حزب اختلاف کی اے پی سی کے بعد ملاقاتوں کی گتھی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اب ملاقات صرف ایک نہیں رہی شیخ رشید کے مطابق دو ہو گئی ہیں۔ ایک ڈنر والی اور دوسری چائے سلاد والی۔ ابھی ان دو ملاقاتوں پر لپاڈگی جاری تھی کہ اسی بحث کے دوران تیسری ملاقات کا انکشاف بھی ہو گیا۔
ڈی جی آئی ایس آر نے بتایا کہ سابق گورنر سندھ اور جنرل یحیٰی کے زمانے کے ایک اہم ترین جرنیل کے صاحبزادے محمد زبیر نے فوج کے سربراہ سے ملاقات کی ہے۔
اس انکشاف کے بعد تو حزب اختلاف کے لیے صورت یہ لگتی ہے کہ وہ چلو میں پانی لے کر ڈوب مرے اور شاید کیفیت بھی ایسی ہی ہے لیکن اس بیچ میں عاصمہ شیرازی نے ایک سوال اٹھا دیا کہ اگر ملاقات کرنا برا ہے تو ملاقات کی دعوت دینے پر اعتراض کیوں نہیں؟
حزب اختلاف کی خجالت میں یہ سوال یقیناً دلچسپ اور اہم ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقاتوں کی روایت ہمارے ہاں پرانی ہے اور اس کے اسباب بھی واضح ہیں۔ اس لیے اس طرح کے رابطوں کو بعض صورتوں میں ناپسندیدہ سمجھنے کے باوجود اس کی ضرورت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا۔ یہ ملاقاتیں بھی اسی روایت کا حصہ ہیں۔ خرابی اس وقت ہوئی جب میاں نواز شریف نے دو سال پر پھیلی ہوئی خاموشی کو توڑتے ہوئے اپنے نظریات کے مطابق ایک انتہائی مؤقف اختیار کر لیا جس سے ایسی مشکل صورت حال پیدا ہوگئی جس سے نکلنے کے لیے ہر فریق نے دشواری محسوس کی۔ آج کا منظر ایسی کیفیات ہی کا منطقی نتیجہ ہے۔
اس مباحثے میں ایک نکتہ ایسا ہے جس پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی کہ یہ انکشافات کیا میاں نواز شریف کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہے ہوں گے یا صورت حال مختلف ہوگی؟ ہماری رائے دوسرے امکان کے حق میں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے خیال میں وہ اپنے مخالفین کو زیادہ مشکل کیفیت میں کامیاب رہے ہیں۔
قوموں کی زندگی میں مختلف مواقع پر ایسے مشکل مراحل پیدا ہو جاتے ہیں لیکن زندہ قومیں ایسے واقعات سے سبق حاصل کر کے مستقبل کو بہتر بناتی ہیں، انکشافات کا مرحلہ تمام ہو تو سمجھ میں آئے کہ ہم اس راستے کی طرف بڑھ رہے ہیں کہ نہیں؟