر ہی اندر بھرپور تلملائیں مگر وہ بھی اپنی ساس کی ہی تربیت یافتہ تھیں- ہمیشہ کی طرح کمالِ لاپرواہی سے ساس کی اس بات کو “بھی” مکھیوں کے ساتھ ہی چٹکیوں میں اڑا دیا اور پھر مسکراتے ہوئے ساس کے ہاتھوں میں مکھیاں اڑانے کے لیے ایک عدد کپڑا پکڑایا اور کہنے لگیں….
وہ تو سب ٹھیک ہے امی جان…. مگر مکھیاں اپنی اپنی!!!