ابن العربی، تاریخ اسلام و تصوف کا بڑا نام، خوشحال خاندان، والد دربار میں وزیر، صرف ایک ندائے غیبی نے 17 سالہ نوجوان کی زندگی تبدیل کر ڈالی۔ تصوف کی پرپیچ اور کٹھن راہوں کا سفر، علم کی تلاش میں دربدر، غیر معمولی صلاحیت کی بنا پر روحانیت کے مشکل ترین مقامات بہت جلد طے کر لیتے ہیں۔ علم کی پیاس سے مجبور ابن العربی شمالی افریقہ میں مراکش، تیونس، فاس پہنچے، برگزیدہ صوفیا کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ والد کی وفات کے باعث اندلس لوٹنا پڑا، بہنوں کی شادی کا فریضہ اور دیگر فرائض انجام دینے کے بعد خانہ کعبہ کا رخ کیا،،، روحانی اعتبار سے مکہ المکرمہ کا قیام ابن العربی کی سنہری ثابت ہوا، فتوحات مکیہ مکمل ہوئی، خود نوشت میں روحانی تجربات اور تصوف کی پیچیدگیوں کا تذکرہ بھرپور انداز میں ملتا ہے ۔ فتوحات مکیہ میں رقم کرتے ہیں تین بار خضر علیہ السلام سے بھی ملاقات رہی، جن سے تصوف کی اصل معراج یعنی اسرار الہٰیہ کا علم حاصل کیا، فتوحات مکیہ میں حضرت عیسیٰ، حضرت موسیٰ اور نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلمؐ کی رہنمائی کا ذکر بھی شامل ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
حسن بن صباح اور اس کی جنت ۔ معصوم رضوی
مکہ المکرمہ سے ترکی کی جانب روانہ ہوئے، بغداد میں شیخ شہاب الدین عمر بن محمد السہروردی رحمتہ الہ علیہ سے ہوئی، حمص اور حلب میں طویل عرصہ گزارا، تبلیغ و تدریس میں مصروف رہے، یہ سچ ہے کہ عثمانی خاندان کو شیخ الاکبر کی بھرپور سرپرستی حاصل رہی، ارطغرل کی جدوجہد میں ابن العربی کی مدد شامل نہ ہوتی تو شاید عثمانی سلطنت قائم نہ ہو پاتی۔ بڑی بڑی مشکلات میں ابن العربی ارطغرل کی پشت پر موجود رہے، یہ بھی سچ ہے کہ ابن العربی کبھی کسی دربار نہیں گئے بلکہ حکمراں مشکلات میں انکی خانقاہ کا رخ رکتے، ارطغرل کی طرح صلاح الدین ایوبی کا بیٹا اور جانشین بھی ابن العربی کا معتقد رہا۔ ترکی کے شہر قونیہ پہنچے حلقہ تبلیغ و تدریس قائم کیا، صدر الدین قونوی سے ملاقات رہی جو بعد میں سرزمین مشرق میں شیخ اکبر کی تصانیف کے سب اہم مفسر، شارح اور مبلغ ثابت ہوئے، فصوص الحکم پر انکی شرح حرف آخر سمجھی جاتی ہے۔ جدید تحقیق کے مطابق ابن العربی کی کتابوں اور رسائل کی تعداد 846 ہے، انگریزی، فرانسیسی، ہسپانوی، جرمن، اطالوی اور کئی زبانوں میں تراجم موجود، یورپ کی کئی جامعات میں ابن العربی کا فلسفہ آج بھی پڑھایا جاتا ہے۔ ساتھ دی گئی ڈاکومنٹری میں ابن العربی کے کارناموں اور زندگی سے متعلق اہم تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
ابن العربی کی بنیادی پہچان فلسفہ وحدت الوجود ہے، انہیں صرف صوفی کہنا درست نہیں، تفسیر قران، علم حدیث، الہٰیات، اصول فقہ، صرف و نحو، سیرت، صوفیانہ فلسفہ و شاعری، مابعد الطبیعات، نفسیات،،، زندگی کا کون سے شعبہ ہے جو دسترس سے دور رہا ہوں، ابن عربی کو فلسفہ وحدت الوجود کے بانی کے طور پر جانا جاتا ہے، فلسفہ وحدت الوجود تاریخ اسلامی کا بہت بڑا موضوع ہے،،، فلسفہ وحدت الوجود پر آج تک بحث جاری ہے، علما کی عظیم جماعت ابن عربی کی معتقد نظر آتی ہے تو مخالفت بھی اتنی شدید ہے کہ نامی گرامی علما کی جانب سے ابن عربی کو کافر، مرتد اور زندیق تک قرار دیا گیا، خیر یہ بحث ہمارا موضوع نہیں ہے۔ اقبال فکری اختلاف کے باوجود ابن عربی کے معتقد نظر آتے ہیں، فلسفہ عجم میں ابن العربی کا تذکرہ نہایت عقیدت کیساتھ کیا ہے۔ معروف محقق سید حسین نصر کی کتاب ’تھری مسلم سیجیز‘ میں بھی تفصیل کیساتھ ابن العربی کا تذکرہ موجود ہے۔
1240 بمطابق 638 ہجری میں وفات پائی اور جبل قاسیوں کے پہلو میں سپرد خاک کیے گئے۔ سلطان سلیم نے دمشق فتح کیا تو ابن العربی کی پیشگوئی کے عین مطابق پونے تین سو سال بعد انکی گمشدہ قبر ظاہر ہو گئی۔ ابن العربی کی زندگی اور کارناموں کے متعلق مزید جاننے کیلئے تحقیقی ڈاکومنٹری پیش خدمت ہے، براہ کرم اوپر لنک کو کلک کریں۔