”میرے اندر کھلبلی مچ گئی۔
عمر کے اس حصے میں‘جب لطیف اور نازک جذبے سرد پڑ جاتے ہیں اور آدمی کے اندر کا بیل تھک کر تھان پر بیٹھا جگالی کر رہا ہوتا ہے۔ اسے ڈچکروں اور ٹھوکروں سے حرکت میں نہیں لایا جاسکتا۔ اسے ہلانے جلانے کے لیے تابڑ توڑ ڈنڈے برسانا پڑتے ہیں۔
اس کی موت کی خبر سن کرمجھے صدمہ ضرور ہوا جیسے بیٹھے بیٹھائے کسی نے ٹھوکر مار دی۔ میں چونکا اور پلٹ کر دیکھنا چاہا مگر میرے سینگوں پر دھرتی کا بوجھ تھا۔“
صاحب‘ منشایاد کی کہانی”سارنگی“ کایہ دلچسپ ٹکڑا عین تمہید میں آپ کواس لیے سنادیا ہے کہ مجھے تیزی سے بدلتے ہوئے سماج کے ساتھ جڑے رہنے کی شدید خواہش رکھنے والے منشایاد کا لگ بھگ اپنے ہر دوسرے افسانے میں ایک عجب دھج سے چونکنا لطف دیتا رہا ہے۔
اسے آگے کا سفر کرنا ہے مگر اُسے بار بار بیک مرر دیکھنا پڑتا ہے۔ یادرہے ”بیک مرر“ اس کا ایک افسانہ ہے اورساتھ ہی ساتھ محبوب استعارہ بھی…… وہ اس بیک مرر میں دیکھتاہے‘ بار بار دیکھتا ہے‘عقب میں تیزی سے معدوم ہوتے منظرنامے کو بھی اور ونڈاسکرین میں سے تیر کی تیزی سے اپنی سمت بڑھتے نامانوس وقت کو بھی۔ جو کچھ جانا پہچانا ہے وہ اس کے اندر بس جاتا ہے اور جو سامنے ہے وہ اس دھرتی جیسا ہوجاتا ہے جسے بیل نے اپنے سینگوں پر اُٹھا رکھا ہے۔
ہم جو ماضی کے ساتھ ایک بامعنی رشتہ رکھنا چاہتے ہیں اور ارضیت کو اپنی سانسوں میں بسائے ہوئے ہیں‘ زمین سے چاہے جتنا اوپر اٹھ جائیں اپنے حصے کی مٹی اپنی مٹھی میں ضرور رکھتے ہیں۔ تو یوں ہے کہ منشایاد کی مٹھی میں جو مٹی ہے وہ جگنو بن کر چمکتی ہے۔ ان سورجوں کی طرح جن کے مقابل آکر نئے عہد کی صارفیت زدہ مجہول حسیت کے چراغ منہ چھپانے لگتے ہیں۔
منشایاد کے افسانوں میں متشکل ہونے والے جس سماج کی میں بات کر رہاہوں اس میں خالص اور پاکیزہ رشتوں میں ایسے ایسے کردار ملتے ہیں جن کا تصور مادیت زدگی نے مشکل بنا دیا ہے اورایسی ایسی فضا ملتی ہے کہ جس کے اندر سے زندگی کی خوشبو کے جھرنے پھوٹ بہتے ہیں۔ مگر کون نہیں جانتا کہ ضرورت‘ پیداواریت اور سرمائے کی افزودگی کی بنیادوں پر اسارے جارہے نئے عہد کے شیش محل کے اندر اس خوشبو کاداخلہ ممنوع ہے۔
مگر…… اُسے تو اِس خوشبو کے ساتھ ہی اس کانچ محل میں داخل ہونا ہے۔
اور منشایاد اس امتناع کو توڑنا چاہتا ہے۔
مجھے ”سارنگی“کا جملہ ایک بار پھر دہرانے دیجئے:
” میں چونکا اور پلٹ کر دیکھنا چاہا مگر میرے سینگوں پر دھرتی کا بوجھ تھا۔“
تو یوں ہے کہ کہ منشایاد نے ہمت کرکے اور نیت باندھ کر کچھ افسانے تو اسی دھرتی کے بارے میں لکھے ہیں جو سینگوں پر بوجھ کی طرح جھول رہی ہے اور بہت سارے افسانے اس مٹی کے بارے میں لکھے ہیں جو خوشبو بن گئی۔ وہ خوشبوجس نے انسان کا وجود بامعنی بنا دیا ہے۔
میں اس دونوں قسم کے افسانوں کی سماجی معنویت کو بھی الگ الگ پہچان سکتا ہوں۔
ایک قسم کے افسانوں کے اندر آدمی اڑیل بیل کی طرح دکھایا گیاہے جسے اس کا مالک آگے کوکھنچتا ہے مگر بیل پیچھے کو زور لگاتا ہے حتی کہ مالک بپھر جاتا ہے۔ اس قبیل کے افسانوں کی ایک عمدہ مثال منشایاد کا ۸ اکتوبر کے سانحے کے حوالے سے لکھا گیا ”آگے خاموشی ہے“ کا نام پانے والاافسانہ ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اس افسانے کا ماسٹر دین محمد اپنے طالب علموں سمیت ملبے کے اندر دب گیا تھا۔ اس کے شاگرد ایک ایک کرکے اس کے سامنے مرتے رہے اور وہ خود جرعہ جرعہ موت لنڈھاتے ہوئے بھی زندہ رہا۔ اور پھر یوں ہوا تھا کہ ہمارے نام نہاددانش وروں کی رکی ہوئی سوچ کے تعفن نے اسے تڑپایا اور ماردیاتھا۔اس کہانی میں منشایاد نے ماسٹر دین محمدکے ہاتھ میں اس کے مرنے سے پہلے جوتا تھمانا چاہا ہے کہ وہ اسے اُن دانش وروں کی سمت اُچھال سکے۔ اورسجھانے کا جتن کیا ہے کہ جمود زدہ متعفن سوچ رکھنے والوں کو جب تک چوٹ نہ لگے وہ اڑیل بیل کی طرح پیچھے ہی کو زور دیتے رہتے ہیں۔
اُس کا فیصلہ ہے کہ آگے نہ دیکھیں تو راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور پلٹ کر دیکھنا بھول جائے توشناخت گم ہو جاتی ہے۔
منشایاد کے افسانوں پربات کرتے ہوئے مجھے خواہش ہونے لگی ہے کہ اسی کی طرح چلتی ہوئی بات کی گاڑی کی ونڈاسکرین سے نظر اٹھا کر بیک مرر میں دیکھوں۔ تو یوں ہے کہ اس بار وہ اڑیل بیل نظر آگیا ہے جس کامالک اُسے آگے کھینچنے سے اُکتا گیا تھااور بپھر کراُس کے کولہوں پر چوٹ لگانا چاہتا تھا۔
دوسری قبیل کے افسانوں کی دنیا ہی کچھ اور ہے الگ سی مگر روح کو سرشار کرنے والی۔ان افسانوں میں فکری دائروں سے کہیں زیادہ زندگی کی تفہیم کی راہیں نکلتی ہیں۔ منشایادنے ”شہر افسانہ“ کی ابتدائی سطور میں لکھا ہے کہ ”سائنسی علوم اورٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ انسان روز بروز مشین میں ڈھلتا جا رہا ہے۔“ مشین میں ڈھلتے مصروف آدمی کا جو ہیولا منشایاد نے بنایا ہے وہ آدمی اپنے بنجراپے سے بولایا ہوا ہے۔ تاہم جب جب وہ اسی گھٹن زدہ ماحول کے مقابل دیہی زندگی کے کشادہ ماحول کو لے کر آیاتو یوں لگا جیسے تاریکی کی لمبی سرنگ کے اندر سے روشنی کی چیخ جادو بنسری کے سر کی طرح برآمد ہوگئی ہے‘ یوں کہ تاریک سرنگ کا دوسرا کنارہ روشن ہو گیا ہے۔
میں اسی روشن کنارے پر منشایاد کے افسانے ”اپنا گھر“ کے میلے کچیلے مگر فرشتوں جیسے اس شخص کو دیکھتا ہوں جس کا دل اپنے بچوں سے ملنے کو چاہا تھاتو اس نے چارہ کاٹنا اور ہل چلانا وہیں موقوف کیا۔ بس پکڑی اور ملنے آگیا تھا۔
جسے میں نے تاریک غار سے شناخت کیا ہے منشایاد کے مرکزی کردار نے اس صورت حال کا نقشہ اسی افسانے کے آغاز میں یوں کھینچا ہے۔
”وہی ہر طرف مداریوں کی طرح چتر چالاک آدمی اور آسمان میں تھگلی لگانے والی تیرہ تالن عورتیں۔
منافقت سے اٹی ہوئی صورتیں ……خود غرضی کے جالے ……سازشوں کی مکڑیاں اور وہی ٹانگیں کھینچنے اور میرے اٹھنے بیٹھنے کی جگہوں پر مرغیوں کی طرح گندگی پھیلاتے احباب۔ وہی ہر روز ایک طرح سو کر اٹھنا اور وہی ستر ستر قدم پیچھے ہٹ کر ایک دوسری سے ٹکریں مارتی دیواریں۔
بھاگم بھاگ دفتر کے لیے تیار ہونا ……وہی میز اور وہی ایک جیسا ناشتہ……وہی دفتر اور وہی انتظار میں بیٹھے ہوئے گدھوں کی طرح افسران بالا کی نظریں۔
وہی فائلیں اور وہی ایک جیسے قے کیے ہوئے لفظوں کے پیٹ بھرنا۔“
تو صاحب!یہ منظر نامہ جو منشایاد نے دکھایا ہے اس نے نئے آدمی کے رنگ ڈھنگ اور چال ڈھال کے بے ڈھنگے پن کوننگا کر دیا ہے۔ آدمی اپنے تہذیبی آہنگ سے نکل چکا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے آدمی کا آدمی سے تعلق سماجی نہیں رہابازاری ہوگیا ہے۔ عقیدے دم توڑنے لگے ہیں‘ عقیدت اور احترام کے قرینے قریہ بدر ہوئے اور اقدار بدل گئی ہیں۔ حقیقت کے معنی اُلجھ گئے اور سچائیGray Areas کا رزق ہو گئی ہے۔ الفاظ ہیں‘ معنی عنقا ہیں۔ جملہ ہے مگر اس کے بطن میں مفہوم کا حمل ٹھہرتا ہی نہیں ہے۔ پریشان نظری ہے‘ فکری انتشار ہے۔شمیم حنفی نے اسے آڈن کے حوالے سے بتایا تھا کہ یہ ”بے چینی“ کا عہد ہے‘ فرانز الیگزنڈر نے اسے ”عدم تعقل“ کا دور کہا مگر یار لوگ تہذیبی اقدار پر شب خون مارنے والے اس عہد کو روشن خیال‘ ترقی یافتہ‘ اور انسانی فلاح کا عہد قرار دینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ منشایاد کے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اس کی گفتگوؤں میں جتنی توجہ یہ بدلا ہوا زمانہ پاتا ہے اس کا تخلیقی وجود عین مین اِس تناسب سے اس تبدیلی کوقبول نہیں کرپاتا‘کہ اپنے افسانوں کوجس سماجی معنویت سے وہ جگمگا رہا ہے اس کا غالب حصہ ارضیت‘ تہذیب اور روایت ہی میں پیوست ہے۔
میں نے کسی اور جگہ لکھا تھا کہ منشایاد کو بیدی کی طرح گرہستن اور خاندان سے جڑی ہوئی عورت پر لکھنا اچھا لگتا ہے اور آج کی نشست میں اس پر یہ اضافہ کرنا ہے کہ اس کا سبب محض اور صرف یہ ہے کہ رشتوں میں جڑی ہوئی عورت ہی اسے سماج کے اندر بامعنی دِکھتی ہے۔ جب کہ رشتوں سے کٹی ہوئی عورت ”شے“ بن جاتی ہے‘ ”صارف“ ہوتی ہے یاپھر محض ”کارآمد/بے کار“ پُرزہ(اور لگ بھگ یہی بات تو مردوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے۔) یہی سبب ہے کہ ان رشتوں کے لیے وہ بہت کچھ قربان کر سکتا ہے حتی کہ اپنا عشق بھی۔ اس باب میں منشایاد کے معروف افسانے ”تیرہواں کھمبا“ کو دھیان میں لائیے اور اس نوبیاہتا جوڑے کو بھی جو ریل کار میں سوار ہو گیا تھا۔ منشایاد نے اپنے قاری کوایک عجب صورت حال سے دوچار کرنے کے لیے اسی منظر نامے میں ایک تیسرے کردارکو بھی موجود رکھا ہے۔ یہ تیسرا شخص نوبیاہتا دلہن کی زندگی میں کبھی اہم رہا ہوگا مگر نئے اور تخلیقی رشتے سے جڑ جانے والی کے لیے (پراناعشق بھولنا مشکل سہی)‘نیا رشتہ اہم ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو اپنی کیمسٹری میں چاہے عشق جتنا اخلاص نہ رکھتا ہو اس کی ایک سماجی معنویت ہوتی ہے۔ تو یوں ہے کہ اس افسانے کے آخر میں منہ زور عشق ہار جاتا اور تخلیقی رشتہ سماجی معنویت سے ہم کنار ہوجاتا ہے۔منشایاد چاہتا تو اس تیسرے آدمی کو ریل سے کود کر خود کشی کی راہ دکھا دیتا‘ نوبیاہتا انجی کی چھاتی سے چیخ برآمد کرکے اس کے عشق کا بھانڈا پھوڑ کر سماجی رشتے میں دراڑیں ڈال سکتا تھا۔ مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔جس گوں کا وہ آدمی ہے اس گوں کا آدمی اپنے کرداروں کو اوچھا نہیں رہنے دیتا انہیں وسیب کا ذمہ دار آدمی بنا دیتا ہے۔سو اس نے منہ زور عشق کو پچھاڑ دیا ہے اور سماج کو ایک تخلیقی رشتے سمیت بچا لیا ہے۔
جی مجھے موقع ملا ہے کہ میں منشایاد کے افسانوں کا نہایت سنجیدگی سے مطالعہ کروں اور اس مطالعے میں محسوس کیا ہے کہ سماجی منظر نامے میں منشایاد کے ہاں تخلیقی رشتے بہت احترام پاتے ہیں۔ ”سزا اور بڑھا دی جائے“ ”سارنگی“اور ”ساجھے کا کھیت“جیسی کہانیوں سے میں صحیح یا غلط اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مادی تعیش کے عہد میں‘ بنتی بگڑی حسیات والے نئے تفریحی آدمی سے کہیں زیادہ اسے تہذیبی اور سماجی آدمی بہت محبوب ہے۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ جس دور میں منشایاد نے شناخت پائی وہ علامت نگاری اور تجرید کا زمانہ تھااور اس عہد کے افسانے میں اس نے سماجی اور تہذیبی علامت کے شعور کے ساتھ جو افسانے لکھے وہ الگ سے مطالعہ کا تقاضہ کرتے ہیں۔تاہم مجھے ان کے حوالے سے یہاں یہ کہنا ہے کہ اگر منشایاد کو سماجی رشتوں میں بندھے آدمی سے محبت نہ ہوتی اور وہ فرد کے محض باطنی آشوب کو ہی کہانی کا وسیلہ بناناچاہتا تو بھی اس ڈھنگ میں اس نے ایسی ایسی کامیاب کہانیاں لکھی ہیں کہ وہ بہت دور تک جا سکتا تھا مگر بہت جلد ادھر سے دامن جھٹک کر الگ ہو گیا۔محض دیہات نگاری بھی اس کا مسئلہ نہیں بن پایا ورنہ وہ بالا دست جاگیردار طبقے کی چیرہ دستیاں دکھا کر اور ہمارے دل دہلا کر بھی مقبول ہو سکتا تھا۔ ذرا تصور باندھیے ”کچی پکی قبریں“ والے کوڈو فقیر کا جس کی نظر کدال پر پڑی تھی توفاتحانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ناچنے لگی تھی۔ پکی قبریں ادھیڑ کران میں اپنے مردے رکھنے والے ایسے جی دار کردار اس کی کہانیوں میں آئے ضرور‘مگر سماجی معنویت کے باب میں اس نے ترقی پسندوں کی طرح اسے طبقاتی مسئلے کے فیتے نہیں لگائے۔ اس کے کردار کہیں بھی اپنی شناخت گم نہیں کرتے پوری کہانی میں یوں رچے بسے ہوتے ہیں جیسے رات کی رانی کے بدن میں اس کی مست کر دینے والی مہک۔میلے ٹھیلے کے رسیا‘ نچلی ذاتوں کے کمی کمین‘ جنس کے مارے ہوئے مرد اور عوتیں‘ اپنوں سے پچھڑے ہوئے مگر ایسے کردار جن کے وجود کی مٹی کو خلوص کے پانیوں سے گوندھا گیا ہوتا ہے۔جو سماج کو جینے کے قابل بنانے کی للک رکھتے ہیں اور اپنے وسیب کی دانش کے امیں ہوتے ہیں۔
یوں تو عصری آگہی اور سیاسی شعور بھی منشایاد کے افسانوں کا ایک قوی حوالہ بنتا ہے”۸۷۹ا کا آخری افسانہ:پناہ“ ”بوکا“ اور”کہانی کی رات“ جیسے اہم افسانے اس باب میں عمدہ مثال ہیں کہ ایسے افسانوں میں منشا یاد نے تاریخ کو مسخ کرنے والے چہروں کو نوچ ڈالا ہے۔ عام آدمی کو مات دینے والے سیاست دانوں کو لتاڑا‘جمہوریت کے حق میں آواز بلند کی اور سامراج کے دروغوں کے منہ پر تھوکا ہے مگرآج کی نشست میں میرا دھیان منشایاد کی اس دھج کی طرف رہا ہے جورواں منظر نامے سے اوب کر اور چونک کر عقب میں دیکھتا اور لمحہ لمحہ مادیت سے مات کھاتے آدمی کے ضمیر پر دستک دیتا رہاہے۔اس نہج سے مطالعے نے مجھے حوصلہ دیا ہے کہ منشایاد کی فکشن کے محبوب سروکاروں میں سماجی رشتوں کی مہک کو بھی قدرے نمایاں جگہ دوں کہ یہ ایسی مہک ہے جو سماج کو بامعنی اور تخلیقی بنا رہی ہے۔
h:f