ایک سہانی صبح نے تو دستک دی، سور ج پوری آب و تاب سے طلوع ہوا لیکن میرے ساتھ چمٹے اندھیروں کو پھر بھی منور نہ کرسکا‘ میرے لیے تو اب دن ہو یا رات سب ایک جیسے ہو کر رہ گئے ہیں۔ لگتا یہی ہے کہ زندگی کی ساری رونقیں اور ساری بہاریں خزاں کا روپ دھا ر کر میرے دل کے آنگن میں آدھمکی ہیں۔ سوکھے بنجر زدہ ماحول میں کہیں بھی حد نگاہ کیا دور دور تک صحر ا کا کوئی نام و نشان نہیں۔کیا دن تھے وہ جب ہر ذرائع ابلاغ مجھ پر ’عاشق‘ ہوتا۔ارض ’فردوس‘ کی چہچاتی ہوئی چڑیا کی طرح میں چہکتی اور ہر کوئی بس سنتا ہی جاتا ہے‘ ہر ُسو بس میں ہی میں۔لفظوں کی بازی گری کا ایسا جال مخالفوں پر پھینکتی رہی کہ وہ اس میں الجھ کر تلمائے بغیر نہ رہتے۔’صاحِب‘ کو خوش رکھنے کے لیے میرے الفاظ ان کے کانوں میں جیسے رس گھول رہے ہوتے۔پھر مخالفوں کو ان کی ہی زبان میں بھپتی کسنے کا فن بھی مجھے خوب آتا تھا۔
مانا کہ اس راہ گزر پر کئی میرے اپنوں نے کانٹے بھی بچھائے لیکن میں سنبھل سنبھل کر بچ بچاکر ان سے آگے بڑھتی ہی چلی گئی۔ اور کیوں نہ بڑھتی مجھے ایک وسیع تجربہ ہے ان خاردار راہوں پر چلنے کا۔
ہائے میرے وہ فیشن سے آراستہ ملبوسات کیسے الماری کھولنے پر مجھے منہ چڑھاتے ہیں، جن کو میں زیب تن کرکے روز کسی نہ کسی محفل کی جان بن جاتی۔آگے پیچھے گاڑیاں ہوتیں، سائرن بجاتی اور لوگوں کو ہٹاتی، کیمروں کی فلیش جگمگاتے تو یقین جانیں کسی ہیروئن کا گمان ہوتا‘ جہاں جاتی،بھلا کون سا ایسا چینل نہ ہوتا کہ جو میری تقریروں کو نشر کرنے میں دیر نہ لگاتا۔ روز شام ڈھلے حکومتی کارناموں کے ترانے کبھی تنہا تو کبھی ہمنوا کے سنگ‘ گا رہی ہوتی تو احساس یہی ہوتا کہ ہم سو ہو تو سامنے آئے۔۔ میری مہارت تو ہر شعبے میں عیاں تھی‘ مذہب، سیاست، فنون لطیفہ، سائنسی معلومات کا ایک وسیع سمندر میرے اندر ٹھاٹھیں مارتا رہتا۔ یہاں تک کہ میں نے تو کرکٹ تک پر تبصرہ کرنے میں اپنے گلی محلے میں کھیلنے کے تجربے کو استعمال میں لایا۔ مگر اب کیا کہیں صحیح کہا ہے کسی نے یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔ میری چوڑیاں، میری لپ اسٹک میراحسن و جمال اور میرا شعلہ بیان جوش خطابات سب چند ہی ہفتوں میں ماند پڑتا جارہا ہے۔ پلٹ کر دیکھتی ہوں کہ آج تو سب کچھ ایک سہانا خواب لگتا ہے۔ یقین ہی نہیں آتا کہ وقت اور اپنوں نے کیا کیا حسین ستم ،تم رہے کہ تم ہم رہے نہ ہم‘۔
میرے ٹوئٹ میرے بیان اور میرا انداز موضوع بحث ہوتے۔ حیرت ہوتی ہے کہ کتنی تیزی سے اور نجانے کیسے سب انہیں بھلا بیٹھے۔کیوں چڑھتے سورج کی ہی پوجا کی جاتی ہے۔ کیوں نہیں رکھا جاتا میرے جیسوں کا خیال، جنہیں کوئی وزارت نہ ملے تو سمجھیں آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل ہوجاتے ہیں۔ پسینے تو اس وقت چھوٹ گئے‘جب جھنڈے والی گاڑی چھوڑے چند ہی گھنٹے ہوئے تھے کہ جن کی آنکھوں کا تارہ صبح سے شام تک تھی وہی میرے بارے میں عجب عجب داستانیں سنانے لگے۔ ہائے کیا دن تھے وہ، جب ’صاحِب‘ کسی بھی تقریب یا اجلاس میں ہوتے تو میرے حکم کے عین مطابق کیمرا چار سے پانچ مرتبہ میری جھلک ضرور دکھاتا۔ میں قربان، میں واری جاتی ان کیمرا مین پر، جو ہر لمحے میری موجودگی کا احساس کیمرے کی آنکھ سے بار بار ایک عالم کو دکھاتے، اب ایسے میں کچھ خفا بھی ہوتے اور کچھ جل بھن کر بھی رہ جاتے،لیکن مجھے ایسا لگتا جیسے میرے جانثار ہیں بے شمار بے شمار۔اور اب یہ یہ عالم ہے کہ اسکرین پر ہفتے بیت گئے میں کسی کونے کھدرے تک میں نظر نہ آئی۔یہاں تک کہ کسی پروگرام کا مہمان بنانے کا بھی کسی کو کوئی خیال آیا ہو۔ نجانے کتنے وزیر مشیر تھے جو اپنی تشہیر کے لیے مجھ سے رابطہ کرتے اور آج وہ تو ویسے ہی نظر آتے مگر میں کہیں نہیں۔جس پر میرے لبوں پر یہ گیت خودبخود آجاتا ہے کہ ’مجھے تو نظر سے گرا تو رہے ہو، مجھے تم کبھی بھی بھلا نہ سکو گے‘۔ ذرا میرا سیل فون تو دیکھیں۔ جس میں پیغامات کی برسات ہوتی تھی۔کیسی کیسی سفارشوں کے سندسے ملتے تھے۔مسلسل بجتا ہی رہتا تھا او ر اب میز پر پڑے ہوئے سڑھتا رہتا ہے۔ خیر مجھے یہ تو یقین ہے کہ یہ غم اور مایوسی کے بادل جلد چھٹ جائیں گے۔ میرا کارواں کسی ایک مقام پر نہیں رکتا، میری منزل وہی ہے، جس کی میں ہر ادوار میں مستحق رہی ہوں۔ بقول شاعر
ترے کوچے کا ہے مائل دل مضطرمیرا
کعبہ ایک اور سہی قبلہ نما اور سہی