خواجہ سعد رفیق آج نے لاہور کے جلسے میں ایک بات ایسی کہہ دی ہے جس میں جھگڑے کی کافی گنجائش ہے۔ موجودہ سیاسی بحران کے ضمن میں عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے خواجہ سعد رفیق نے حاضرین سے کہا کہ ہنجابیو، پنجاب کی پگڑی کو داغ نہ لگنے دینا۔ رات کے ڈھلتے ڈھلتے ٹیلی ویژن کے اسکرین اس موضوع پر اظہار خیال سے بھر گئے اور بعض نے یہ یاد دلانا بھی ضروری جانا کہ یہ تو وہی لوگ ہیں جنھوں نے ماضی میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا کر عصبیت کے نام پر پیپلز پارٹی کے مقابلے میں الیکشن جیتا تھا۔
پنجابی عصبیت کے اس الزام سے پہلے حکومت، اس کے سربراہ عمران خان اور تحریک انصاف کے بعض دیگر راہ نما نواز شریف پر قومی مفادات کے خلاف بھارت کے ساتھ سازباز کر کے غداری کا الزام عاید کر چکے ہیں۔ اس حکومت کے ایک نفس ناطقہ شہباز گل تو ہفتے کے روز کئی قدم آگے بڑھ کر یہ انکشاف بھی کر چکے ہیں کہ گزشتہ منگل کو نواز شریف نے جس(امکانی طور پر بھارتی ) شخصیت سے ملاقات کی ہے، حکومت اس سے مکمل طور پر آگاہ ہے۔ انھوں نے پیشین گوئی کی کہ نواز شریف کی بھارت کے ساتھ موجودہ ساز باز کے نتائج آئندہ دس ماہ میں سامنے آجائیں گے۔
آئندہ چند ماہ کے دوران کیا ہوگا، یہ تو دیکھا جائے گا لیکن یہ سر دست سمجھ میں ضرور آرہا ہے کہ مستقبل کا سیاسی نقشہ کیا بن رہا ہے۔ نواز شریف کو غدار قرادیے جانے کے بعد ذرائع ابلاغ پر ان کی تقاریر اور خبروں کی نشر و اشاعت پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔ حکومت کی طرف سے ان پابندیوں اور حزب اختلاف کے کئی راہ نماؤں کی گرفتاری کے خسارے کے ساتھ حزب اختلاف اپنی احتجاجی شروع کرنے جارہی ہے۔ ان اقدامات نے حزب اختلاف کی اس مہم بجائے مشکل بنانے کے آسان کر دیا ہے۔
اندازے ہیں کہ آنے والے دنوں میں حزب اختلاف، خاص طور پر نواز شریف کے خلاف پابندیاں مزید سخت کی جاسکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سرکاری ریگولیشنز کے سامنے جواب دہ میڈیا حزب اختلاف، خاص طور پر نواز شریف کا بلیک آؤٹ کر سکتا ہے لیکن جنرل ضیا الحق کے زمانے تک کے پابند میڈیا میں احتجاجی تحریکوں کا تجربہ رکھنے والے لوگ ابھی ہماری سیاسی صفوں میں موجود ہیں جن کے لیے یہ پابندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں بلکہ ان کے ہاتھ میں ایک طاقت ور ہتھیار دے دیتی ہیں۔ جدید ذرائع ابلاغ یعنی سوشل میڈیا کے زمانے میں یہ ہتھیار ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ کارگر ہو گا۔ پاکستان ڈیموکریٹک کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم )کے نو منتخب سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اسی زمانے کے آدمی ہیں جب کہ قیام پاکستان سے اب تک غداری کی سیاست کا تماشا دیکھنے عوام کو بھی یہ خوب معلوم ہو چکا ہے کہ غداری کے الزامات لگانے کا موسم کب آتا ہے اصل میں غدار ہوتا کون پے۔