لیاقت علی خان کا قتل ایک شخص کا نہیں بلکہ پورے نظام کا قتل تھا، یہ کسی ایک فرد پر حملہ نہیں بلکہ پوری ریاست پر تھا۔ اگرچہ ستر سال پہلے ہونیوالا یہ قتل ایک بھولی بسری داستان بن چکا ہے مگر یقین کریں قاتلوں کی پرچھائیاں آج بھی آسیب کی طرح ہمیں جکڑے ہوئے ہیں۔ یہ عجیب وقت تھا، مملکت خداداد بنے ابھی محض پانچ سال گزرے ہیں اور بانی پاکستان کو گزرے چار سال، میدان میں لیاقت علی خان واحد قد آور رہنما ہیں جو جدوجہد آزادی کے مقاصد کو پورا کرنے کی لگن رکھتے ہیں۔ دوسری جانب ایسے بونے ہیں جو ذاتی مفادات کی خاطر ہر ریاست پر غلبے کی خواہش رکھتے ہیں۔ لیاقت علی خان کیا قتل ہوئے سیاست کی بساط بکھر گئی، جنکو ایوان اقتدار سے نکالا جا رہا تھا وہ سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں پورے ثبوت و شواہد کیساتھ حقائق پیش کیے گئے ہیں، پوری تحقیق کے بعد ان چہروں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو اب بھی معزز جانے جاتے ہیں، سیاست، بیوروکریسی اور عسکری قوتوں کے ایسے گماشتے جنہوں نے قائد اعظم کے وسیع النظر تخیل کو موت کے گھاٹ اتار دیا، ایسے ڈاکو جو پارسا بنے رہے، قاتل سید اکبر تو صرف ایک مہرہ تھا، اصل قاتل تو وہ تھے جنہوں نے یہ بھیانک سازش تیار کی جس کے تحت بیوروکریسی اور فوج ایوان اقتدار کی مالک بن بیٹھی۔ قائد ملت لیاقت علی خان مذموم مقاصد کی راہ میں آخری رکاوٹ تھے سو گرا دی گئی۔ سازش کی کڑیاں چیخ چیخ کر نام لیتی ہیں مگر سارے شواہد غائب کر دئیے جاتے ہیں، سارے گواہ ٹھکانے لگا دئیے جاتے ہیں، ایک عجب داستان ہے، ایک عجب قصہ ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں، بیوروکریسی اور فوج کا گٹھ جوڑ کیسے بنا؟ سازش کے پیچھے بڑے بڑے نامور لوگ، تمام ثبوت و شواہد کے باوجود کس طرح بچ نکلے، کون کون تھا قاتل کا سہولتکار، آئیے تاریخ پر پڑی دھند ہٹاتے ہیں، نوچتے ہیں نقاب ان چہروں پر جو آج بھی معزز و محترم بنے ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں لیاقت علی خان کے قتل سے پہلے اور قتل کے بعد پاکستان پر کیا گزری، جانتے ہیں علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کس نے چھینی،،، دیکھتے ہیں تحقیقی ڈاکومنٹری پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان قتل: