Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔یہ مانوس آواز پاکستان کے بچے بچے کو اپنا گرویدہ کیے ہوئی تھی۔تین عہد کی نسلوں نے نیلام گھر،طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز دیکھا ہے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936کو جالندھر مشرقی پنجاب میں عبدالعزیز پاکستانی کے گھر پیدا ہوئے۔ان کے والد پاکستان بننے سے پہلے ہی پاکستان سے محبت کی بنا پر پاکستانی کہلاتے تھے۔ پاکستان سے محبت والد سے ہی طارق عزیز کو منقل ہوئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد ان کا گھرانہ منٹگمری موجودہ ساہیوال آکر آباد ہوا۔ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کی ۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ حاصل کر لیا۔
لاہور میں آکر انھیں ادبی سنگت نصیب ہوئی جو انھیں ریڈیو پاکستان لے آئی۔
شروع میں وہ ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز ریڈر کام کرتے رہے اور پنجابی زبان میں خبریں پڑھتے تھے۔شروع کے دن بہت کٹھن تھے وہ خود بتاتے تھے کہ ڈاکٹر مہدی حسن اور میں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور ماہوار کرایہ پر رہائش پزیر تھے جہاں بعض دفعہ کرایہ نہ اداکرنے کی وجہ سے فٹ پاتھوں پہ بھی سونا پڑا۔
26 نومبر 1964کو پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا اور اس کی پہلی نشریات کی میزبانی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔اس طرح پی ٹی وی پہ پہلی تصویر اور آواز ان کی آئی۔یہ منفرد اعزاز صرف انھی کو حاصل ہے۔انھوں نے 1975 میں ٹی وی پہ پہلا معلوماتی اور تفریحی پروگرام نیلام گھر شروع کیا جس نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس طرح سے پاکستان میں سٹیج شو شروع کرنے کا اعزاز بھی انھی کے پاس ہے۔
نیلام گھر کی تیاری اور اس کے لئے انعامات کا انتظام بھی وہ خود کرتے تھے جو جہدوجہد کی ایک عظیم داستان ہے۔
1970میں وہ بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر عملی سیاست کرتے رہے۔بھٹو صاحب کے جلسوں میں بطور سٹیج سیکریٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔1974 میں مولانا بھاشانی کی مشہور کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی شریک ہوئے۔جس کی وجہ سے انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک انقلابی جدوجہد رکھنے والے انسان تھے۔
اسی دوران انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری شروع کردی۔استاد دامن سے انھیں بے حد عقیدت تھی۔منیر نیازی سے بھی انھیں بے انتہا عشق تھا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ہمزاد دا دکھ کے نام سے 1981 میں شائع ہوا۔
وہ کچھ عرصہ کالم نگاری سے بھی وابستہ رہے۔ان کے کالم کا نام داستان تھا۔ان کا کالموں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔
اسی دوران وہ فلم نگری سے بھی وابستہ رہے مگر جلد ہی واپس لوٹ آئے۔انھوں نے “سالگرہ ،انسانیت،چراغ کہاں روشنی کہاں اور قسم اس وقت کی ،جیسی شاندار فلموں میں کردار ادا کیے۔
’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو ’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
انھیں خدا نے ایک اعلیٰ دماغ اور شاندار حافظے سے نوازا تھا۔انھیں ہزاروں شعر ازبر تھے۔ان کے شوز میں موجود مقابلہ بیت بازی کا پروگرام ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کی غمازی کرتا ہے۔ان کے گھر میں موجود وسیع وعریض لائبریری ان کے علمی و ادبی ذوق کی شہادت دیتی ہے۔
طویل عرصہ انھوں نے شادی نہ کی بالآخر جنرل ضیاالحق کے کہنے پر مہمند قبیلہ کی ڈاکٹر حاجرہ سے شادی کی۔ان کے بقول مہمند قبیلہ کی وہ پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں۔ان کی بیگم قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔اس سوال پہ وہ ہمیشہ مسکرا کر اطمینان بھرا جواب دیتے کہ دنیا میں قدرت نے طارق عزیز کا نام طارق عزیز سے ہی روشن رکھنا ہے۔اولاد کی محرومی پہ کبھی گلہ یا شکوہ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔
پیپلز پارٹی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے اسے خیر آباد کہہ دیا اور پھر اپنے دیرینہ دوست میاں منیر کے کہنے پہ پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔۱۹۹۷ کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور ممبر نیشنل اسمبلی بنے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ان کے مد مقابل موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان تھے۔
دنیا ٹی وی کے پروگرام مذاق رات میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی لیڈر ہو سکتا ہے تو وہ وہ ہے جسے میں نے الیکشن میں شکست دی تھی۔
۱۹۹۹ کا سال ان کی زندگی کا تلخ ترین سال ہے کہ سپریم کورٹ پہ حملہ کرنے والے افراد میں ان کا نام بھی شامل تھا اور بعد ازاں انھیں تین ماہ جیل کی سزا ہوئی۔اس واقعے کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ۔اور باقی عمر ٹی وی پہ اپنا پروگرام جو اب بزم طارق عزیز تھا،کرتے رہے۔
ان کا پروگرام نیلام گھر پاکستان سے باہر بھی بے حد مقبول تھا ۔اس کے کئی پروگرام دبئی،اوسلو،لندن اور امریکہ میں بھی ہوئے۔
ان کا پروگرام اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ لوگ اپنی مصروفیت ترک کر دیتے۔ان کا پروگرام فیمیلیز بڑے شوق سے دیکھتی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان کا پروگرام لمبے عرصے تک چلنے والا تھا جو کم و بیش چالیس سال سے زیادہ عرصہ چلا۔
وہ بہت چاق و چوبند نظر آتے تھے۔اپنے شو میں سوال پوچھتے ہوئے وہ نہایت مستعدی سے سیڑھیاں پھلانگتے چلے جاتے تھے۔یہ خاص انداز انہی کو جچتا تھا۔
17جون 2020 کو وہ لاہور میں انتقال کر گئے۔وہ چھ دہائیوں تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے اور پاکستان کا ہر شخص ان کی وفات پہ غمزدہ ہے۔پاکستان ٹیلی ویژن کا وہ ایک روشن باب تھے۔
وہ اپنی سوانح حیات لکھ رہے تھے جس کا نام “فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک” ہے جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔
پاکستان سے محبت ان کے خمیر میں تھی۔جس کا اظہار وہ اپنے پروگرام کے اختتامیہ میں ایک زور دار نعرے سے کرتے تھے۔
پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔یہ مانوس آواز پاکستان کے بچے بچے کو اپنا گرویدہ کیے ہوئی تھی۔تین عہد کی نسلوں نے نیلام گھر،طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز دیکھا ہے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936کو جالندھر مشرقی پنجاب میں عبدالعزیز پاکستانی کے گھر پیدا ہوئے۔ان کے والد پاکستان بننے سے پہلے ہی پاکستان سے محبت کی بنا پر پاکستانی کہلاتے تھے۔ پاکستان سے محبت والد سے ہی طارق عزیز کو منقل ہوئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد ان کا گھرانہ منٹگمری موجودہ ساہیوال آکر آباد ہوا۔ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کی ۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ حاصل کر لیا۔
لاہور میں آکر انھیں ادبی سنگت نصیب ہوئی جو انھیں ریڈیو پاکستان لے آئی۔
شروع میں وہ ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز ریڈر کام کرتے رہے اور پنجابی زبان میں خبریں پڑھتے تھے۔شروع کے دن بہت کٹھن تھے وہ خود بتاتے تھے کہ ڈاکٹر مہدی حسن اور میں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور ماہوار کرایہ پر رہائش پزیر تھے جہاں بعض دفعہ کرایہ نہ اداکرنے کی وجہ سے فٹ پاتھوں پہ بھی سونا پڑا۔
26 نومبر 1964کو پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا اور اس کی پہلی نشریات کی میزبانی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔اس طرح پی ٹی وی پہ پہلی تصویر اور آواز ان کی آئی۔یہ منفرد اعزاز صرف انھی کو حاصل ہے۔انھوں نے 1975 میں ٹی وی پہ پہلا معلوماتی اور تفریحی پروگرام نیلام گھر شروع کیا جس نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس طرح سے پاکستان میں سٹیج شو شروع کرنے کا اعزاز بھی انھی کے پاس ہے۔
نیلام گھر کی تیاری اور اس کے لئے انعامات کا انتظام بھی وہ خود کرتے تھے جو جہدوجہد کی ایک عظیم داستان ہے۔
1970میں وہ بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر عملی سیاست کرتے رہے۔بھٹو صاحب کے جلسوں میں بطور سٹیج سیکریٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔1974 میں مولانا بھاشانی کی مشہور کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی شریک ہوئے۔جس کی وجہ سے انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک انقلابی جدوجہد رکھنے والے انسان تھے۔
اسی دوران انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری شروع کردی۔استاد دامن سے انھیں بے حد عقیدت تھی۔منیر نیازی سے بھی انھیں بے انتہا عشق تھا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ہمزاد دا دکھ کے نام سے 1981 میں شائع ہوا۔
وہ کچھ عرصہ کالم نگاری سے بھی وابستہ رہے۔ان کے کالم کا نام داستان تھا۔ان کا کالموں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔
اسی دوران وہ فلم نگری سے بھی وابستہ رہے مگر جلد ہی واپس لوٹ آئے۔انھوں نے “سالگرہ ،انسانیت،چراغ کہاں روشنی کہاں اور قسم اس وقت کی ،جیسی شاندار فلموں میں کردار ادا کیے۔
’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو ’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
انھیں خدا نے ایک اعلیٰ دماغ اور شاندار حافظے سے نوازا تھا۔انھیں ہزاروں شعر ازبر تھے۔ان کے شوز میں موجود مقابلہ بیت بازی کا پروگرام ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کی غمازی کرتا ہے۔ان کے گھر میں موجود وسیع وعریض لائبریری ان کے علمی و ادبی ذوق کی شہادت دیتی ہے۔
طویل عرصہ انھوں نے شادی نہ کی بالآخر جنرل ضیاالحق کے کہنے پر مہمند قبیلہ کی ڈاکٹر حاجرہ سے شادی کی۔ان کے بقول مہمند قبیلہ کی وہ پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں۔ان کی بیگم قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔اس سوال پہ وہ ہمیشہ مسکرا کر اطمینان بھرا جواب دیتے کہ دنیا میں قدرت نے طارق عزیز کا نام طارق عزیز سے ہی روشن رکھنا ہے۔اولاد کی محرومی پہ کبھی گلہ یا شکوہ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔
پیپلز پارٹی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے اسے خیر آباد کہہ دیا اور پھر اپنے دیرینہ دوست میاں منیر کے کہنے پہ پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔۱۹۹۷ کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور ممبر نیشنل اسمبلی بنے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ان کے مد مقابل موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان تھے۔
دنیا ٹی وی کے پروگرام مذاق رات میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی لیڈر ہو سکتا ہے تو وہ وہ ہے جسے میں نے الیکشن میں شکست دی تھی۔
۱۹۹۹ کا سال ان کی زندگی کا تلخ ترین سال ہے کہ سپریم کورٹ پہ حملہ کرنے والے افراد میں ان کا نام بھی شامل تھا اور بعد ازاں انھیں تین ماہ جیل کی سزا ہوئی۔اس واقعے کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ۔اور باقی عمر ٹی وی پہ اپنا پروگرام جو اب بزم طارق عزیز تھا،کرتے رہے۔
ان کا پروگرام نیلام گھر پاکستان سے باہر بھی بے حد مقبول تھا ۔اس کے کئی پروگرام دبئی،اوسلو،لندن اور امریکہ میں بھی ہوئے۔
ان کا پروگرام اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ لوگ اپنی مصروفیت ترک کر دیتے۔ان کا پروگرام فیمیلیز بڑے شوق سے دیکھتی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان کا پروگرام لمبے عرصے تک چلنے والا تھا جو کم و بیش چالیس سال سے زیادہ عرصہ چلا۔
وہ بہت چاق و چوبند نظر آتے تھے۔اپنے شو میں سوال پوچھتے ہوئے وہ نہایت مستعدی سے سیڑھیاں پھلانگتے چلے جاتے تھے۔یہ خاص انداز انہی کو جچتا تھا۔
17جون 2020 کو وہ لاہور میں انتقال کر گئے۔وہ چھ دہائیوں تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے اور پاکستان کا ہر شخص ان کی وفات پہ غمزدہ ہے۔پاکستان ٹیلی ویژن کا وہ ایک روشن باب تھے۔
وہ اپنی سوانح حیات لکھ رہے تھے جس کا نام “فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک” ہے جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔
پاکستان سے محبت ان کے خمیر میں تھی۔جس کا اظہار وہ اپنے پروگرام کے اختتامیہ میں ایک زور دار نعرے سے کرتے تھے۔
پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔یہ مانوس آواز پاکستان کے بچے بچے کو اپنا گرویدہ کیے ہوئی تھی۔تین عہد کی نسلوں نے نیلام گھر،طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز دیکھا ہے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936کو جالندھر مشرقی پنجاب میں عبدالعزیز پاکستانی کے گھر پیدا ہوئے۔ان کے والد پاکستان بننے سے پہلے ہی پاکستان سے محبت کی بنا پر پاکستانی کہلاتے تھے۔ پاکستان سے محبت والد سے ہی طارق عزیز کو منقل ہوئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد ان کا گھرانہ منٹگمری موجودہ ساہیوال آکر آباد ہوا۔ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کی ۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ حاصل کر لیا۔
لاہور میں آکر انھیں ادبی سنگت نصیب ہوئی جو انھیں ریڈیو پاکستان لے آئی۔
شروع میں وہ ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز ریڈر کام کرتے رہے اور پنجابی زبان میں خبریں پڑھتے تھے۔شروع کے دن بہت کٹھن تھے وہ خود بتاتے تھے کہ ڈاکٹر مہدی حسن اور میں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور ماہوار کرایہ پر رہائش پزیر تھے جہاں بعض دفعہ کرایہ نہ اداکرنے کی وجہ سے فٹ پاتھوں پہ بھی سونا پڑا۔
26 نومبر 1964کو پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا اور اس کی پہلی نشریات کی میزبانی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔اس طرح پی ٹی وی پہ پہلی تصویر اور آواز ان کی آئی۔یہ منفرد اعزاز صرف انھی کو حاصل ہے۔انھوں نے 1975 میں ٹی وی پہ پہلا معلوماتی اور تفریحی پروگرام نیلام گھر شروع کیا جس نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس طرح سے پاکستان میں سٹیج شو شروع کرنے کا اعزاز بھی انھی کے پاس ہے۔
نیلام گھر کی تیاری اور اس کے لئے انعامات کا انتظام بھی وہ خود کرتے تھے جو جہدوجہد کی ایک عظیم داستان ہے۔
1970میں وہ بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر عملی سیاست کرتے رہے۔بھٹو صاحب کے جلسوں میں بطور سٹیج سیکریٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔1974 میں مولانا بھاشانی کی مشہور کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی شریک ہوئے۔جس کی وجہ سے انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک انقلابی جدوجہد رکھنے والے انسان تھے۔
اسی دوران انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری شروع کردی۔استاد دامن سے انھیں بے حد عقیدت تھی۔منیر نیازی سے بھی انھیں بے انتہا عشق تھا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ہمزاد دا دکھ کے نام سے 1981 میں شائع ہوا۔
وہ کچھ عرصہ کالم نگاری سے بھی وابستہ رہے۔ان کے کالم کا نام داستان تھا۔ان کا کالموں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔
اسی دوران وہ فلم نگری سے بھی وابستہ رہے مگر جلد ہی واپس لوٹ آئے۔انھوں نے “سالگرہ ،انسانیت،چراغ کہاں روشنی کہاں اور قسم اس وقت کی ،جیسی شاندار فلموں میں کردار ادا کیے۔
’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو ’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
انھیں خدا نے ایک اعلیٰ دماغ اور شاندار حافظے سے نوازا تھا۔انھیں ہزاروں شعر ازبر تھے۔ان کے شوز میں موجود مقابلہ بیت بازی کا پروگرام ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کی غمازی کرتا ہے۔ان کے گھر میں موجود وسیع وعریض لائبریری ان کے علمی و ادبی ذوق کی شہادت دیتی ہے۔
طویل عرصہ انھوں نے شادی نہ کی بالآخر جنرل ضیاالحق کے کہنے پر مہمند قبیلہ کی ڈاکٹر حاجرہ سے شادی کی۔ان کے بقول مہمند قبیلہ کی وہ پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں۔ان کی بیگم قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔اس سوال پہ وہ ہمیشہ مسکرا کر اطمینان بھرا جواب دیتے کہ دنیا میں قدرت نے طارق عزیز کا نام طارق عزیز سے ہی روشن رکھنا ہے۔اولاد کی محرومی پہ کبھی گلہ یا شکوہ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔
پیپلز پارٹی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے اسے خیر آباد کہہ دیا اور پھر اپنے دیرینہ دوست میاں منیر کے کہنے پہ پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔۱۹۹۷ کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور ممبر نیشنل اسمبلی بنے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ان کے مد مقابل موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان تھے۔
دنیا ٹی وی کے پروگرام مذاق رات میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی لیڈر ہو سکتا ہے تو وہ وہ ہے جسے میں نے الیکشن میں شکست دی تھی۔
۱۹۹۹ کا سال ان کی زندگی کا تلخ ترین سال ہے کہ سپریم کورٹ پہ حملہ کرنے والے افراد میں ان کا نام بھی شامل تھا اور بعد ازاں انھیں تین ماہ جیل کی سزا ہوئی۔اس واقعے کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ۔اور باقی عمر ٹی وی پہ اپنا پروگرام جو اب بزم طارق عزیز تھا،کرتے رہے۔
ان کا پروگرام نیلام گھر پاکستان سے باہر بھی بے حد مقبول تھا ۔اس کے کئی پروگرام دبئی،اوسلو،لندن اور امریکہ میں بھی ہوئے۔
ان کا پروگرام اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ لوگ اپنی مصروفیت ترک کر دیتے۔ان کا پروگرام فیمیلیز بڑے شوق سے دیکھتی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان کا پروگرام لمبے عرصے تک چلنے والا تھا جو کم و بیش چالیس سال سے زیادہ عرصہ چلا۔
وہ بہت چاق و چوبند نظر آتے تھے۔اپنے شو میں سوال پوچھتے ہوئے وہ نہایت مستعدی سے سیڑھیاں پھلانگتے چلے جاتے تھے۔یہ خاص انداز انہی کو جچتا تھا۔
17جون 2020 کو وہ لاہور میں انتقال کر گئے۔وہ چھ دہائیوں تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے اور پاکستان کا ہر شخص ان کی وفات پہ غمزدہ ہے۔پاکستان ٹیلی ویژن کا وہ ایک روشن باب تھے۔
وہ اپنی سوانح حیات لکھ رہے تھے جس کا نام “فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک” ہے جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔
پاکستان سے محبت ان کے خمیر میں تھی۔جس کا اظہار وہ اپنے پروگرام کے اختتامیہ میں ایک زور دار نعرے سے کرتے تھے۔
پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد
ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام پہنچے۔یہ مانوس آواز پاکستان کے بچے بچے کو اپنا گرویدہ کیے ہوئی تھی۔تین عہد کی نسلوں نے نیلام گھر،طارق عزیز شو اور بزم طارق عزیز دیکھا ہے۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936کو جالندھر مشرقی پنجاب میں عبدالعزیز پاکستانی کے گھر پیدا ہوئے۔ان کے والد پاکستان بننے سے پہلے ہی پاکستان سے محبت کی بنا پر پاکستانی کہلاتے تھے۔ پاکستان سے محبت والد سے ہی طارق عزیز کو منقل ہوئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد ان کا گھرانہ منٹگمری موجودہ ساہیوال آکر آباد ہوا۔ابتدائی تعلیم ساہیوال سے حاصل کی ۔بعد ازاں گورنمنٹ کالج ساہیوال سے بی اے کیا اور اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے اردو میں داخلہ حاصل کر لیا۔
لاہور میں آکر انھیں ادبی سنگت نصیب ہوئی جو انھیں ریڈیو پاکستان لے آئی۔
شروع میں وہ ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز ریڈر کام کرتے رہے اور پنجابی زبان میں خبریں پڑھتے تھے۔شروع کے دن بہت کٹھن تھے وہ خود بتاتے تھے کہ ڈاکٹر مہدی حسن اور میں اندرون بھاٹی گیٹ لاہور ماہوار کرایہ پر رہائش پزیر تھے جہاں بعض دفعہ کرایہ نہ اداکرنے کی وجہ سے فٹ پاتھوں پہ بھی سونا پڑا۔
26 نومبر 1964کو پاکستان ٹیلی ویژن کا آغاز ہوا اور اس کی پہلی نشریات کی میزبانی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔اس طرح پی ٹی وی پہ پہلی تصویر اور آواز ان کی آئی۔یہ منفرد اعزاز صرف انھی کو حاصل ہے۔انھوں نے 1975 میں ٹی وی پہ پہلا معلوماتی اور تفریحی پروگرام نیلام گھر شروع کیا جس نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اس طرح سے پاکستان میں سٹیج شو شروع کرنے کا اعزاز بھی انھی کے پاس ہے۔
نیلام گھر کی تیاری اور اس کے لئے انعامات کا انتظام بھی وہ خود کرتے تھے جو جہدوجہد کی ایک عظیم داستان ہے۔
1970میں وہ بھٹو صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو کر عملی سیاست کرتے رہے۔بھٹو صاحب کے جلسوں میں بطور سٹیج سیکریٹری خدمات سرانجام دیتے رہے۔1974 میں مولانا بھاشانی کی مشہور کسان کانفرنس ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی شریک ہوئے۔جس کی وجہ سے انھیں اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک انقلابی جدوجہد رکھنے والے انسان تھے۔
اسی دوران انھوں نے پنجابی زبان میں شاعری شروع کردی۔استاد دامن سے انھیں بے حد عقیدت تھی۔منیر نیازی سے بھی انھیں بے انتہا عشق تھا۔ان کا پہلا شعری مجموعہ ہمزاد دا دکھ کے نام سے 1981 میں شائع ہوا۔
وہ کچھ عرصہ کالم نگاری سے بھی وابستہ رہے۔ان کے کالم کا نام داستان تھا۔ان کا کالموں کا مجموعہ چھپ چکا ہے۔
اسی دوران وہ فلم نگری سے بھی وابستہ رہے مگر جلد ہی واپس لوٹ آئے۔انھوں نے “سالگرہ ،انسانیت،چراغ کہاں روشنی کہاں اور قسم اس وقت کی ،جیسی شاندار فلموں میں کردار ادا کیے۔
’’سالگرہ‘‘ 1969 میں ریلیز ہوئی جو ’’میری زندگی ہے نغمہ، میری زندگی ترانہ‘‘ اور ’’لے آئی پھر کہاں پر، قسمت ہمیں کہاں سے‘‘ جیسے لازوال فلمی نغموں کی وجہ سے آج بھی مشہور ہے۔ اس فلم میں جناب طارق عزیز نے جج کا کردار بڑی خوبی سے ادا کیا تھا۔
انھیں خدا نے ایک اعلیٰ دماغ اور شاندار حافظے سے نوازا تھا۔انھیں ہزاروں شعر ازبر تھے۔ان کے شوز میں موجود مقابلہ بیت بازی کا پروگرام ان کے اعلیٰ ادبی ذوق کی غمازی کرتا ہے۔ان کے گھر میں موجود وسیع وعریض لائبریری ان کے علمی و ادبی ذوق کی شہادت دیتی ہے۔
طویل عرصہ انھوں نے شادی نہ کی بالآخر جنرل ضیاالحق کے کہنے پر مہمند قبیلہ کی ڈاکٹر حاجرہ سے شادی کی۔ان کے بقول مہمند قبیلہ کی وہ پہلی خاتون ڈاکٹر ہیں۔ان کی بیگم قومی اسمبلی کی ممبر بھی رہ چکی ہیں۔
ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔اس سوال پہ وہ ہمیشہ مسکرا کر اطمینان بھرا جواب دیتے کہ دنیا میں قدرت نے طارق عزیز کا نام طارق عزیز سے ہی روشن رکھنا ہے۔اولاد کی محرومی پہ کبھی گلہ یا شکوہ ان کی زبان سے نہیں نکلا۔
پیپلز پارٹی سے نظریاتی اختلاف کرتے ہوئے اسے خیر آباد کہہ دیا اور پھر اپنے دیرینہ دوست میاں منیر کے کہنے پہ پاکستان مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔۱۹۹۷ کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کی نشست سے الیکشن لڑا اور ممبر نیشنل اسمبلی بنے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں ان کے مد مقابل موجودہ وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان تھے۔
دنیا ٹی وی کے پروگرام مذاق رات میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ موجودہ دور میں اگر کوئی لیڈر ہو سکتا ہے تو وہ وہ ہے جسے میں نے الیکشن میں شکست دی تھی۔
۱۹۹۹ کا سال ان کی زندگی کا تلخ ترین سال ہے کہ سپریم کورٹ پہ حملہ کرنے والے افراد میں ان کا نام بھی شامل تھا اور بعد ازاں انھیں تین ماہ جیل کی سزا ہوئی۔اس واقعے کے بعد انھوں نے عملی سیاست کو خیر آباد کہہ دیا ۔اور باقی عمر ٹی وی پہ اپنا پروگرام جو اب بزم طارق عزیز تھا،کرتے رہے۔
ان کا پروگرام نیلام گھر پاکستان سے باہر بھی بے حد مقبول تھا ۔اس کے کئی پروگرام دبئی،اوسلو،لندن اور امریکہ میں بھی ہوئے۔
ان کا پروگرام اتنا مشہور ہو گیا تھا کہ لوگ اپنی مصروفیت ترک کر دیتے۔ان کا پروگرام فیمیلیز بڑے شوق سے دیکھتی تھیں۔پاکستان کی تاریخ میں ان کا پروگرام لمبے عرصے تک چلنے والا تھا جو کم و بیش چالیس سال سے زیادہ عرصہ چلا۔
وہ بہت چاق و چوبند نظر آتے تھے۔اپنے شو میں سوال پوچھتے ہوئے وہ نہایت مستعدی سے سیڑھیاں پھلانگتے چلے جاتے تھے۔یہ خاص انداز انہی کو جچتا تھا۔
17جون 2020 کو وہ لاہور میں انتقال کر گئے۔وہ چھ دہائیوں تک پی ٹی وی سے وابستہ رہے اور پاکستان کا ہر شخص ان کی وفات پہ غمزدہ ہے۔پاکستان ٹیلی ویژن کا وہ ایک روشن باب تھے۔
وہ اپنی سوانح حیات لکھ رہے تھے جس کا نام “فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک” ہے جو ابھی شائع ہونا باقی ہے۔
پاکستان سے محبت ان کے خمیر میں تھی۔جس کا اظہار وہ اپنے پروگرام کے اختتامیہ میں ایک زور دار نعرے سے کرتے تھے۔
پاکستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندہ باد