مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے مولانا فضل الرحمن سے فون پر دو باربات کی اور انہیں مسلم لیگی اراکین اسمبلی کے استعفوں کے بارے میں مکمل یقین دہانی کرائی ہے اور اس انتہائی قدم اٹھانے کے لیے وقت کا تعین مولانا فضل الرحمٰن کی مشاورت اور صواب دید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان کے قریبی ذرائع کے مطابق میں نواز شریف کی پہلی ٹیلی فون کال پی ڈی ایم کی اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس سے پہلے اور دوسری چند روز پیشتر آئی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے دوست رہنما کے مطابق دوسری کال کے وقت وہ مولانا ہی کے پاس موجود تھے لگ بھگ سات منٹ کی اس کال میں نوازشریف نے اپوزیشن مہم پر کھل کے بات کی اور مستعفی ہونے کا آپشن بھی ڈسکس کیا.
نوازشریف کی انٹری کے بعد شہباز شریف کی “خودساختہ” گرفتاری کی وجہ سمجھ لینی چاہئے کہ انہوں نے دراصل مسلم لیگ ش کے پیچھے سے 180 کا کانٹا مارتے ہوئے آنے والی مسلم لیگ ن کو اوورٹیک کے لئے راستہ دیا ہے شہباز شریف پر بہت دباو تھا جسے انہوں نے نیب کے سلیپنگ روم میں جا کر اتار پھینکا اور گیند بڑے بھائی کی کورٹ میں ڈال دی جو اب مفاہمت کی جگہ مزاحمت کی سیاست کا فیصلہ کر چکے ہیں شہبازشریف کے پیچھے ہوجانے پر اسٹیبلشمنٹ نے بلاول ہاؤس سے رابطے بڑھا دیئے ہیں جن پر متحدہ اپوزیشن کو بھی تشویش ہے۔
بہرحال گیم دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا ہے جس شخص کو ملزم سے مجرم تک کا سفر کروا کر سیاست سے باہر کیا گیا تھا وہ باہر بیٹھ کر اپنی پارٹی کی قیادت کر رہا ہے ایسے میں اگر عمران خان دانت بھینچ رہے ہیں تو کچھ غلط نہیں، انکا سب سے بڑا حریف گیلے لکس کی طرح انکے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہ دیکھتے رہ گئے۔