پارلیمانی نظام کی تنقیص کے بعد جنرل صاحب نے کسی متبادل نظام کی طرف واضح اشارہ تو نہیں کیا لیکن بعد کے صفحات میں وہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے فوائد اور اس سے متعلقہ معاملات کو جس طرح زیر بحث لائے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا جھکا ؤصدارتی نظام کی طرف ہے۔
جنرل صاحب نے اپنی یاداشتوں کئی انکشاف بھی کیے ہیں۔ ایک انکشاف یہ ہے کہ 2008 ء کے انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو امریکی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی
‘ان کی اردو سن کر لطف آ جاتا ہے’۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکہ ابھی نہیں کیا تھا لیکن ماحول ہیجان سے بھر چکا تھا۔ صبح و شام اتنی باتیں سننے کو ملتیں کہ اُن قومی مقاصد پر بھی شکوک وشبہات کی دھول جمنے لگتی جن کا تعین ہمارے بزرگوں نے نہایت دانش مندی کے ساتھ سوچ سمجھ کیا اور جو ہر کڑی آزمائش میں وقت کی ہر میزان پر پورے اترے۔ بس یہی سبب تھا کہ کراچی سے میں نے اڑان بھری اور اسلام آباد آن پہنچا۔ برادر محترم و معظم کرنل اشفاق حسین نے مشورہ دیا تھا کہ اپنے موضوع پر پرکھ پرتیت کرتے ہوئے کچھ وقت جنرل اسلم بیگ کے لیے بھی نکال لینا، ممکن ہے کہ معاملے کا کوئی نیا زاویہ تمھاری سمجھ میں آ جائے۔
ہم لوگ جنرل صاحب کے ہاں پہنچے۔ میرے ساتھ آصف فاروقی بھی تھے۔ ہمیں جنرل صاحب کے دفتر میں بٹھایا گیا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی کسی جرنیل کا دفتر تو نہیں دیکھا تھا لیکن جنرل صاحب کا دفتر دیکھ کر سمجھ میں آ گیا کہ ریٹائرمنٹ سے قبل ایسے بزرگوں کے دفاتر کیسے ہوا کرتے ہوں گے۔ سلیقے سے جمائے گئے فائل اور بڑی سی میز کی عظمت نے بھی مجھے متاثر کیا لیکن جنرل صاحب کو روزانہ کی مصروفیات کی یاد دہانی کے لیے کیے گئے انتظام نے مجھے زیادہ مرعوب کیا۔ یہ کسی قیمتی دھات کا شاندار ناک نقشے والا ایک بھاری بھرکم فریم تھا جس میں جڑے شیشے کے پیچھے ان کی مصروفیات کی فہرست وقت کے تعین کے ساتھ جگمگا رہی تھی۔ جانے کیا وجہ رہی ہوگی کہ میری یاداشت میں اس فریم نے مستقل جگہ حاصل کرلی۔ کئی برس کے بعد جب مجھے صدر مملکت ممنون حسین کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو اسی قسم کا فریم میں نے ان کے دفتر میں بھی دیکھا لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی، مرزا صاحب کے دفتر میں دھرے فریم کی بات ہی کچھ اور تھی۔ اُن دنوں دن بھر کی مصروفیات سے آگاہ رکھنے والا ایک فریم میرے دفتر میں بھی تھا جسے دیکھ کر اس فاصلے کا اندازہ ہو جاتا تھا جو ہمارے ہاں عوام وخواص میں پایا جاتا ہے۔
عوام کے لیے بنائے گئے فریم میں پلاسٹک کی دو شفاف شیٹیں کسی کیمیکل ایجنٹ سے جوڑ کر اس کی پشت پر اسی شیٹ کا سہارا دے دیا جاتا ہے جس کی مدد سے یہ میز پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ میز کو اس کی بے ڈھنگی صورت سے محفوظ رکھنے کے لیے عام طور کسی ایسی جگہ رکھا جاتا ہے جہاں کم از کم مہمانوں کی نگاہ اس پر نہ پڑے۔خیر اُس روز میں نے پاکستان کے دفاعی معاملات، خاص طور پر ایٹمی دھماکے ضرورت پر انٹرویو کے علاوہ کچھ دیگر موضوعات پر بھی گپ شپ کی۔ یہ ‘غیر نصابی’ بات چیت ظہرانے پر ہوئی جس میںسادہ دال چپاتی اور خشکا(چاول) شامل تھا۔ اس دعوت شیراز کے لیے جنرل صاحب نے بڑی محبت اور بزرگانہ جبر کے ساتھ ہمیں روک لیا۔ انٹرویو اور بے تکلف گپ شپ کے بعد ہم باہر نکلے تو آصف پوچھنے لگے کہ کیسا لگا ؟ میرا بے ساختہ جواب یہی تھا کہ ان کی اردو سن کر لطف آ گیا، میرا جواب دو حصوں پر مشتمل تھا لیکن جواب کے دوسرے حصے کو الفاظ کا قالب دینے کے لیے تھوڑی محنت کرنی پڑی۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے کچھ ایسی بات کہی تھی کہ وہ گنگ و جمن کے پانیوں میں نکھری ہوئی زبان میں بڑی رسانی کے ساتھ ایسی سخت باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جنھیں زبان پر لانے کے لیے عام آدمی کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ میرا اشارہ ان کے ایک انکشاف کی طرف تھا۔ کھانے کے دوران میں جب اِدھر ادھر کی باتوں کا دور شروع ہوا تو انھوں نے ایک بزرگ کے لیے بہت بڑی بات کہہ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نیک نام بزرگ ایک ایسی ایجنسی کے لیے کام کیا کرتے تھے جسے جہاد افغانستان منصوبہ بندی اور نوک پلک سنوارنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایسی معلومات یقینا ان کے پاس پہنچ جایا کرتی ہوں، ہم اختلاف کی جرات کیسے کر سکتے تھے؟
آج اتنے زمانے گزرنے کے بعد کرنل اشفاق حسین کی مہربانی سے جنرل مرزا اسلم بیگ کی یاداشتیں میرے ہاتھ میں آئی ہیں تو میرے احساسات کی نوعیت ایک بار پھر ویسی ہی ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے ٹھنڈے میٹھے لہجے میں بہت سی ایسی باتیں اہل وطن تک پہنچا دی ہیں جن کے خیال سے ہی ہمارے سیاسی ماحول میں بے چینی کی بلند و بالا لہریں اٹھنے لگتی ہیں۔پاکستانی سیاست میں استحکام کیوں پیدا نہیں ہوپاتا؟ اس سوال کا آسان نہیں۔ اس کے پس پشت بہت سے تاریخی عوامل اور سیاسی مضمرات موجود ہیں جن کے ذکر کے لیے دفتر کے دفتر لکھے جاسکتے ہیں لیکن بات پھر بھی واضح نہیں ہو پاتی۔ جنرل صاحب نے یہ بات صرف ایک جملے میں نمٹا دی اور ایسی نمٹائی کہ اس کے بعد کچھ اور کہنے سننے کی حاجت نہیں رہی۔ انھوں نے کہا:’پنجاب کی اکثریت ہمیشہ مقتدر قوتوں کی نگاہ میں کھٹکتی رہی ہے’۔ پاکستان کے مسائل کو سمجھ کر اسے سلجھانے کی تمنا اگر کسی دل میں کروٹیں لیتی ہو اور بات کا سرا نہ ملتا ہو تو وہ اسی چھوٹے سے جملے سے ابتدا کر سکتا ہے جو جنرل صاحب نے اعظم گڑھ کی بے عیب زبان میں اس آسانی کے ساتھ کہہ دی ہے ۔
ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل ان یاداشتوں میں جنرل صاحب نے پاکستان کے اس سب سے بڑے مسئلے ہی کی نشان دہی نہیں کی بلکہ اس مسئلے سمیت ملک کے دیگر بے شمار مسائل کا حل بھی تجویز کیا ہے۔ پنجاب کی اکثریت اگر کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہے تو اس کا آسان حل انھوں نے یہ تجویز کیا ہے کہ جو چیز نا پسند ہے، اس کا وجود ہی تحلیل کر دیا جائے یعنی اگر پنجاب کی اکثریت سے کسی کو مسئلہ ہے تو یہ اکثریت برقرار رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کیوں نہ قومی اسمبلی میں ایک قانون منظور کر کے اس کا خاتمہ کردیاجائے۔ ان کے خیال میں یہ مسئلہ قومی اسمبلی کے ایک فیصلے کے ذریعے ممکن ہے جس کی رو سے ملک کے چار صوبے تقسیم کر کے بہت سے نئے صوبے بنا دیے جائیں۔ موجودہ صوبوں کی تقسیم کی راہ میں کیا سیاسی، تاریخی اور نفسیاتی رکاوٹیں حائل ہیں؟ان سوالات پر انھوں نے روشنی نہیں ڈالی۔ اس کے لیے ممکن ہے کہ ہمیں اُن کی یاداشتوں کے اگلے حصے کا انتظار کرنا پڑے۔
جنرل صاحب نے اپنی یاداشتوں کئی انکشاف بھی کیے ہیں۔ ایک انکشاف یہ ہے کہ 2008 ء کے انتخابات میں پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت قائم ہوئی تو امریکی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ سیاق و سباق سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی وجہ نظریاتی رہی ہوگی۔انھوں نے ایک اور دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ 2016 ء میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پاکستان تشریف لائے تو انھوں نے پاکستانی قیادت کو بتایا کہ ترکی کی طرح یہاں بھی فتح اللہ گولن طرز کا خطرہ موجود ہے۔ جنرل صاحب کا اشارہ ترکی میں ہونے والی اس بغاوت کی طرف ہے جس میں گولن گروپ نے فوج کے ایک حصے کے ساتھ مل کر ایردوآن حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسے کسی خطرے کی ہمارے ہاں کیا نوعیت رہی ہو گی اور اس کے نتائج کیسے برآمد ہوئے ہوں گے، جنرل صاحب نے شاید ان سوالات کو اہم نہیں سمجھا، البتہ یہ بتا دیا ہے کہ اس مسئلے کی بنیادیں اور ان کا حل کیا ہے۔ انھوں نے بتا دیا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ہے قرآن وسنت سے روگردانی۔ اس روگردانی کی تشریح انھوں نے یہ کہہ کر کی ہے کہ ہم مغربی پارلیمانی جمہوریت سے چمٹے ہوئے ہیں جس میں ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ اس تشخیص کے بعد وہ ایک اور دلچسپ معاملے کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب دینی سیاسی جماعتوں کو مرکزی سیاسی دھارے میں جگہ نہیں ملتی۔ اس تشخیص کے بعد انھوں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس مشن پر کام کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ آیندہ انتخابات میں ان کی بڑی کامیابی مل جائے گی۔
پارلیمانی نظام کی تنقیص کے بعد جنرل صاحب نے کسی متبادل نظام کی طرف واضح اشارہ تو نہیں کیا لیکن بعد کے صفحات میں وہ نیشنل سیکیورٹی کونسل کے فوائد اور اس سے متعلقہ معاملات کو جس طرح زیر بحث لائے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا جھکا ؤصدارتی نظام کی طرف ہے۔ یہ بحث سیاسی اُس ایجنڈے کی طرف بھی ہماری راہنمائی کرتی ہے جو مستقل قریب میں سامنے آسکتاہے۔ اس اعتبار سے یہ کتاب رائے عامہ ہموار کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے اور اس تناظر میں بڑے اہم وقت پر منظر عام پر آئی ہے جس کے لیے ہمیں جنرل اسلم بیگ ہی نہیں کرنل اشفاق حسین کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے جن کے توسط سے ہم اپنی قومی زندگی کے ایک اہم طبقے کے انداز فکر سے ہی متعارف نہیں ہوئے بلکہ اعظم گڑھ کی اس بے عیب زبان سے بھی متعارف ہوئے جس میں گفتگو کر کے جنرل اسلم بیگ کانوں کے راستے دلوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ کرنل اشفاق حسین کثیر الاشاعت کتابوں کے مصنف ہیں۔ ادبی دنیا میں ان کی فتوحات کا سلسلہ مزاح نگاری سے شروع ہوا پھر وہ سوانح نگاری کی طرف متوجہ ہوئے۔ قومی زندگی میں اہم کردار ادا کرنے والی عسکری قیادت کی یاداشتیں ان کا نیا میدان ہے۔ اب وہ اس شعبے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ ادب اور تاریخ کے اس شعبے کو بھی مالامال کر دیں گے۔