معروف ادیب دانشور سیاسی وقبائلی رہنما ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ ضلع پشین کے مردم خیز خطے عمرزئی، خانوزئی میں جولائی 1948 میں پیدا ہوئے اپ ایک معزز اور دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے اباء واجداد انگریز استعمار کے سخت مخالف تھے ان کے مسلسل پانچ نسلوں میں بڑے بڑے علماء گزرے ہیں 1857 میں برصغیر میں جب جنگ ازادی ناکامی کا شکار ہوئی تو انگریزوں نے اس شورش کی تمام تر ذمّہ داری مسلمانوں پر ڈال دی اور پورے برصغیر میں مسلمانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کیں 1857 کی جنگ ازادی میں چونکہ ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے اباءواجداد نے حصہ لیا تھا اس لیئے انہوں نے افغانستان کے شہر قندھار کی طرف ہجرت کی ان کے دادا مولانا نیک محمد قندھار میں بھی حریت فکر کا درس دیتے رہے اور اپنے شاگردوں اور بہی خواہوں کا ایک وسیع حلقہ قائم کیا ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کے والد مولانا دوست محمد کی پیدائش قندھار کے کلی صالحان میں ہوئی ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا نیک محمد سے گھر پر قندھار میں حاصل کی بعد میں ہندوستان کے شہروں ڈھابیل، فتح پور کے مدارس اور دہلی کے دارالعلوم دیوبند سے علم وحکمت کی تحصیل کی ۔تحصیل علم کے بعد 1910 میں مولانا دوست محمد وطن واپس لوٹے ۔وطن واپس اکر علمی، دینی، فلاحی، اصلاحی، اور سماجی خدمات انجام دیتے رہے ۔علمی ودینی مسائل میں مولانا دوست محمد سند کا درجہ رکھتے تھے ۔پورا علاقہ انکی سماجی خدمات کا معترف تھا ۔مولانا دوست محمد پشین بلوچستان میں ایک نڈر اور بے باک رہنما کے طور پر جانے جاتے تھے ۔انہیں مسلمانوں کے مسائل کا ادراک تھا اور مسلم لیگ کی جدوجہد کے ذریعے ایک ازاد ملک پاکستان کا قیام ان کی اولین ترجیح تھی ۔ قیام پاکستان کے لئے انہوں نے پشین بلوچستان سے قاضی محمد عیسٰی کے شانہ بشانہ قائد اعظم کا ساتھ دیا ۔وہ نیشنل گارڈ پشین کے صدر رہے ۔لیکن ان کے خاندان والوں اور بیٹوں نے انکی شہرت اور عہدوں سے کوئی ذاتی مفادات اور سہولیات نہیں لیں ۔انہوں نے علامہ عبدالعلی اخندزادہ کے ساتھ مل کر پشتون علاقے سے فرسودہ اور ناقص روایات کے خاتمے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا ۔اج خانوزئی اور علاقے میں تعلیم کی جو حوصلہ افزا کیفیت ہے، ان میں علامہ عبدالعلی اخندزادہ کیساتھ مولانا دوست محمد کا کردار نمایاں تر ہے ۔وہ الحاد کے خلاف ہر محاذ پر ڈٹے رہے ۔انہوں نے پشتون بیلٹ سے تعویز گنڈوں، عصری تعانتہائی گریز، اور دیگر فرسودہ اور منفی روایات کے خلاف ایک عظیم مصلح، مدبر، اور نڈر وبے باک رہنما کے طور پر مقابلہ کیا ۔وہ انتہائی جید، شاندار عالم دین، بے پناہ صلاحیتوں و خوبیوں کے مالک تھے ۔تحریک پاکستان میں ان کا نمایاں حصہ رہا ہے ۔انکی جدت اور ترقی پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے گاؤں بلوزئی میں 1937 میں فلاحی سماجی تنظیم کی بنیاد رکھی جو غرباء و مساکین کی مالی اعانت کرتی تھی ۔سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے مطابق یہ بلوچستان کی اولین تنظیموں میں سے ہے ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کا اس بطل جلیل کے ہاں جنم لینا کسی نعمت سے کم نہیں ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے گھر پر ہی حاصل کی ۔1965 میں خانوزئی ہائی اسکول سے میٹرک کیا 1968 میں طبی تعلیم کی تکمیل پر اسسٹنٹ میڈیکل آفیسر تعینات ہوئے ۔ سرکاری نوکری طبیعت سے میل نہ کھاتی تھی۔بے باک اور باغیانہ پن اڑے ارہی تھی پانچ سال بعد سرکاری ملازمت کو خیر باد کہہ دی ۔1976 میں ایم اے کے دوران مولانا سید مودودی کے مطالعہ سے جماعت اسلامی سے تعلق پیدا ہوا اور تعلق بھی ایسا کہ اخر ساعت تک نبھاتا رہا ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ اگر چاہتے تو اچھی سے اچھی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے تھے کاروبار اور اچھی جائیدادیں بنا سکتے تھے لیکن انہوں نے اچھی ملازمت، اپنا چلتا کاروبار، اور زندگی کی تمام آسائشیں اور بہتر دنیاوی مستقبل جماعت اسلامی کے لئے قربان کر دیں ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کو جاءومنصب کے لئے بہت ساری پیشکشیں ہوئیں ۔وقت کے فرعونوں نے اس گوہر نایاب کو خریدنے کی ہزار کوشش کی ۔مگر اس مرد حر کو لگام دینے اور اسکے توانا آواز کو خاموش کرنے کے تمام حربے ناکام ہوئے ۔اور مخالفین کو منہ کی کھانی پڑی ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے اپنی تمام زندگی اصلاح معاشرہ، اور سیاسی تطہیر کے لئے جماعت اسلامی کو وقف کردی ۔بلوچستان کا کوئی چپہ ایسا نہیں جہاں وہ نہ پہنچے ہو اور جہاں ان کے قدم رنجہ نہ ہوئے ہوں۔بلوچستان کے طویل اور مخالف جغرافیائی حالات، مواصلاتی ابتری، اور سیاسی مخالفین کی پیش بندی سمیت کوئی بھی حربہ انہیں اپنے مقصد اور لگن سے ذرا بھی نہ ہٹا سکے ۔جماعت اسلامی کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کیلئے دن رات محنت کی ۔وہ بلوچستان کے دشت و کوہسار تک مدتوں دعوت الی اللہ پہنچا تے رہے ۔مولانا عبدالمجید مینگل، اور مولانا عبدالحمید مینگل ہمراہی اور سرپرستی نے ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کی شخصیت کو چار چاند لگا دئیے ان علماء کی صحبت و تربیت نےاپ کی علمی، سیاسی، تنظیمی صلاحیتوں کو جلا بخشی ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ جماعت اسلامی بلوچستان کے سب سے توانا اواز تھے ۔انہوں نے اس وقت قوم پرستوں کو للکارا جب قوم پرست بلوچستان میں سرخ سویرے کے خواب دیکھ رہے تھے عین اس پرآشوب دور میں وہ نیشنلزم اور ملا ازم کے خلاف ادب اور سیاست میں توانا آواز بن گئے ۔قوم اور مسلمانوں کی حقیقی خدمت کے جرم میں ملاؤں اور قوم پرستوں نے دو، دو دفعہ ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ پر قاتلانہ حملے کئے ۔1982 میں لورالائی میں نام نہاد قوم پرستوں نےقوم کی حقیقی خدمت کے جرم میں ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ پر بھرے جلسے میں دوران تقریر فائرنگ کی ۔جس میں اپ معجزانہ طورپر محفوظ رہے ۔1982 میں جماعت اسلامی کے صوبائی دفتر کوئٹہ میں psf والوں نے ایک مرتبہ پھر فائرنگ کردی مگر مخالفین اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے ۔دکی میں خدمت خلق اور اپنے نظریے پر غیر متزلزل یقین کی پاداش میں خزاں پرست ملاؤں نے اپ پر قاتلانہ حملہ کیا اس حملے میں اپ کو شدید چوٹیں آئیں اور اپ زندگی وموت کی کشمکش سے دوچار ہوئے اپ بہت دنوں تک ہسپتال میں داخل رہے ۔مگر خزان پرستوں کی تمام تدبیریں اور حربے یکے بعد دیگرے ناکام ہوگئی ۔اور یہ مصائب والام مرحوم کو اپنی مشن سے رتی برابر بھی نہ ہٹا سکے ۔روس کا افغانستان میں ننگی جارحیت و یلغار اور نام نہاد قوم پرستوں کی اپنے ہی عوام سے غداری اور بے وفائی ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ کو بہت تکلیف اور اذیت دیتی تھی نام نہاد قوم پرست سرخ سویرے اور سرخ ٹینکوں کو اپنے خوابوں میں سجائے پشتون بیلٹ کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کر رہے تھے ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس گمراہی کے خلاف جدوجہد کا علم اٹھایا اور جہاد کیا ۔افغانستان پر روسی جارحیت اور حملے کے بعد سخت سردی میں افغانوں کو پاکستان ہجرت کرنا پڑی سردی کی شدت سے سینکڑوں شیر خوار بچے دوران ہجرت راستے میں ماؤں کی گود دم توڑ گئے ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ سے افغانوں کی یہ حالت نہ دیکھی گئی ،میڈیکل ایڈ لے کر فوری طور پر چمن اور بولدک پہنچے اور افغانوں کی دوادارو بڑی تندہی کےساتھ اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر کی ۔ سردی کی شدت سے بیمار ہو کر کئی ہفتے ہسپتال میں داخل رہے افغان مہاجرین کے علاج معالجے کے لئے جماعت اسلامی نے کویت کی مدد الخدمت الہاجری ہسپتال قائم کیا وہ اس ہسپتال کے پہلے ایم ایس تھے ۔ہسپتال میں افغان مہاجرین کی مسیحائی کا کام کیا تمام تر سہولیات بہم پہنچاتے رہے افغان مہاجر کیمپوں میں خود جاکر خوراک، صحت اور روزمره کی ضروریات زندگی کا سامان فراہم کرتے، افغان مہاجرین کی خدمت بڑی بےلوثی سے کی ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ دس سال جماعت اسلامی کے صوبائی سکریٹری جنرل رہے ۔وہ صوبائی نائب امیر اور متعدد بار مرکزی مجلس شورای کے رکن بھی رہے ۔انہوں نے عین جوانی میں ضلع پشین میں پاکستان قومی اتحاد کو منظم کیا بٹھو امریت کے خلاف پی این اے کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کا اغاز کیا ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے نہم جماعت سے شاعری کا اغاز کیا وہ بلوچستان میں پشتو ادب میں مزاحمت کا استعارہ تھے ۔انہوں نےروایت سے ہٹ کر مزاحمتی ادب تخلیق کیا انہوں نے ادب میں جانان کے نین، زلف، و لب سے ہٹ کر سنجیدہ موضوعات کی طرف دعوت دی ۔اور زندگی وسماج کو ایک اور زاویے سے دیکھا اور پرکھا ۔ ان اشعار وافکار ملکی وعالمی سیاست، سماج میں طاقتور کے ظلم اور مظلوم ومحروم کے ضعف، خواتین کے مسائل اور ان کے حقوق ،عدم مساوات، بیداری قوم وملت، سماج کے استحصالی رویوں ،دلفریب استحصالی کرداروںاور گروہوں نیشنل ازم اور ملاازم کے خلاف کھلی جنگ ہے ۔انہوں نے ادب کے نرم اور لطیف پیرائے میں بڑے، حقیقی، اور سنجیدہ موضوعات کو اجاگر کیا ۔وہ فیض نے کیا خوب کہا ہے کہ
اور بھی کام ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
فیض کے اس شعر کے مصداق ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے ادب اور شعر کو زندگی کے تلخ حقائق کا ادراک کرنے، سماج کی تبدیلی اوراصلاح کا ذریعہ بنایا ۔انہوں نے پشتو ادب میں خوشحال بابا، حمزہ بابا، کاظم شیدا، ڈاکٹر رحمت اللہ درد، درویش دورانی، اور سعید گوہر کو بہت سراہا ۔ ڈاکٹر صاحب اوائل جوانی میں روایتی اور عشق بازی کی شاعری کرتے رہے، جب بعد میں مقصدیت کی طرف ائے تو رویتی شاعری کو ترک کر دیا ۔اور سینکڑوں صفحات پر مشتمل روایتی شاعری کو تلف کر دیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے ادباور شاعری کے میدان میں اسلامی فکر کی احیاء اور ترویج کے لئے عمر بھر کام کیا ۔افغانستان پر روس کے یلغار کے بعد کمیونزم اور سوشلزم نواز ادب کے چرچے تھے ایسے میں اسلامی فکر اور اقدار حامل ادب کی شدید ضرورت تھی ۔ مرحوم نے پشتو ادب وشاعری کے میدان میں اسلامی فکر کی احیاء اور آبیاری کے لئے کوششیں کیں ۔انہوں نے پشتو ادب میں شاعروں اصلاحی واسلامی فکر کی احیاء کی دعوت دی ۔ اسی کے اوائل میں جب دور اتنا جدید نہ تھا، ڈاکٹر صاحب نے صوت الاسلام کے نام سے ایک کیسٹ ہاؤس قائم کیا جس میں تحریک اسلامی، عوامی بیداری ، وملی اصلاح اور افغان جہاد کے حوالے سے ترانے اور نغمے ریکارڈ کر کے عوام الناس تک پہنچا کر غیرت ملی کو زندہ وبیدار کرنے کا سبب بنتے رہے ۔مرحوم نے پشتو ادب و شاعری میں دینی فکر کو پروان چڑھایا ۔ 80 سے 85 تک دکی، لورالائی، خانوزئی، اور کوئٹہ میں مشاعرے اور ادبی مجالس منعقد کرتے رہے اور ان ادبی مجلسوں کے روح رواں رہے ۔پوری زندگی پشتو ادب کی ترقی کے لئے کوشاں رہے ۔خانوزئی میں ادیبوں اور شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور خانوزئی میں، ‘ خواژہ ادبی ملگری ‘ تنظیم کی بنیاد ڈالی اور اسی انجمن سے ادبی سرگرمیوں کا سفر مزید تیز تر ہو گیا اور بہت سے نو خیز ادیب وشاعر تخلیق کئے گئے جنہوں نے پشتو ادب ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ نے نظم و نثر دونوں میںقلم کے متعدد شہ پارے ورثے میں چھوڑے ہیں جو تاحال اشاعت وطباعت کے زیور سے آراستہ نہ ہو سکے ۔ شاعری کے تین مجموعے تاحال غیر مطبوعہ قلمی صورت میں تشنہ طباعت پڑے ہیں ۔ افسانوں پر مشتمل مجموعہ رشتیا ( سچ) جو اواخر عمر کی تالیف ہے تاحال غیر مطبوعہ قلمی شکل میں موجود ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے پشتو ادب میں صحت مندانہ اور اصلاحی کاوشوں کے ضمن میں پشتو اصلاحی سہ ماہی مجلہ سمہ لار ( راہ راست) کے نا م سے جاری کیا جس کے متعدد شمارے شائع ہوئے تاہم بعد میں اسکی اشاعت جاری نہ رکھ سکے ۔ مرحوم کی اسلامی واصلاحی شاعری کے دو مجموعے شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں اور قارئین سے داد تحسین وصول کر چکے ہیں ایک ” ستومانہ سوم ” دوسرا ” کابل بہ بیرتہ خدائ آزاد کڑی ” ڈاکٹر صاحب ایک بے لوث اور ملنسار انسان تھے اپنے غریب ومحروم عزیزوں کی امداد اپنا فرض سمجھ کر کرتے تھے ۔ مرحوم علاقے میں بڑے قابل احترام شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے ڈاکٹر صاحب کو فرسودہ قبائلی رسوم سے سخت نفرت تھی تمام عمر ان فرسودہ رسوم و روایات کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ۔انہوں نےہر فورم پر پشتون سماج میں عورت کی مظلومیت و محکومیت کے لئے اعاز اٹھائی وہ تمام عمر عورتوں کے اسلامی اور سماجی حقوق کی جنگ لڑتے رہے ۔ڈاکٹر صاحب عوام میں قبائلی و علاقائی جھگڑوں کے تصفیے کے لئے ایک چراغ راہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ قبائلی زعماء ومشران اور مقامی علماء مرحوم کی رائے کابہت احترام کرتے تھے ۔فولادی عزم رکھنے والے ڈاکٹر عبدالواسع کاکڑ دسمبر 2015 کو فانی دنیا سے کوچ کر گئے مرحوم کی پانچویں برسی عقیدت واحترام کیساتھ منائی جارہی ہے