اس تحریر کو لکھتے ہوئے قلم پر گرفت نہیں بن پا رہی۔اور حروف جملے نہیں بن پا رہے اور مشکل میں ہو کہ کہاں سے ہووہ باطنی قوت اور شعور بیان لاﺅں کہ غم میں ڈوبے ہوئے دل بے قرار و اضطراب کو قلمی دوام بخش سکوں۔کیوں کہ ٹوٹے دل اور رنجور آنکھوں اور ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے خوابوں کے ساتھ کچھ بھی کرنے کی ہمت ختم اور سکت نا پید ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔آہ عامر بھائی آج دار فانی سے مقام لافانی کی طرف کوچ کر گئے!
یہ بھی پڑھئے:
کرونا وائرس ہم سے گڈو لاری لے گیا
یوں لگ رہا ہے کہ زندگی کی رعنایاں ختم ہوگئی ۔رنگ بے کیف ہو گئے اور حسن و جمال کہیں گم گشتہ ہو گیا،اورقفس ہی اس دنیا کی اصل حقیقت ٹھہری۔ڈاکٹر محمد عامر نسیم بڑے بھائی تھے جنھوں نے والد گرامی کی رحلت کے بعد ہماری تمام فیملی کی سر پستی اور رہنمائی کر کے کبھی بھی پدرانہ شفقت کی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔انتہائی نفیس اور مدبر ہونے کی بنا پر خاندانی معاملات اور مسائل کو نمٹانے کے لیے ہمیشہ حکمت سے کام لیا۔ حقوق العباد اور حقوق اللہ کے بارے میں ہر وقت فکر مند رہتے تھے۔یہاں تک کہ کچھ عزیز جو ہم سے بنا کسی وجہ سے ناراض رہتے تو بھائی جان صلہ رحمی کی خاطر اپنی زوجہ کے ہمراہ ان کے گھروں میں ملنے چلے جایا کرتے تھے۔تا کہ ناراضگی رفع ہو اور سنت نبوی قائم رہے۔غیبت نا پسند کرتے ،جب کبھی کسی کے خلاف بات سنتے تو کہتے “آپ اگر کسی سے اختلاف رکھتے ہیں یا ناراض ہیں تو ان سے مت ملیں، لیکن پیٹھ پیچھے ان کی برائی مت کریں” ۔ 2014ء یں والدہ محترمہ کے ساتھ فریضہ حج ادا کیا تو اپنی آخری سانسوں تک اپنے حج کو نبھانے میں لگے رہے،اور اپنے اندر عاجزی و انکساری لے آئے۔ہمارے خاندان کے لیے وہ اپنی مثال آپ تھے۔جب کبھی کسی بات پر غصہ آتا تو بحث و مباحثہ کرنے کی بجائے محفل سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے اٹھ کر چلے جاتے۔حالانکہ گھر کے سر براہ تھے لیکن کبھی بھی ہم سب چھوٹوں پر حکم صادر نہیں کرتے تھے،اور ہمیشہ ہی درخواستانہ انداز میں کام کرنے کو کہتے۔اسلامی شریعیت کے مطابق جائیداد میں بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق کے حوالے سے فکر مند رہتے اور اس پر واضح نقطہ نظر رکھتے تھے۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ جب میں نے 1997ء میں پہلے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھی تو ایک فرم میں مینیجر تھے۔پہلے ہی سال میں جب سکول کو علاقہ میں بھر پور کامیابی ملی تو میں نے ان سے کہا کہ ملازت چھوڑ کر اپنے تعلیمی ادارے کی باگ ڈور سنبھال لیں۔جس پر وہ جلد راضی نہ ہوئے ،لیکن والدہ کے اسرار پر دوسرے ہی سال میں ادارہ کی سر براہی سنبھال لی،تو وہ میرے مرشد اور میں ان کا مرید بن گیا۔والد اور والدہ کی شعبہ تعلیم سے وابستگی کی بنا پر درس و تدریس کی خوبی انہیں گٹھی میں ملی تھی۔اور یہی وجہ تھی کہ دوران حصول علم بھی وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے کیو نکہ وہ ایک سیلف میڈ انسان تھے۔بعد میں جب اپنے تعلیمی ادارہ کی ذمہ داری سنبھالی تو بھائی جان ایک انتہائی پیشہ ور ماہر تعلیم کی حیثیت سے سامنے آئے۔قریباََ 30سالہ تدریسی کیرئیر کے دوران کثیر جہتی خوبیوں کے بدولت ایک اچھے مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا۔یہی وجہ تھی کہ ایک سے پانچ تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک بنا ڈالا۔وہ اپنے طلباءو طالبات کے ساتھ ہمیشہ ہی مخلص رہے اور ان کے ساتھ استاد کا حقیقی ،روحانی رشتہ استوار کر لیتے۔جو ایک بار ان سے علم حاصل کرنے چلا آتا ،وہ ہمیشہ کے لیے ان کا ہو کر رہ جاتا۔علم کو بانٹنے کے جذبے اور لگن کا یہ عالم تھا کہ خود پڑھائے بنا انہیں سکون میسر نہ آتا۔اور ان کی خواہش ہوتی کہ اپنے اندر چھپا سارا علم بچوں کے قلب اور اذہان میں انڈیل دیں۔یہی وجہ تھی کہ اتنی مصروفیات کے با وجود بھی وہ روزانہ کی بنیاد پر دو اداروں میں لیکچر ضرور لیتے۔اوریہ وہ بنیادی خوبی تھی جو ہزاروں طلباءکو ان کا گرویدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی۔طلباءکو کبھی شاگرد کی حیثیت سے نہ دیکھا نہ کبھی بلایا،بلکہ سٹاف ممبران کے لیے بھی بیٹا بیٹی سے کم الفاظ استعمال نہ کرتے،اور یہ پاک روحانی بندھن کی وجہ تھی کہ اندرون ملک اور دنیا بھر کے ممالک سے سینکڑوں طلباءطالبات نے مجھ سے تعزیت کرتے اور روتے ہوئے کہا”کہ آج ہم یتیم ہو گئے ، ہمارا باپ چلا گیا”۔اور اس سب کے پیچھے انکا نصب العین علم ،عمل اور کردار تھا جس کے ذریعہ انہوں نے ہزاروں اطفال مکتب کی کردار سازی کرتے ہوئے زندگی کے سنہری اور دائمی اصولوں سے متعارف کروایا۔
میرے نزدیک بھائی جان نے اپنے دل میں محبت کے جتنے بھی خانے بنا رکھے تھے کبھی انکو بند نہ کیا کبھی محبت کو مکس نہ کیا اور مجھے ان کے جانے کے بعد علم ہوا کہ ان سے منسلک ہر فرد اپنی مخصوص محبت اور تعلقات کا دعویٰ کر رہا ہے اور میں حیراں ہو کہ کیسے بیک وقت ہزاروں افراد کے ساتھ اس کے حصہ کی محبت اور الفت بانٹی ۔پرائیویٹ سکولز ایسو سی ایشن آف پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریرٹری ہونے کی بنا پر۔
ان کے وصال کے موقع پر کراچی سے خیبر تک ان سے وابسطہ افراد کی آنکھیں اور دل پر نم تھے اور سیکڑوں کالز اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھے محض ایک سے دو بار یا چند ملاقات کرنے ولا بھی اتنا ہی غمگین ہے جتنا کہ ان کے قرب میں سالوں رہنے والا۔وہ ساتھیوں کے ساتھ تجربات ، معلومات اور علم کو بانٹنے میں بہت خوشی محسوس کرتے تھے جب کبھی ملک کے کسی کونے سے کوئی ساتھی رہنمائی یا مشورہ کے لئے فون کرتا تو جب تک وضاحت سے سمجھا نہ لیتے کال بند نہ کرتے چاہے اس پر ایک گھنٹہ ہی نہ لگ جاتا والدہ اکثر ان کو کہتی بیٹا اتنا سر نہ کھپایا کرو اور کسی لمحہ تو فون بند رکھا کرو تو وہ مسکرا دیتے کیونکہ جذبہ خدمت خلق میں وہ کمی پسند نہیں کرتے تھے۔قریبی دوستوں کے لیئے تو وہ محفل جان تھے ان کے بغیر دوست کہیں جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن یہ لفظ اب بے معنی اور بے مقصد لگتا ہے محفل جان کیونکہ محفلیںتو ان کے بعد بھی ہونگی مگر عامر بھائی نہیں ہونگے کیونکہ صاحب یہ نظام زندگانی ہے کہ جو آیا اس نے جا نا ہے اور مقرر وقت پر جانا ہے لیکن خلش اور بے صبری رہ جاتی ہے کہ بہت جلد چلے گئے پر اللہ کی حکمت کے آگے انسان ناتواں اور نا سمجھ ہے ۔
ان کا خلا ساری عمر پورا نہیں ہو گا یہ ایک روایتی جملہ ہے اصل بات یہ کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا اور کوئی کسی جیسا ہو بھی نہیں سکتا میرے خاندان اورانکے تما م احباب کے نزدیک بھائی ایک با وقار اور بھر پور زندگی گذار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے اپنی اولاد کو دینی و دنیاوی اعلی تعلیم سے بحر مند کر نے کے ساتھ ساتھ ہزاروں بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر کے دونوں جہانوں میں سرخرو ہوئے اور انشا للہ ہونگے۔میرے نزدیک عامر بھائی زندہ رہیں گے ہمیشہ ہمارے خاندان ، قریبی رفقا اور ہر اس بچے کے قلب میں جو ان سے تعلیم حاصل کر کے معاشرہ کا کامیاب فرد ٹھہرا اور جب تک انکی دی ہوئی تعلیم کا ایک ایک لفظ صدقہ جاریہ کہ طور پر موجودہ اور آنے والی نسلوں پر اثر کرتا رہے گا ۔عامر بھائی کی رحلت پر ان کے مداح شاعر کی جانب سے لکھی جانے والی نظم کا مقطہ اس کی بڑی عمدگی سے نمائندگی کر رہا ہے۔
مدتوں قدسی رہے گا بستی دل میں مقیم
بھول پائے گا نہ اہل علم عامر نسیم
دعا ہے اللہ ان سمیت وصال فرما جانے والے تمام مسلمانوں کو اپنے جوار رحمت جگہ عطا فرمائے ثم آمین