دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں کی صدا عرصہ پہلے معدوم ہو چکی تھی بالاخر نابغہ روزگار صدا کار طارق عزیز دنیا سے رخصت ہوئے۔ ایک علم دوست، شاعر، ادیب، کالم نگار، براڈ کاسٹر، شعلہ بیاں مقرر، سیاسی کارکن، ہمہ جہت شخصیت مگر ان کی سب سے بڑی پہچان نیلام گھر رہا، جہاں شخصیت کی تمام صفات قوس و قزح بکھیرتی رہیں۔ پروگرام کے آخر میں طارق عزیز کے کھرجدار آواز میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ آج بھی کانوں میں گونجتا ہے، بلاشبہ طارق عزیز سچے اور کھرے پاکستانی تھے۔
نئی نسل شاید اس دور کا ادراک نہ کر سکے، جب خبر و معلومات کا ذریعہ صرف اخبارات اور پی ٹی وی ہوا کرتا تھا، نہ انٹرنیٹ تھا نہ سوشل میڈیا، دنیا اس طرح کوزے میں بند نہ ہوئی تھی۔ کسی بھی چھوٹی سی معلومات کیلئے کتابیں کھنگالنی پڑتی تھیں، اخبارات کی فائل ڈھونڈنی پڑتی تھی یا کسی پڑھے لکھے شخص سے رجوع کرنا ہوتا تھا جب کہیں گوہر مراد ملتا تھا۔ میری نسل کی بچپن کی یادیں کوئز شو نیلام گھر اور طارق عزیز سے جڑی ہوئی ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پی ٹی وی پر ہفتے میں ایک روز نیلام گھر آیا کرتا تھا اور ہم پورے ہفتے گھر میں اسے کھیلا کرتے تھے، سوال، جواب دنیا بھر کی معلومات کا خزانہ جھولی میں ہوتا، خود ساختہ انعامات اور مقابلوں کا سلسلہ جاری رہتا۔ اسی دوران میں نے ایک فائل بنائی، نیلام گھر کے سوالات اور جوابات پر مشتمل خزانہ جمع کرنا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ سالوں جاری رہا۔ ادھر طارق عزیر کا پروگرام شروع ہوا اور نوٹس لینا شروع کر دیئے، نت نئی معلومات، کون سا موضوع تھا جس کا ذکر نہ ہو، بہرحال جلدی جلدی نوٹس لے کر بعد میں اسے ٹھیک سے لکھ کر فائل میں لگانا اور دوست احباب میں اپنی معلومات کی دھاک بٹھانا، دوستوں کے سامنے اپنے آپ کو باخبر ثابت کرنا، دنیا بھر کی معلومات کا چیمپئن بننا، بس ایک مزیدار کھیل ہی تھا۔ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے نیلام گھر شروع ہوتا تو فائل سمیت حاضر رہتا کئی بار ڈانٹ بھی پڑی مگر سلسلہ جاری رہا، اچھی طرح یاد ہے نیلے رنگ کی فائل تھی، طویل عرصہ بوسیدگی کے باوجود سنبھال کر رکھا پھر کہیں ضائع ہو گئی، نیلام ماضی کا قصہ بن گیا، طارق عزیز بھی منظر سے غائب ہو گئے مگر یہ نیلی فائل آج بھی میرے اندر کہیں نہ کہیں کھلی رہتی ہے۔
امام غزالی نے کیا خوب تعریف کی ہے عبادت کی، فرماتے ہیں دکھاوا، عادت اور پھر عبادت، یعنی شروع میں انسان نمائش کیلئے عبادت کرتا ہے، پھر یہ عادت میں شامل ہو جاتی ہے اور کہیں بعد اصل عبادت کا دور شروع ہوتا ہے۔ نیلام گھر نے میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا، یقین جانیں اس وقت قطعی احساس نہ تھا کہ بچوں کا یہ کھیل تربیت کا حصہ بن جائیگا، علم کی جستجو، مطالعہ، شعر و ادب، لفظوں کی نشست و برخاست، تلفظ کی درستگی، پاکستانیت طارق عزیز جانے انجانے یہ سب کچھ مجھے دیتے رہے، بہت کچھ چھلک گیا، تھوڑا بہت ہی سنبھال پایا جو آج بھی میرے پاس ہے۔ شیشے کا گھر، کسوٹی، نیلام گھر اور ایسے متعدد شوز نے معاشرے کو بہت کچھ دیا ہے، شخصیت سازی کیلئے بڑا کردار ادا کیا ہے۔
بلاشبہ وسیع المطالعہ، مدلل اور شیریں گفتگو، قوی حافظے اور زبان و بیان کی صحت، مخصوص و منفرد لب و لہجہ کیساتھ لگ بھگ چالیس سال نیلام گھر پیش کرتے رہے جو اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہے۔ جامع اور پر لطف گفتگو، موقعے کی مناسبت سے اشعار، اقوال اور تاریخی حوالے، گویا میر باقر علی کی داستان ہو کہ وقت بیت جائے اور تشنگی برقرار رہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ بعد میں ہونیوالے ٹی وی شوز کے میزبانوں نے کہیں نہ کہیں، طارق عزیز سے استفادہ حاصل کیا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ اتنی ہشت پہلو شخصیت کا طور اپنانا مشکل ہی نہیں، موجودہ تناظر میں ناممکن ہے۔ طارق عزیزکی سیاست پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں، نظریات پر تنقید کی جا رہی ہے۔ بھائی، کوئی فرشتہ نہیں ہم سب خاکی انسان ہیں، کہیں نہ کہیں کوئی سمجھوتہ، کوئی کجی، خامی ذات کا حصہ ہے۔ آزادی اظہار سبکا حق ہے بہت ممکن ہے تنقید درست بھی ہو مگر مجھے اس سے کوئی غرض نہیں چونکہ میرا اور طارق عزیز کا رشتہ استاد اور شاگرد کا تھا، میں نے نیلام گھر سے بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ جانا، صرف طارق عزیز ہی نہیں اس زمانے میں بڑے شاندار پروگرام ہوا کرتے تھے۔ قریش پور صاحب کا کسوٹی، ضیا محی الدین شو اور دیگر، یہ پروگرام کہیں نہ کہیں شخصیت سازی اور معاشرے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے تھے۔ یہ مہذب، نفیس اور علم دوست اصحاب ہر گھر کا حصہ ہوا کرتے تھے، خیر زمانہ بدل گیا، معیار تبدیل ہو گئے، اخلاقی اقدار تہہ و بالا ہو گئیں، سو معاشرے میں اب ایسے کرداروں کی کوئی اہمیت اور ضرورت بھی نہیں ہے۔
سب کو جانا ہے سو طارق عزیز بھی بھرپور زندگی گزار کر چلے گئے، مگر جانے کیوں لگتا ہے کہ اندر کوئی مر گیا، شاید وہ ہمزاد تھا۔