یہ 16 اکتوبر 1979 کی شام کا زکر ہے صدر جنرل محمد ضیاء الحق. نے قوم سے اپنے نشری خطاب میں نومبر میں ہونے والے عام انتخابات منسوخ کرتے ہوۓ تمام سیاسی سرگرمیوں پر نہ صرف پابندی لگا دی بلکہ ملک بھر میں سنسرشپ بھی عائد کردی.
ان دنوں میں پاکستان پریس انٹرنیشنل پی پی آئی راولپنڈی میں ایک” مشقتی” لیکن پولیٹیکل رپورٹر کے طور پر ملازم تھا. سہ پہر کے وقت تک صحافتی حلقوں میں سن گن یہی تھی کہ سیاسی سرگرمیوں کو محدود کیے جانے کا امکان ہے لہذا تقریر کے فوراً بعد صف اول کے سیاسی رہنماوں کے ردعمل کی فوری رپورٹنگ اس امکان کی روشنی میں کیسے کی جاۓ گی اس پر نیوز روم میں بیٹھے دیگر دو رپورٹر ساتھیوں سے سنجیدہ گپ شپ شروع ہو گئی.
ہر ایک رپورٹر نے تقریر کے ردعمل کے لیے اپنے اپنے متعلقہ افراد کے رابطوں کی فہرست بنائی اور یہ بھی طے ہوا کہ وہاں موجود دو فون کس ترتیب سے استعمال ہونا ہیں. اسی اثناء میں بیورو چیف سعید خان قمر بھی اگیۓ اور کسی “سورس” سے فون پر ممکنہ تقریر کے مسودے کی دستیابی کا پوچھا. جو جواب ملا اس کے باعث وہ چند لمحوں کے لیئے خاموش رہے اور ہمیں کہا تقریر براہ راست نشر ہو گی اور یہ طے کیا کہ بیورو چیف سمیت ہم چاروں تقریر کس طرح رپورٹ کریں گے.تقریر پر ردعمل کیسے رپورٹ کرنا ہے یہ فیصلہ تقریر کے دوران کیا جاۓگا. تقریر کیا تھی بم شیل تھا عام انتخابات منسوخ، سیاسی جماعتوں کو تحلیل کرکے سنسر شپ نافز کر دی گئی۔
ہم چاروں نے صدر کی تقریر سے اپنے اپنے حصے کی “کاپی” لکھی اور وہ ٹیلی پرنٹر سے ہر اخباری ادارے، ریڈیو اور ٹی وی کے نیوز روم تک معمول کے مطابق پہنچی. بطور پولیٹیکل رپورٹر میرا کٹھن امتحان شروع تھا کس انداز سے کالعدم سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کا منفی ردعمل رپورٹ کرنا ہے اور ہماری خبر کو کون سی اتھارٹی سنسر کی چھلنی سے گزارے گی۔
اس ادھیڑ بن میں وقت گزرتا گیا تاہم میں نے بیشتر سیاسی رہنماؤں سے ردعمل حاصل کرکے خبر تیار کرکے اپنے سینرز سے شیر کی اور مجھے کہا گیا کہ انتظار کیا جاۓ جب تک سنسر بارے سرکاری ہدایات نہ آ جائیں.
میں شش وپنج میں مبتلا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی اتنی سخت تقریر کے بعد کل صبح جب پی پی آئی میں چھانٹی ہو گی تو پولیٹیکل رپورٹر کو پہلے نکالا جائے گا کہ سیاسی سرگرمیاں نہیں، سیاسی جماعتیں نہیں، ہم کیوں؟ اس رپورٹر کو رکھیں اسی سوچ بچار اور پریشانی کے عالم میں ایک شعر سرزد ہو گیا۔ ابھی وہ شعر کاغذ پر لکھا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری جانب صدر کے پریس سیکرٹری آئی ایس پی آر کے بریگیڈیئر صدیق سالک تھے جن سے میری یاد اللہ ایک شاعر اور قلمکار کے طور پر بھی تھی۔ مکالمہ ملاحظہ کیجئے:
کیسے ہو جوان، تقریر کیسی تھی کیا ردعمل ہے؟
ایک شاعر اور قلمکار کی انا جاگ اٹھی اور کہا:
اس تقریر پر تو تمام ردعمل منفی ہوتا اور وہ بھی سنسر کی نذر ہو جاتا لہذا کسی سے کیا پوچھتے، کیا جانتے، مجھے تو اپنی جان کے لالے پڑے ہوۓ ہیں صبح نوکری سے فارغ۔
جواب میں ایک لمبی ہوں کی آواز سنائی دی۔ میں نے کہا ایک شاعر کا ردعمل ہے تقریر پر، کہیں تو عرض کروں؟ جواب میں فوجی افسر کے اندر کے ادیب نے کہا ارشاد کیجیے۔
مین نے کاغذ پر لکھی ہوئی تازہ شعری واردات عر ض کی ؎
اس شہر نارسا میں رسائی کا جرم کر
پتوں کی شہ رگوں پہ لکھائی کا جرم کر
شعر سنتے ہی فون کے دوسری جانب سے واہ واہ کیا کمال شعر ہے پھر سناؤ کی آواز نے گوہا مجھ میں برق بھر دیا شعر مکرر ارشاد ہوا کہا گیا ایک بار اور سناؤ پھر پوچھا تمہارا ہی لگتا ہے میں نے موقع غنیمت جانا پسندیدگی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا مزا تو جب ہے کہ یہ شعر جنرل ضیاء الحق کو سنائیں کہ آزادی اظہار کی پابندی پر اہل قلم کی دیگ سے ایک دانے کا فوری ردعمل اس شعر میں ہے. کیا کمال کا شخص تھا ایک ادیب ایک لکھاری، فوجی صدر کی آنکھیں اور کان بریگیڈیئر صدیق سالک انہوں نے جنرل ضیاء الحق کو رات گیۓ نہ صرف وہ شعر سنایا بلکہ دوسرے مصرعے کی تفصیلی تشریح بھی کی. قریباً ڈیرہ بجے رات ان کا پھر فون آیا۔ صرف مجھے یہ کہنے کے لیئے جنرل صاحب کو تمہارا شعر سنا دیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ صبح تمہیں کوئی نوکری سے نکالے گا۔
تو قارئین کرام کیوں نہ میں شکریہ ادا کروں بریگیڈیئر صدیق سالک اور جنرل ضیاء الحق کا جن کی وسعت قلبی سے اردو شاعری کو ایک خوبصورت شعر عطا ہوا جو 30 سال بعد میرے پہلے شعری مجموعے شہر نارسا کا سرنامہ اور میرا شناختی شعر بنا۔