منٹو کو کسی ناقد کی ضرورت نہیں خواہ وہ شمس الرحمان فاروقی ہی کیوں نہ ہو، یہ فقرہ ذھن میں کھب گیا، یوں شمس الرحمان فاروقی صاحب سے شناسائی تو تھی مگر واقفیت نہ تھی، انکے اس تخلیقی جملے نے پوری طرح اپنے سحر میں لے لیا۔ کچھ شاعری، کچھ افسانے، کچھ تنقیدی مضامین پڑھے بلاشبہ نہایت فکر انگیز اور مدلل، مگر شمس الرحمان فاروقی کی اصل پہچان تنقید رہی، بے رحمانہ تنقید جس کے آگے ہر کوئی بے بس نظر آتا، شعر شور انگیز پڑھی تو دل و دماغ معطر ہو گئے۔
شاید دس، بارہ سال پہلے کی بات ہے آرٹس کونسل کراچی میں پہلی بار ادبی میلہ سجا، کتابوں کے اسٹالز پر موجود تھا، چند دوست مل گئے تبادلہ شکوک و شبہات جاری تھا کہ اتنے میں شاعر خوش گو کامی شاہ نے میرے کان میں سرگوشی کی، ذرا ادھر آئیے، آپ نے شمس الرحمان فاروقی کی ‘کئی چاند تھے سر آسمان’ پڑھی ہے، انکار میں سر ہلایا تو بولے ضرور پڑھیں، شاندار کتاب ہے، میں نے کتاب خرید لی، اس زمانے خشونت سنگھ سر پر سوار تھے، یہ کتاب پڑی رہی، ایک مجبوری یہ بھی لاحق ہے کہ جب کسی ایک مزاج کی کتب مطالعے میں ہوں تو دوسری جانب جانے کا دل نہیں کرتا۔ خیر صاحب، ہوا یوں کہ دو، ڈھائی ماہ بعد ایک رات نیند روٹھ گئی، منانے کیلئے یہ کتاب یونہی اٹھا کر ورق گردانی شروع کی تو چاندنی کے سحر میں ایسا جکڑا کہ نیند کی ناراضگی دو چند ہو گئی، اچھا خاصا ضخیم ناول تین دن میں ختم کیا، بڑا حیران ہوا کہ شمس الرحمان فاروقی صاحب کی شہرت تو نقاد کی ہے مگر یہ ناول ،،، کم علم انسان ہوں مگر یقین جانئیے اتنی شاندار منظر نگاری اردو ادب میں خال خال ملے گی، گو کہ مغرب میں دوستوفسکی، گورکی، ٹالسٹائی، او ہنری، وکٹر ہیوگو، موپساں، مارکیز منظر نگاری افسانے اور ناول کا بنیادی جز جانے جاتے ہیں مگر مشرق میں یہ روایت کم کم ہے۔ کئی چاند تھے سر آسمان میں فاروقی صاحب کی ناول نگاری اور غالب کی دلی، داغ کا لوہارو، وزیر بیگم، مارسٹن بلیک، نواب شمس الدین، مرزا فخرو، عہد رفتہ کی تصویر کشی نے گرویدہ بنا لیا۔ اس ناول میں جس طرح دل کو چھو جانیوالی گنگا جمنی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے، تاریخ و ثقافت کو سمویا گیا ہے، اب تک کنفیوز ہوں کہ فاروقی صاحب بڑے نقاد تھے یا ناول نگار، سو، ڈیڑھ سو سال پہلے کے ہندوستانی معاشرت کو کھنگالنا، لب و لہجہ، سماج و ثقافت تحقیق طلب کام ہے، وہ بھی ایسا کہ بہت سارے نئے زاویے آشکار ہوں تو اسے شاہکار کیوں نہ جانا جائے۔ موضوع، پلاٹ، تاریخی شخصیات و واقعات پھر بلا کی جزیات، حسن بیان، برجستہ مکالمہ، آپ کو اس دور میں لیجاتے ہیں، جب لفظ باتیں کریں اور جملے تصویر بن جائیں تو یہی حقیقی ادب کا اعلی ترین وصف ہوا کرتا ہے۔ اس ناول کے بعد گویا شناسائی، واقفیت کے بعد فاروقی صاحب سے دوستی ہو گئی، گرچہ وہ دو یا تین مرتبہ کراچی آئے مگر ملاقات نہ ہو سکی، ملاقات ہو نہ ہو دوستی اب تک قائم ہے چونکہ پوری طرح ان کی علمی وسعت، ندرت، خیال آفرینی اور جمالیاتی صلاحیت کا مداح ہوں۔ اب یہ نہ پوچھئیے گا بھلا یہ کیسی دوستی ہوئی، چغتائی کی پینٹنگ، صادقین کی خطاطی، یوسفی کا مزاح، بلھے شاہ کا کلام، ایک وجد، ایک سحر، بندے کے دل میں جگہ بنا لیتے ہیں اور دل میں تو دوست ہی رہا کرتے ہیں ناں۔
بات طویل ہو گئی، مگر جانے کیوں یہ سال بونوں کے دنیا میں بچے کچھے دیو بھی اپنے ساتھ لے گیا، شمس الرحمان فاروقی ہمہ جہت شخصیت تھے، شاعر، نقاد، افسانہ اور ناول نگار، محقق، اردو اور انگریزی، دونوں زبانوں میں یکساں عبور، اپنی بیشتر کتابوں کو انگریزی ترجمہ خود ہی کیا۔ بھارت اور پاکستان اعلی ترین اعزازات، ادبی دنیا میں عرصے تک راج کیا، ایک بھرپور زندگی گزاری، لگ بھگ 50 کتابیں، تنقید میں شعر شور انگیز جیسا معرکہ، شاعری میں پانچ مجموعے، تحقیق میں غالب، اردو غزل کے اہم موڑ جیسی نایاب کتب، لغات روزمرہ جیسی نایات لغت، داستان امیر حمزہ پر بھرپور کام، جدیدت کا مظہر ادبی رسالہ شب خون کم و بیش 40 سال جاری رکھا، ترجمے میں ارسطو کی بوطیقا، بھلا یہ سب ہر ایک کا نصیب ہے۔ بلاشبہ شمس الرحمان فاروقی جیسا ہمہ جہت شخص اردو کو اب شاید ہی نصیب ہو۔
فاروقی صاحب جتنی بڑی اور قد آور شخصیت تھے انکو خراج عقیدت تو پیش کیا جا سکتا ہے، ان پر کچھ لکھنا مجھ جیسے جاہل کے بس میں کہاں، اہل علم لکھ رہے ہیں اور لکھتے رہینگے، اسے تو بس ایک مداح کا ٹوٹا پھوٹا نذرانہ جانیے، باعلم، باذوق، باوقار شمس الرحمان فاروقی بھی رخصت ہوئے مگر جاتے جاتے ہمیں بہت کچھ دے گئے، اردو ادب کو مالا مال کر گئے، انکی یادیں، باتیں، کام حتی کے چشمکیں بھی ہمارے ساتھ ہیں۔