انگریز کے خلاف جنگ آزادی لڑنے والے ہمارے ہیرو تھے یا نہیں؟ یہ سوال نہایت اہم ہے چونکہ 1857 میں جب آزادی کی عظیم جنگ لڑی گئی تو ہمارے اجداد ہندوستان کا حصہ تھے، یہ جنگ کسی ایک مذھب یا فرقے یا قوم کی بہرحال نہیں تھی پورے ہندوستان کی تھی۔ اگر ٹیپو سلطان، نواب سراج الدولہ، حضرت محل، مولوی احمد اللہ ہمارے ہیرو ہو سکتے ہیں تو نانا صاحب پیشوا، تانتیا ٹوپے، منگل پانڈے اور بھگت سنگھ ہمارے ہیرو کیوں نہیں؟ یہ جنگ مسلمانوں، ہندو اور سکھوں کی اپنی جنگ تھی، ہر اس شخص کی جنگ جو ہندوستان میں غاصب انگریز کے خلاف تھا۔ جنگ آزادی آزادی اور قربانی کی لازوال داستان ہے، ہزاروں وطن پرست، لاکھوں بہادروں نے جرات و حریت کی داستان رقم کی۔ میرٹھ سے شروع ہونیوالی تحریک آزادی کا آخری معرکہ جھانسی میں لڑا گیا.
رانی لکشمی بائی جنہیں جھانسی کی رانی کے نام سے پہنچانا جاتا ہے، تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ ہم جھانسی کی رانی کے نام سے تو واقف ہیں مگر ان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے، شاید جنگ آزادی بھی اب بھولا بسرا موضوع بن چکا ہے، ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں نہ صرف جنگجو اور شیر دل رانی کے بارے میں بہت ساری تفصیلات جان سکتے ہیں بلکہ جنگ آزادی کے حوالے سے بھی اہم تاریخی حقائق سامنے لائے گئے ہیں۔ جھانسی کی رانی آزادی پر قربان ہوئیں تو انگریز کے سامنے سے آخری رکاوٹ بھی ہٹ گئی اور پھر غلامی کا 100 سالہ دور، تخت برطانیہ کے ایک اور وائسرائے سر جان لارنس کا کہنا ہے کہ ‘اگر آزادی کیلئے لڑنے والوں کیساتھ بڑے رہنما کھڑے ہو جاتے تو نجات کی کوئی امید نہ تھی، اگر ہندوستانیوں کے پاس منی رائفلز بھی ہوتیں تو دہلی مغلوں کی ملکیت رہتا۔’
جان لارنس شاید یہ لکھنا بھول گئے کہ تخت برطانیہ کی گھنائونی سازشوں کے باعث ننگ ملت غدار انکے ہاتھوں نہ بکتے، سر اور خان بہادر، نواب اور مہاراجے نہ خریدے جاتے تو ہندوستان میں آزادی کے متوالے بغیر ہتھیاروں کے ظالم انگریز کو سمندر ایسا غرق کرتے کہ تخت برطانیہ بھی دہل جاتا۔ آئِیے دیکھتے ہیں جنگ آزادی کا اہم ترین باب، جھانسی کی شیر دل رانی کی داستان: