شیخ ایاز سندھی زبان کے بہت بڑے شاعر ہیں۔ انہیں شاہ عبدالطیف بھٹائی کے بعد سندھ کا عظیم شاعر مانا جاتا ہے۔ اگر شیخ ایاز کو جدید سندھی ادب کے بانیوں میں شمار کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ وہ مزاحمتی اور ترقی پسند شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ان کا پورا نام شیخ مبارک علی ایازتھا ۔ وہ 23 مارچ 1923ء کو شکارپور میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے درجنوں کتابیں لکھیں اور سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے۔
23 مارچ، 1994ء کو آپ کو ملک سب سے بڑا ادبی ایوارد ہلال امتیاز 16 اکتوبر، 1994ء کو فیض احمد فیض ایوارڈ ملا۔ شیخ ایاز کا انتقال حرکت قلب بند ہونے سے 28 دسمبر، 1997ء کو کراچی میں ہوا۔
شیخ ایاز کو اپنی شاعری پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے سندھی شاعری میں جو تجربات کیے وہ بے حد کامیاب بھی رہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے خود کو ہمیشہ شاعر کے روپ میں ہی دیکھنا چاہا تھا۔ شاعری سے ان کا رشتہ بچپن سے ہی قائم ہو چکا تھا۔
ان کے بچپن کے دنوں میں جب ان کے اشعار ’سندھو‘ میگزین میں چھپنے لگے اور ایک مرتبہ ان کی ملاقات میگزین کے ایڈیٹر سے ہوئی تو انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ جو اشعار وہ اپنے میگزین میں شیخ ایاز کے نام چھاپ رہے ہیں، وہ اسی نوجوان کے ہیں۔
اس کے بعد اس میگزین میں تین برس تک ان کی کوئی تخلیق نہیں شایع ہوسکی۔ مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کسی بھی میگزین اور اخبارات کے ادبی صفحات ان کے اشعار کے بنا نامکمل سے سمجھے جاتے تھے۔
شیخ ایاز نے اپنے شعر کی ابتدا اردو میں شعر کہنے سے کی۔ ان کے اردو کلام میں “حلقہ میری زنجیر کا”، “نیل کنٹھ اور نیم کے پتے” اور “بوئے گل نالہء دل” کتابیں شامل ہیں۔ چوں کہ سندھی ان کی مادری زبان تھی لہٰذا ان کے لیے سندھی میں شعر کہنا قدرے آسان تھا، مگر ان کی اردو شاعری پڑھنے پر بھی یہ گمان تک نہیں ہوتا کہ وہ سندھی کے بے مثال شاعر ہیں۔
ان کی اردو میں لکھی گئی نظم ’میرے دیدہ ورو میرے دانشورو‘ پڑھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو میں کس انداز سے شاعری کی ہے:
میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
پاؤں زخمی سہی
ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن
کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو
جگمگاتے چلو
رود کش نیک و بد
کتنے کوتاہ قد
سر میں بادل لیے
ﮨﯿں ﺗﮩﯿﮧ کیے
بارش زہر کا
اک نئے قہر کا
میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر سے
نقش کرتے چلو
تھام لو ایک دم
یہ عصائے قلم
ایک فرعون کیا
لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائیں گے
ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال سندھی شاعری کے عظیم کلاسیکی شاعر شاھ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا قدر مشکل کام ہے یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت تھی کہ وہ اس کام کو بھی بخوبی نبھا پائے۔ ان کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا مگر یہ کام ان کی زندگی میں تکمیل نہ پا سکا۔
مست و بیخود بنا گیا کوئی
دام ایسا بچھا گیا کوئی
بزم گیتی پہ چھا گیا کوئی
کتنے جلوے دکھا گیا کوئی
گنج عرفان لٹا گیا کوئی
**
نہ کانوں میں صدائے کن فکان تھی
عدم کے بطن میں کب سے نہاں تھی
کسی حسن ازل کی راز دان تھی
نگاہ محرمانہ میں عیاں تھی
**
لبوں پہ نالہائے جانستاں ہیں
نہ جانے کیوں تصور گراں ہیں
محبت کے انوکھے امتحاں ہیں
(شاہ لطیف کا کلام)