بانی پاکستان قائداعظم کی سوانح،شخصیت اورزندگی پربے شمارکتابیں تصنیف کی گئی ہیں۔لیکن ان کی ازدواجی زندگی اوراہلیہ کے بارے میں بہت کم مستندمواددستیاب ہے ۔ڈاکٹرسعدخان نے ”بیگم جناح،رتن بائی سے مریم جناح تک”لکھ کراس کمی اوراہم ضرورت کوپوراکیاہے ۔قائداعظم کی ازدواجی زندگی کے بارے میں حال ہی میں شیلاریڈی کی بہت عمدہ کتاب”مسٹراورمسزجناح”آکسفرڈیونیورسٹی پریس نے شائع کی تھی۔مسزجناح کے بارے میں کچھ اوراچھی کتب میں شہاب الدین دسنوی کی ”جناح،رتی اورمیں”،ڈاکٹرسعدخان کی ”قائداعظم کی نجی زندگی:مسلک ،شادی،اولاد”عقیل عباس جعفری کی”قائداعظم کی ازدواجی زندگی”خواجہ رضی حیدرکی Ruttie Jinnah:the Srory,Told Untold ، شگفتہ یاسمین کی Ruttie Jinnah: Life and Love،کانجی دوراکا داس کیThe Story Of Great Friendshipمحمدعلی کریم بھائی چھاگلہ کی Rosses In December شامل ہیں۔شیلاریڈی کی ”مسٹراورمسزجناح ”میںقائداعظم کی عائلی زندگی کے بارے میں کافی تفصیلات دی گئی ہیں۔ڈاکٹرسعدخان نے ”بیگم جناح”میں مریم جناح کی شخصیت،خاندان اور قائدسے والہانہ محبت کے بارے ایسی تفصیلات پیش کی ہیں ۔جواس سے قبل کبھی منظرعام پرنہیں آئیں اورقائدکی زندگی کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کوبھی دورکیاہے۔
ڈاکٹرسعدخان کاتعلق تونوکرشاہی یاعرف عام میں مشہوربیوروکریسی سے ہے۔لیکن شوق آفاقی رکھتے ہیں۔بلوچستان کی وادیوں،پنجاب کے میدانوں،گلگت بلتستان کے پہاڑوں اوروفاقی دارالحکومت اسلام آبادکے مرغزاروںسمیت مملکتِ پاکستان کے طول وعرض میں سرکار ی ذمہ داریاںاداکرچکے ہیں۔سیکریٹریٹ میں سیکشن افسر،ڈپٹی سیکریٹری، ایڈیشنل سیکریٹری اورسیکریٹری کے طورپرذمے داریاںانجام دیں توفیلڈمیں اسسٹنٹ کمشنرسے شروع ہوکربہت سے عہدے مقدربنے۔سی ایس پی افسراپنی سروس کے دوران اتناسفرکرتاہے کہ ابنِ بطوطہ سنے توشرماجائے۔سعدخان نے پیشہ ورانہ فرائض اس تندہی سے نبھائے کہ ہروزارت،ہرمحکمے اورہرضلع میں جہاں بھی کام کیااپنی دھاک بٹھاڈالی۔دفتری اوقات کے بعدپرورشِ لوح وقلم بھی کرتے رہے اورنام کمایا۔اب تک آٹھ کتابیں،بیس سے زائدمقالات اورکئی مضامین تصنیف کرچکے ہیں۔تاریخ اورسیاست آپ کے خاص شعبے ہیں۔انھیں اسلامی دنیااوراس کے سیاسی مدوجزرپرعبورحاصل ہے۔ قائداعظم اورتحریکِ پاکستان پرسندکادرجہ رکھتے ہیں۔تقابلی طرزِحکومت،دستورسازی اورآئین وقانون پرقلمی دسترس ان کاخاصہ ہے۔قلم دوستی کے علاوہ باقی مشاغل،شاہانہ نہ سہی،عاشقانہ ضرورہیں۔سیروسیاحت میںچالیس سے زائدممالک دیکھے اوروطن عزیزکے تقریباً سبھی اضلاع بھی۔ہزارہاکتب پرمشتمل ذاتی کتب خانہ رکھنا،گلبانی کے شوق میں سرکاری بنگلہ الاٹ ہوتے ہی گلابوں کے بیسیوں رنگ کے پھو ل اُگانا اورہرشام کچھ وقت عسکری موسیقی کے لیے نکالنا،آپ کاطرہ ہائے امتیازہیں۔ملٹری بینڈآپ کاعشق ہے اوران کی خدمت آپ کا شیوہ ۔آئندہ کی تحقیق وتصنیف کے لیے 1971کی جنگ،سابقہ مشرقی پاکستان کے البدراورالشمس رضاکاروںکی تاریخ اورموجودہ بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے حق میں چل رہی تحریکوںپرکام کررہے ہیں۔
کتاب کے بیک پیچ پرخاتون اول بیگم ثمینہ عارف علوی،معروف صحافی اورکالم نگارحسن نثاراورپروفیسر،محقق اوراسکالرڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرہ کے تعا رفی کلمات درج ہیں۔بیگم ثمینہ عارف علوی کاکہناہے۔” زیرِنظرکتاب بیگم جناح کی شخصیت کابہت خوبصورتی سے احاطہ کرتی ہے ۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہرپاکستانی خاتون کوبیگم جناح کی زندگی اورکارناموں سے آگاہی ہونابہت ضروری ہے۔قائداعظم راست بازی اور دیانت کامجموعہ تھے۔ان کی اہلیہ بھی انہی خصائل کی مالک تھیں۔بہت کم لوگ کردارکی اس بلندی کوپہنچ سکتے ہیں۔پاکستان میں صنفی برابری کی جدو جہدبیگم جناح کوآئیڈیل مان کرآگے بڑھ سکتی ہے۔تاریخ بہرحال تاریخ سازوں کی کہانی ہوتی ہے اوربیگم جناح یقینا تاریخ سازتھیں۔اس لیے تاریخ کی ان کے بارے میں خاموشی کاازالہ زیرِنظرکتاب کافیصلہ کن کارنامہ ہے۔”
حسن نثارکے مطابق”بابائے قوم کی شریکِ حیات کے بارے میں یہ انتہائی خوبصورت کتاب ڈاکٹرسعدخان نے تحقیق،محنت،محبت اور عقید ت کے ساتھ لکھی ہے جوہمیںمادرِحریت مریم جناح کی سیاسی جدوجہدسے ملواتی ہے۔یہ تحقیق بہت سی کتابوں کانچوڑاورنامورشخصیات کے تفصیلی انٹرویوزکاعطرہے جس پرڈاکٹرسعدخان مبارک باد اورتحسین کے مستحق ہیں۔اس نایاب کتاب میں بہت کچھ،بہت نیاہے۔ڈاکٹر سعدخان کایہ فکری احسان ہے کہ ایک ایسے موضوع پرکتاب لکھی جس پہ اس سے پہلے اس تفصیل سے شاید ہی کسی نے لکھاہو۔”
پروفیسرڈاکٹرعارفہ سیدہ زہرہ نے لکھاہے۔”ہماری تاریخ میں خواتین علمی توجہ کامرکزکم رہی ہیں۔اگرذکرہے بھی توضمیمہ کے طور پریعنی ایک فردکی حیثیت سے مکمل شخصیت کے تمام پہلوبیان نہیں کیے جاتے۔مریم جناح کے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ ہے۔مریم جناح،قائداعظم کی زندگی میں محبت کی روشنی اوررفاقت کااعتبارلے کرآئیں توان کادل اورگھردونوں سج گئے۔صاحبِ کتاب نے مریم کے مزاج،ذوق، قرینہ،پسند،ناپسندکے حوالے سے ان کی زندگی کے عوامل کوسمجھنے کی کوشش کی ہے اورایک عہدکی ذہنی ساخت کوسمجھنے کاموقع دیاہے۔ذاتی طور پرمیرے لیے ایک نئی بناہے کہ سنجیدہ فکری اورتہذیبی تاریخ اردو میں لکھی جائے۔مجھے یقین ہے اس کتاب کواس پس منظرمیں خوش آمدیدکہاجائے گا۔”
بک کارنرجہلم نے ”بیگم جناح”کواپنے روایتی حسنِ طباعت سے آراستہ کیاہے۔بڑے سائزکے دوسوچھپن صفحات سرورق پربیگم جناح کی دیدہ زیب پورٹریٹ،خوبصورت کتابت،عمدہ جلدبندی کے ساتھ اس کی قیمت صرف آٹھ سوروپے ہے۔ابتدائی چھبیس صفحات آرٹ پیپر پرقائداعظم محمدعلی جناح،مریم جناح کی بلیک اینڈوائٹ تصاویر،نکاح نامے اورمریم جناح کے قائدکے نام آخری خط کاعکس،قائداعظم کی فرضی اہلیہ کی تصاویر،مریم جناح اوران کے اہل خاندان کی تصاویر،قائداعظم بیٹی اوربہن کے ساتھ یادگاراوردیگرتصاویرنے کتاب کے اہمیت اورلطف کودوبالاکردیاہے۔اس شاندار اشاعت پرگگن شاہداورامرشاہد بھرپورمبارک باد اورتحسین کے مستحق ہیں۔
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے بارے میں بے شماربے بنیادباتیں مشہورہیں۔ ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ کمسنی میں قائداعظم کی شادی ایمی بائی سے ہوئی۔”بیگم جناح” میں دلائل کے ساتھ اس جھوٹی کہانی کاپردہ چاک کیاگیاہے ۔قائداعظم کی شریک حیات صرف اور صرف مریم جناح ہیں تھیں۔”قائداعظم کی پہلی شادی:حقیقت یاافسانہ؟” کی ذیلی سرخی کے تحت اس حوالے سے تحریرہے۔”کچھ کتابوں میں قائداعظم کابچپن میں ایک نوعمرلڑکی سے شادی کاذکرملتاہے۔1892ء میں جب قائداعظم سندھ مدرسہ الاسلام میں نویں جماعت کے طالب علم تھے توخوجہ روایات کے مطابق ان کی شادی ان کے والد کے متمول دوست کی چودہ سالہ بیٹی ایمی بائی سے ہوئی تھی۔ سولہ سالہ محمدعلی جناح نے اسکول سے چھٹی لی اورشادی کے لیے گجرات میں والدین کے آبائی گاؤں گوندل چلے گئے۔”نکاح” کے بعد خاندان کراچی واپس آگیا۔چندماہ بعدنوجوان محمدعلی جناح واپس گاؤں گئے اوراپنے سسرسے اصرارکیاکہ وہ اپنی دلہن کوکراچی لے جا نا چاہتے ہیں۔مزیدچندماہ بعدجناح اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے۔وہ وہیں تھے کہ دوسال بعدایمی کاہیضے کی وجہ سے انتقال ہوگیا۔ تاریخی حوالوں سے مذکورہ کہانی درست ثابت نہیں ہوتی۔یہ بات بھی قابل غورہے کہ محمدعلی جناح کی مریم جناح سے شادی کی تاریخ،نکاح خواں کانام،حق مہرکی رقم اورگواہان،سب کچھ تاریخ کے ریکارڈمیں موجوداورمحفوظ ہے۔جبکہ پہلے نکاح نامے کی تاریخ یاگواہان کے نام کا کوئی ذکرنہیں ملتا۔بلکہ مبینہ شادی کی جگہ ،نوعمردلہن کی جائے وفات اوردیگرتفصیلات میں تضادات سے یہ تاثرتقویت پاتاہے کہ یہ سب کچھ من گھڑت ہے۔قائداعظم کی زندگی کے کسی بیان،کسی کتاب،مضمون،انٹرویویاکسی اورموادمیں ان کی پہلی شادی کاکوئی ذکر، بلکہ حوالہ تک نہیں ملتا۔اگرایسی کوئی شادی ہوئی ہوتی توناقدین اس کاکھوج ضرورلگاتے تاکہ کردارکشی کاکوئی موقع ہاتھ آسکے،جیساکہ مریم کے ساتھ شادی کوایک سیاسی معاملہ بنانے کی کوشش کی گئی۔بلکہ محمدعلی جناح کااپنی جواں سال دلہن کوتنہاچھوڑجانے،یابیمارہونے پران کی خبرنہ لینے اور مرنے کے لیے چھوڑدینے کی کہانیاں اچھالی جاتیں۔ایم اے رؤف کی قائداعظم پرانتہائی مستندکتاب Meet Mr.Jinnah ۔پہلی مرتبہ 1944ء میں شائع ہوئی۔یہ واحدسوانح عمری ہے جوقائداعظم نے خودپڑھی اورخوداس کی تصحیح فرمائی۔اس کے سرورق کے بعدسب سے پہلی تصویرمریم جناح کی ہے ۔یہ کتاب قائداعظم کی پیدائش ،ان کی مدرسے میں تعلیم اوربچپن کے مختلف امور سے شروع ہوتی ہے ۔ کتاب ان کی 1918ء میں ہونے والی شادی اورازدواجی محبت کوبہترین اندازمیں بیان کرتی ہے لیکن اس میں بھی ان کی نوعمری میں مبینہ شادی کاکوئی ذکرنہیں ۔اگرایسی شادی ہوئی ہوتی توقائداعظم باقی وضاحتوں کے ساتھ یہ تصحیح بھی کردیتے۔قائداعظم اوربیگم صاحبہ کی زندگی میں شائع ہونے والی لگ بھگ بائیس کتابیں بھی قائداعظم کی پہلی شادی کے ذکرسے خالی ہیں۔دوسری بات ایمی بائی کاخاندان،ان کے بھائی بہن کوئی کہیں توموجودہوں گے۔جب محمدعلی جناح بابائے قوم بن گئے تووہ خاندان ضروران کانام استعمال کر تے ہوئے شہرت اور اہمیت حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔جیساکہ واڈیاخاندان نے انڈیا میںمحمدعلی جناح کے اثاثوں اورجائیدادپرنظررکھی۔ پہلی بیوی کاوجود ثابت کرنے کے لیے ساٹھ کی دہائی سے ایمی بائی کی دومختلف تصاویرگردش میں ہیں۔ایک تصویرہندوستانی نقوش رکھنے والی سانولی رنگ کی لڑکی ہے ،جبکہ دوسری کسی یورپی لڑکی کی معلوم ہوتی ہے۔ان تصاویرمیں اتنافرق پایاجاتاہے کہ وہ کسی ایک فردکی نہیں ہو سکتیں۔برصغیرکے جس دورافتادہ حصے میں وہ رہتی تھی وہاں فوٹوگرافی کی سہولت میسرنہیں تھی۔کراچی جیسے شہرمیں پہلاکیمرہ 1908ء میں آیا۔گویاایمی کی مبینہ وفات کے چودہ برس بعد۔اس کامطلب ہے کہ ایمی کی کوئی فوٹوموجودنہیں ہوسکتی۔دراصل ہندوستانی دکھائی دینے والی جس لڑکی کوایمی سمجھا جا رہاہے،وہ فاطمہ جناح کی نوعمری کی تصویرہے۔یورپی دکھائی دینے والی ایمی دراصل ایملی ہیں جوقائداعظم کے چھوٹے بھائی احمدعلی جناح کی بیوی تھیں اورایمی کے نام سے مشہورتھیں۔اہم بات قائداعظم تمام زندگی بچپن کی شادی کی مخالفت کرتے رہے اوراس کے تدارک کے لیے قانون سازی بھی کروائی۔ایساصاحب کردارشخص کیوں کسی تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کرے گا۔قائداعظم کی بہن مریم پیر بھائی نے ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا۔”محمدعلی جناح کوان کے دوست سرراؤبہادرچھوٹارام نے مدعوکیا۔لیڈی راؤ جناح کے خاندان سے کافی بے تکلف تھیں۔انھوں نے پوچھاکہ کیاسروجنی نائیڈوانہیں پسندکرتی تھیں یاکیاوہ بھی انہیں پسندکرتے تھے؟ اس پر محمد علی جناح نے دوٹوک اندازمیں کہاوہ سروجنی نائیڈوکی شاعری اورسیاست کوپسندکرتے ہیں۔جہاں تک ان کی پہلی اورآخری محبت کاتعلق ہے تووہ مریم جناح ہی ہیں۔قائداعظم کی بیٹی دیناجناح بھی تصدیق کرتی ہیں کہ ان والد اوروالدہ شادی سے پہلے کنوارے تھے۔”
”بیگم جناح” کو”ابتدائیہ” اورسولہ ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔جن میں ”خاندانی پس منظراورابتدائی ماہ وسال”،”جناح اورپٹیٹ خاندان میں مراسم کاآغاز”،”دارجلنگ: ایک محبت کی شروعات”،”قبول اسلام اورشادی”،”جناح ہاؤس :ایک جنت”،”عملی سیاست میں قدم” ، ”گاندھی جی سے خط وکتابت”،”کردارکے تین پہلو”،” شادی شدہ زندگی کے دوران سفر”،”بیگم مریم جناح کی انتخابی وپارلیمانی سرگرمیا ں ”،”بیگم مریم جناح کی سماجی خدمات”،”بیگم مریم جناح کی عادات واطوار”،”اختلافات اورعلالت”،”رحلت اورتدفین”،”بیگم جناح اورقیامِ پاکستان” اور”بیگم جناح کے ریاستِ پاکستان پراثرات” شامل ہیں۔ان تمام ابواب کے تحت ذیلی عنوانات کے ذریعے بیگم مریم جناح کی زندگی کاہرپہلوڈاکٹرسعدخان نے پیش کردیاہے اوریہ کتاب بلاشبہ مریم جناح پرپہلی مکمل اورجامع کتاب ہے جس سے ان کی زندگی کے کئی نئے اورچونکادینے والے پہلوسامنے آتے ہیں اورقاری پرواضح ہوتاہے کہ قائداعظم کی مانند ان کی پسند اوراہلیہ بھی بھرپوراور منفردشخصیت کی مالک تھیں۔
ابتدائیے کے مطابق۔”بمبئی میں ان کاگھرساؤتھ کورٹ اس وقت جناح ہاؤس کہلاتاتھاجہاں بیگم جناح نہایت انہماک سے تمام سیاسی مبا حث میںشریک ہوتیں،ہرسیاسی بیٹھک کے موقع پرگھرمیں ضیافت کااہتمام کرتیں۔اپنی دل خوش کن گفتگوسے قائداعظم اوران کے سیاسی معاونین کی حوصلہ افزائی کرتیں۔غرضیکہ شریکِ محفل،قائدکی معاون،ہردعوت کی میزبان،تمام کردارمحترمہ کی ذات میںجمع ہوجاتے۔ قائداعظم محمدعلی جناح بھی اپنے تمام سیاسی خیالات پرسب سے پہلے بیگم صاحبہ سے رائے لیناپسندکرتے تھے۔بیگم جناح کانام کئی اہم ملاقا توں اوردعوت ناموں میں دکھائی دیا،جن میں پرنس آف ویلزکے اعزاز میں دی جانے والی دعوت اورلارڈچیمسفورڈکے وائسرائے محل میں دیاجانے والاعشائیہ اوربرطانوی ولی عہد،شہزادہ ایڈورڈسے دورہ ہندوستان کی ملاقاتیں شامل ہیں۔لارڈ ریڈنگ قائداعظم کو”سر”کاخطا ب لینے پرآمادہ کرنے میں ناکام رہے توانھوں نے یہ خیال بیگم جناح کے سامنے رکھاکہ سرکاخطاب پانے والے کی اہلیہ کے طورپروہ لیڈی جناح کہلاناکتناپسندکریں گی توبیگم صاحبہ نے جواب دیاکہ اگران کے شوہرنے نوآبادیاتی انتظامیہ سے کوئی بھی اعزاز قبول کیاتووہ فوراً علیحدگی اختیارکرلیں گی۔آل انڈیامسلم لیگ کے صدرکی بیگم ہونے کے ناتے مریم جناح عوامی جلسوں میں ان کے پہلومیں بیٹھتیں۔ اسٹیج پر ایک خاتون کی موجودگی ملاؤں اورقدامت پسندوں کوناگوارگزرتی۔”
مریم جناح کے خاندانی پس منظرمیں بیان کیاگیاہے۔”شادی سے پہلے وہ رتی پٹیٹ تھیں۔جاذب نظر،پرکشش،بمبئی کی اشرافیہ کے دل کی دھڑکن۔ان کے ننھیال اوردوھیال ،پٹیٹ خاندان اورجی جی بھائی خاندان دونوںہی اعلیٰ حیثیت کے حامل تھے۔اپنے مخصوص انداز کے ساتھ رتی پٹیٹ کلبوں اورپارٹیوں میں،اوراپنے اسکول میں بھی سب سے نمایاں ہوتیں۔شاعرہ اورسماجی کارکن ،سروجنی نائیڈونے رتی کو ”بمبئی کاپھول”قراردیاتھا۔رتن بائی،جوپیارسے رتی کہلاتی تھی،سرڈنشاپٹیٹ اورلیڈی دینابائی کی پہلی اوراکلوتی بیٹی تھیں۔دولت اور نواب کاخطاب انہیں اپنے داداکی طرف سے وراثت میں ملاتھا۔رتی صاحبہ بہت ذہین اورحاضردماغ تھیں۔قدرے ضدی طبیعت پائی تھی۔جوچاہتیں حاصل کرلیتیں۔جب وہ جوان ہوئیں تومحمدعلی جناح کوپسندکرلیا،اورحاصل بھی۔وہ بیس فروری 1900ء کوپیداہوئیں بچی کانام رتن بائی پٹیٹ رکھاگیا۔رتن کامطلب ‘موتی’اوران کی عرفیت رتی کا’لطف یاخوشی’ ہے۔اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں خوشی اورخوش بختی سے نہال ہونے والی لڑکی اپنے آخری ایام میں نام اورعرفیت کی ہم معنی نہ بن سکی۔”
رتی جناح کی پیدائش سے پہلے محمدعلی جناح ان کے والدڈنشاپٹیٹ کے دوست تھے۔ ملبوسات،موسیقی،پالتوجانوروں اورگھڑسواری کے شوق کے ساتھ ساتھ رتی کتابوں کابہت اعلیٰ ذوق رکھتی تھیں۔مطالعہ کی رسیا،نوجوان لڑکی کے کتب خانے بہت سے اہم کتابیں موجود تھیں ۔ان کی پسندیدہ کتب میں آزادی نسواں کی علمبردارایمیلائن پنکہرسٹ کی سوانح عمریMy Own Storyتھی۔رتی بھی خواتین کے حقوق اورآزادی کاچیمپئن بننے کے خواب دیکھاکرتی تھیں۔
بمبئی آمدکے بعدمحمدعلی جناح کی کوئی سماجی سرگرمیاں نہیں تھیں۔جناح کسی کلب کی رکنیت حاصل کرناچاہتے تھے تاکہ عمدہ محفلوں میںبلیئرڈ وغیرہ کھیلتے ہوئے شام بسرکی جاسکے۔آخرکارانہیں اورینٹ کلب کی رکنیت مل گئی۔ڈنشاپٹیٹ اسی کلب کے متمول ممبرتھے۔وہ معمولی بات کو بھی عدالت لے جانے کے عادی تھے۔جناح کی ڈنشاپٹیٹ سے پہلی ملاقات بمبئی ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کے سلسلے میں ہوئی۔وہ سر ڈنشاکے مخالفین کی وکالت کررہے تھے۔عدالت میں جناح کی کارکردگی سے سرڈنشابہت متاثرہوئے۔کلب میں ان کی دوستی پروان چڑھی اورپٹیٹ ہال سرڈنشاکے گھرآناجانابھی شروع ہوگیا۔جلدہی جناح اورسرڈنشاپڑوسی بھی بن گئے۔محمدعلی جناح کی وکالت میں ساکھ بنی توان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا۔چندبرس میں وہ پٹیٹ ہال سے چندسوگزفاصلے پرساؤتھ کورٹ مینشن پہلے کرائے پرلیاپھراسے خرید لیا۔چند سال بعدرتی صاحبہ پٹیٹ ہال کوچھوڑکرجناح صاحب کی دلہن بن کرساؤتھ کورٹ میں آنے والی تھیں۔1916ء تک رتی صاحبہ جناح کی محبت میں مبتلاہوچکی تھیں۔قائداعظم اوررتی نے 1913ء میں ایک ہی بحری جہازمیں یورپ کاسفرکیاتھا۔رتی صاحبہ اپنے والدین اور جناح کی عرشے پرہونے والی سیاسی گفتگوسنتیں۔رتی بیرسٹرجناح کی صلاحیتوں کی معترف ہوگئیں۔جب رتی نے جوانی کی دہلیز پرقدم رکھا تویہ پسندیدگی محبت میں بدل گئی۔اس وقت پارسی خاندانوں میںلڑکیوں کی شادی کی عمرتیرہ چودہ سال تھی،ان کی بیشترہم جماعت لڑکیوں کی شادی ہوچکی تھی۔رتی صاحبہ کواپنے والدکے یہ بیرسٹردوست بہت اچھے لگے۔نہ صرف جناح کی دلکش شخصیت ،دولت اورقد کاٹھ،بلکہ ان کے نظریات ،جیساکہ قانون کی حکمرانی،حقوق نسواں،ہندوستان کی آزادی اورمذہبی اعتدال پسندی،رتی کے دل کوبھاگئی۔ جناح بھی ان سے محبت کرنے لگے،لیکن صرف خو بصورتی یاخاندانی پس منظرکی وجہ سے نہیں ،بلکہ ان کی غیرمعمولی ذہانت اوردانائی سے متاثرہوکر۔
رتی شادی کی عمرکوپہنچ چکی تھی ان کے والدسرڈنشاترقی پسندسوچ کے مالک اوربین المذاہب شادیوں کے حق میں تھے۔مشرقی رویات کی روسے جناح صاحب کورشتے کی بات رتی کے والدین سے ہی کرنی تھی۔اس پس منظرمیں محمد علی جناح نے دارجلنگ میں قیام کے دوران سرڈنشاسے اس موضوع پربات کرنے کی کوشش کی۔پٹیٹ محل کے صحن میںچائے سے لطف اندوزہوتے ہوئے انہوں نے سرڈنشاسے بین المذاہب شادیوں پران کی رائے دریافت کی۔”ایسی شادیاں یقینا اقوام کے درمیان ہم آہنگی کاباعث بنتی ہیں،اورممکن ہے کہ یہ بین المذا ہب دورکرنے کاواحدطریقہ ثابت ہوں” روشن خیال میزبان نے جواب دیا۔اس پرجناح صاحب نے اپنے میزبان سے ان کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا۔سرڈنشاکے لیے یہ تجویزغیرمتوقع تھی،وہ آپے سے باہرہوگئے اوردوٹوک اندازمیں انکارکردیا۔دونوںکی دوستی ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔لیکن رتی نے جناح سے ملناموقوف نہ کیا۔وہ باقاعدگی سے اخبارات بھی پڑھتی رہیںکیونکہ قائداعظم قومی سطح پرشہ سرخیوں کا محورتھے۔بیس فروری 1917ء میں رتی سترہ برس کی ہوگئیں۔انہوں نے تاج محل ہوٹل میں سالگرہ کی تقریب میں جناح کوشادی کی پیش کش کی۔رتی صاحبہ، محمدعلی جناح کاہاتھ تھام کرمائیکروفون کے پاس گئیں،اوربہت بے تکلفی سے اعلان کیا۔”جے اورمیں شادی کرنے جا رہے ہیں۔”محترمہ ساری زندگی محمدعلی جناح کوپیارسے جے پکارتی تھیں۔سرڈنشابمشکل اپنے غصے پرقابوپاسکے۔
سرڈنشامعاملے کوعدالت میں لے گئے،جوان کامحبوب مشغلہ بھی تھا۔انھوں نے الزام لگایاجناح کی نظران کی جائیداد پرہے،اوروہ اسے حاصل کرنے کے لیے ان کی بیٹی کابہکارہاہے۔اس وقت جناح دولت کے اعتبارسے سرڈنشاکے ہم پلہ تھے،انہیں بیٹی کے رشتے کے سوا کسی چیزکی حاجت نہیں تھی۔تاہم رتی کویہ دیکھ کربہت مایوسی ہوئی کہ جناح صاحب نے عدالت میں اقرارکیاکہ وہ قانون کی نظرمیں رتی کے بالغ ہونے تک نہ تورتی سے ملیں گے اورنہ ہی ان سے خط وکتابت کریں گے۔ایک برس بیت گیارتی اٹھارہ سال کی ہوگئی،اٹھارہویں سالگرہ کے ٹھیک دوماہ بعدبروزہفتہ،ڈنشاپٹیٹ کواپنی زندگی کی سب سے چونکادینے والی خبرملی کہ ان کی صاحبزادی گذشتہ شب بیرسٹرمحمد علی جناح سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئی تھی۔
یہ سب ایک بہت دلچسپ رومانی داستان ہے۔” محمدعلی جناح اورمریم جناح کی شادی بذات ِ خود کسی سنسنی خیزفلم سے کم نہ تھی۔قائداعظم چاہتے تھے کہ ان کی بیوی شادی سے پہلے اسلام قبول کرلے اوران کی شریک حیات مسلمان ہو۔رتی بھی ارادے کی دھنی تھیں۔انہیں ان کی مرضی کے خلاف کسی کام پرمجبورنہیں کیاجاسکتاتھا۔انہیں مشہورصحافی ایس اے بریلوی اوربعدمیں ہونے والی نندشیریں جناح کے ذریعے اسلام پرکتابیں بھجوائی گئیں۔مطالعے کے جنون اورگہری ذہانت رکھنے والی رتی صاحبہ نے پوری سمجھ بوجھ کے بعداسلام قبول کرنے کافیصلہ کیا۔محمدعلی جناح کسی مسلک کے ساتھ وابستگی نہیں رکھتے تھے۔رتی صاحبہ کا قبولِ اسلام سنی مکتب فکرکے تحت ہوا۔وہ بروزجمعرات، 18اپریل1918ء پٹیٹ ہال سے نکلیں،قائداعظم کے دوست عمرسبحانی انہیں قبولِ اسلام کے لیے جامع مسجدلے گئے۔آپ نے مولانا نذیراحمدخجندی کے ہاتھ پراسلام قبول کیا،رتی صاحبہ کااسلامی نام مریم رکھاگیاجس کامطلب ہے ‘چاہی گئی اولاد’اسلام قبول کرکے مریم کسی کے علم میں آئے بغیروالدین کے گھرواپس آگئیں۔اگلے روزدوبارہ کبھی واپس نہ آنے کے لیے مریم جناح طے شدہ وقت پرپٹیٹ ہال سے نکلیں عمرسبحانی باہران کاانتظارکررہے تھے ۔ایک ہاتھ میں چھتری ،اودوسرے میں اپناپالتوکتاتھامے وہ چندگزچلتی ہوئی جناح ہاؤس میں داخل ہوگئیں۔قائداعظم سترہ اپریل تک انتہائی اہم سیاسی ملاقاتوں میں مصروف رہے کہ ڈنشاپٹیٹ کوگمان ہونے لگاکہ وہ ان کی بیٹی کوبھول چکے ہیں۔جمعہ 19اپریل 1918ء کوگذشتہ صدی کی وہ اہم ترین شادی ہوئی جس میں محمدعلی جناح اور مریم رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔اس وقت مریم اٹھارہ اورجناح اکتالیس برس کے تھے۔وسیع وعریض جناح ہاؤس کے صحن میں قائداعظم کے زیادہ ترعزیزو اقا رب اورقابلِ اعتماد دوست نکاح کے تمام انتظامات کے ساتھ منتظرتھے۔ قائداعظم کے دوست شریف دیوجی مشہورعالم دین،علامہ حسن نجفی کواپنی کارمیں جناح ہاؤس نکاح پڑھانے کے لیے لے کرآئے۔مولانا عبدالہاشم شریعت مدارنے دلہن کے وکیل کے طورپردستخط کیے غلام علی اورشریف دیوجی نے گواہان کے دستخط کیے۔راجہ صاحب محمودآباد اورعمرسبحانی نے بھی گواہان کے دستخط کیے۔نکاح نامہ فارسی میں لکھا گیا بمبئی کی پالاگلی مسجدمیں نکاح نامے کااندراج کرایاگیا۔حق مہرایک ہزارایک روپے مقررکیاگیا،جناح صاحب نے اپنابنگلہ جس کی مالیت سوا لاکھ تھی بطورتحفہ دلہن کے نام کردیا۔سرڈنشاپٹیٹ نے اپنی بیٹی کے اغواکاالزام لگاکرمقدمہ دائرکردیا۔اس دلیرخاتون نے عدالت کے سامنے کھڑے ہوکرکہا۔”مائی لارڈ،جناح صاحب نے مجھے اغوانہیں کیا،میں نے انہیں اغواکیاہے۔”اس پرسیخ پاہوکرجب سرڈنشانے کہا ”تمہیں میری وراثت سے ایک پیسہ تک نہیں ملے گا۔”توبیگم جناح نے برملاکہا۔”آپ کوبھی میرے مرنے پرمیرے جنازے پرآنے کی ضرورت نہیں۔”باپ بیٹی دونوں اپنے اپنے الفاظ پرپورے اترے۔سرڈنشانے اپنی وراثت سے مریم کوکوئی حصہ نہ دیا۔مریم جناح کاآخر ی وقت آیاتوانھوں نے بھی یقینی بنایاکہ ان کی تدفین اسلام رسومات کے مطابق کی جائے۔اس طرح اپنے قول کوپوراکرتے ہوئے آپ نے اپنے غیرمسلم والدکی اپنے جنازے میں شرکت ناممکن بنادی۔”
جہاں تک رتی اورقائداعظم کے درمیان عمرکے فرق کاتعلق ہے۔تحریکِ آزادی کے اہم رہنماؤں بشمول گاندھی جی،موتی لال نہرو اوربال گنگادھرتلک نے بارہ سے سولہ سال کی لڑکیوں سے شادی کی،مریم جناح تواٹھارہ سالہ بالغ خاتون تھیں۔یہ محمدعلی جناح جولڑکیوں کی شادی کی عمر،دس سال سے بڑھاکرچودہ سال کرنے کی کوشش میں تھے،لیکن دستورسازاسمبلی میں ہندورہنماہرمرتبہ ان کی کوشش پرپانی پھیر دیتے۔جب لیاقت علی خان نے رعنالیاقت سے،سرمیاں شاہ نواز نے جہاں آراشاہنوازسے اورمحمداکرام اللہ نے شائستہ سہروردی سے شادی کی توان تمام افراد کی عمرتیس سال سے زیادہ تھی جبکہ دلہنیں پندرہ سولہ برس کی تھیں۔جب سرآغاخان سوم کی بھتیجی،لیڈی ہارون پاشا نے ان کے سیکریٹری یوسف ہارون سے شادی کی توان کی عمرصرف تیرہ برس تھی۔ان کے درمیان اکیس برس کافرق تھا۔
بیگم جناح اتنی خوبصورت تھیں کہ سروجنی نائیڈوبعد میں یادکرتی ہیں کہ ان کے ساتھ پکاڈلی اوربانڈاسٹریٹ لندن میں چلنابہت بھلالگتاتھا ۔وہاں تمام نوجوان نوابزادے اورروایتی کپڑے پہنے شہزادیاں اس دلکش شخصیت کومڑمڑکردیکھتیں۔راجہ صاحب محمود آبادجونیئرجومحترمہ سے ملاقات کے وقت صرف چارسال کے تھے۔1974ء میںاپنی یادداشتوں میں لکھا۔” بیگم جناح کومیں نے اپنے بچپن میں دیکھاجو ایک پری کی طرح دکھائی دے رہی تھیں۔اس کے بعدمیں نے زندگی بھراتنی سندر،باوقاراورپرکشش خاتون نہیں دیکھی۔”وائسرائے کی اہلیہ لیڈی ریڈنگ اپنے ایک خط میں مریم جناح کو”بہت خوبصورت اورزندگی سے بھرپورحسینہ”قراردیتی ہیں۔فلسفی جے کرشنامورتی بیگم جناح کو”صاحبِ کردار،خوبصورت اورشاہانہ اندازواطواررکھنے والی خاتون” قراردیتے ہیں۔
1928ء بیگم جناح کی مختصردنیاوی زندگی کاآخری پوراسال تھا،جواس جوڑے کے لیے پرآشوب ثابت ہوا۔جذباتی طورپران کی ازدواجی زندگی متلاطم ہوچکی تھی۔مریم جناح روٹھ کرتاج ہوٹل چلی گئیں۔سالہاسال مریم جناح نے ہرقدم پرساتھ دینے والی بیوی کاکرداراس خوبی سے نبھایاکہ محمدعلی جناح ان کی بڑھتی ہوئی بے چینی کوبھانپنے میں ناکام ہوگئے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مریم جناح نے اپنے شوہرکے شانہ بشانہ ہندوستان کی آزادی کے لیے ہرممکن جدوجہدکی۔اس مقصد کے لیے اپنی بساط سے بڑھ کرقربانیاں دیں۔حاملہ ہونے کے دوران احتجاجی جلوسوں میں شرکت کی اورپولیس کے ظلم وجبرکابخوشی سامناکیا۔بیگم جناح کوناگوارگزرنے والی اہم ترین چیزقائداعظم کا ان کی زندگی کے اہم دنوں کوبھول جاناتھا۔نہ صرف شادی کے بعدپہلی سالگرہ،بلکہ شادی کی سالگرہ پربھی جناح ہاؤس میںکسی شوروغل یا دعوت کے بغیرگزرگیا۔ستم ظریفی یہ ہے کہ قائد اوربیگم جناح میں ناچاقی ایک بلی گم ہونے سے شروع ہوئی۔ستمبر1927ء میں قائداعظم دہلی میں ہندومسلم کانفرنس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔انھوں نے اہلیہ کے ساتھ دہلی کاسفراختیارکیا۔ہمیشہ کی طرح ان کے ہمراہ چندپالتو بلیاں اورکتے بھی تھے۔واپسی پرمریم صاحبہ کی ایک بلی گم ہوگئی،انھوں نے اس کے بغیربمبئی واپس جانے سے انکارکردیا۔بمبئی میں قائدکی توجہ کے منتظرقانونی مقدمات کوایک بلی کی خاطرنظراندازکرناان کے لیے قابل قبول نہ تھا۔چنانچہ وہ اسٹیشن کی طرف روانہ ہوگئے۔مریم تین روزبعدبلی کے بغیربمبئی روانہ ہوئیں۔قائداعظم کاکہناتھاکہ مریم کارویہ بچکاناتھا،جبکہ مریم کوشکایت تھی کہ جے کوان سے زیادہ اپنے کام کی پرواتھی۔یہ دوطرفہ سوچ تعلقات کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔
بعدمیں بیگم جناح کاخیال غلط ثابت ہوا۔جب اگلے سال مریم کی بیماری کی وجہ سے آزمائش کاوقت آیاتوقائداعظم نے اپنی جیون ساتھی کی صحت پرسیاست کویکسرنظراندازکردیا وارشب وروزان کی تیمارداری میں بسرکرنے لگے۔یہ تاریخ کاانتہائی نازک دورتھاکہ ہندوستان میں نہرورپورٹ پربحث ہورہی تھی لیکن قائداعظم نے ہندوستان واپس آنے سے انکارکردیاتاوقتکہ ان کی اہلیہ کی طبیعت سنبھل جاتی۔ان کی کم وبیش چھ ماہ کی غیرحاضری نے ہندوستان کے مستقبل پرگہرے اثرات ڈال دیے۔ٍ
مریم جناح اوائل جوانی سے ہی معدے کے شدیدمسائل کاشکارتھیں۔1925ء میں ان کی والدہ ایک تقریب میں مل کرانتہائی پریشان ہو ئیں کہ ان کی بیٹی ایک جان لیوامرض میں مبتلاہے۔آخرکارصحت کے مسائل محرمہ مریم جناح کی جواں سال موت کاباعث بنے۔
عجیب بات ہے کہ دونوں کے درمیان ناچاقی کے باوجودناپسندیدگی کاکوئی اظہارنہیں ملتا۔محترمہ کے تحریرکردہ آخری خط کاہرلفظ قائداعظم کے لیے پیارکے جذبات کی شدت سے لبریز ہے۔لکھتی ہیں۔”میں نے آپ کوٹوٹ کرچاہا،جیسے شایدہی کوئی کسی کوچاہتاہو،آپ سے صرف اتنی درخواست ہے ہمارے جس تعلق کاآغازمحبت پرہوا،اس کااختتام بھی محبت پرہوناچاہیے۔” لگتاہے وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو چکی تھیں۔
قائداعظم کوصرف تین بارزاروقطارروتے ہوئے دیکھاگیا۔پہلی بارمریم جنا ح کی قبرپرمٹی ڈالتے ہوئے،دوسری بارہندوستان سے روانگی پران کی قبرپرالوداعی ملاقات کے موقع پرتیسراکراچی میں ہندوؤں کے خلاف مظاہرے پر۔”بیگم جناح” ڈاکٹرسعدخان کی بہت عمدہ تحقیقی کتاب ہے۔جس میں مریم جناح کی زندگی اورقائداعظم سے آخری سانس تک محبت کااحوال،سیاست میں محمدعلی جناح کے ساتھ ہم قدم چلنے کابیان اورقائداعظم کی بیگم جناح سے بے پناہ چاہت بہت خوبصورتی سے بیان کی گئی ہے۔کتاب میں بہت سے انکشافات اورقائد کے بارے غلط فہمیوںکابھرپوراورمدلل ازالہ کیاگیاہے۔