حقیقت یہ ہے کہ 1958 کے بعد ایوب خان نے ایبڈو کے قانون کے تحت تمام موثر اور جہاں دیدہ سیاستدانوں کو گھر بھیج دیا، جو چند چھوٹے حلقۂ اثر والے یا علاقائی سیاستدان بچے انہوں نے جمہوریت کا علم اٹھائے رکھا، جیسے نوابزادہ نصراللّہ خان، ولی خان اور سید مودودیؒ لیکن اقتدار میں صرف فوج کی سیاسی نرسری میں پلنے والے ہی آئے۔
بھٹو اپنے ابتدائی دور میں 1971 کی جنگ میں زخم خوردہ فوج پر حاوی رہا لیکن بعد میں اس نے سیاستدانوں کو بھی غیر موثر کر دیا اور پھر جب فوج نے مداخلت کی تو کوئی بھی سیاستدان اس کا حمایتی نہیں تھا، اس کی بیٹی بینظیر بھٹو بھی سمجھوتے کے بعد اقتدار میں آئی اور فوج کو تمغۂ جمہوریت دیا پھر اس کی ٹانگیں فوج کے پروردہ نواز شریف نے کھینچے رکھیں۔
پھر نواز شریف نے بھی سیاسی ماحول اتنا آلودہ کر دیا کہ جب 1999 میں فوجی مداخلت ہوئی تو لوگوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور موصوف معافی نامہ لکھ کر اور سیاست سے دس سالہ دستبرداری کا معاہدہ کرکے سعودیہ چلے گئے۔
بے نظیر دوبارہ سمجھوتہ کر کے آئیں اور پر اسرار حالات میں قتل کر دی گئیں۔ زرداری صاحب بھی مکمل ہم آہنگی کے ساتھ چلتے رہے اقتدار سے نکلنے کے بعد انہیں فوج کو مطعون کرنے کا شوق ہوا جو ایک ابال کے بعد بیٹھ گیا۔
اب پھر نواز شریف صاحب جیل سے دوسری بار سمجھوتہ کرکے بھاگے ہیں، یہ معاہدہ بھی شاید کبھی مشرف والے معاہدے کی طرح کوئی پرنس مقرن اور حریری لے کر پاکستان آئیں گے۔ اب لندن میں ایون فیلیڈ اپارٹمنٹ کی آسودگی میں بولا ہوا سچ صرف محرومی کا رنج ہے۔
اس وقت قومی سیاست میں ایک بھی موثر سیاستدان ایسا نہیں جو صاف دامنی کے ساتھ بہادری دکھائے اور فوج کے سیاسی کردار کی کھل کر مذمت کرے۔ ابھی چند دن پہلے کی ملاقات میں ان کے رنگ ماسٹر نے خواجہ آصف کو آئینہ دکھا دیا ھے۔
جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام سمیت مذہبی جماعتیں بھی جہاد اور نفاذ اسلام کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کے دسترخوان کی خوشہ چیں رہی ہیں۔ بارہ سو ایکڑ فوجی زمین الاٹ کرانے والے مولانا فضل الرحمٰن بھی دراصل دوباہ نوکری کے طلب گار ہیں۔ ملکی سیاسی اکھاڑے میں سب پدی پہلوان ہیں ایک بھی صحیح جمہوری سوچ والا دبنگ لیڈر نہیں، سید مودودی کی میراث سراج الحق کے ہاتھ میں ہے اور باچہ خان ولی خان کی میراث اسفندیار یار ولی کے ہاتھ میں۔ مسلم لیگ تو ہر ڈکٹیٹر کے حجلہ عروسی کو سجانے والی دلہن رہی ھے۔
قلمکاروں کی اکثریت تو اسی عطار کے لونڈے کی تنخواہ دار ھے جبکہ اکا دکا بچے ہوئے دانشور صرف فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف بلاگ یا فیس بک پوسٹ لکھ کر قومی فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔