• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home تبادلہ خیال

اثاثہ جات، اتنا تفاوت کیوں | ڈاکٹر مسعود احمد شاکر

میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہتا ہوں جسے میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں قرض لے کر تعمیر کیا

ڈاکٹر مسعود احمد شاکر by ڈاکٹر مسعود احمد شاکر
July 21, 2020
in تبادلہ خیال
0
اثاثہ جات، اتنا تفاوت کیوں | ڈاکٹر مسعود احمد شاکر
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید اور دفاع کی مہم جاری ھے۔ بہت سے لوگ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین(بحساب 1600 روپئے فی ایکڑ) تیس لاکھ میں ٹیوٹا لینڈ کروزر اور دس پندرہ لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ڈی ایچ اے میں چار پانچ رہائشی اور کمرشل پلاٹس کو ایک پبلک سرونٹ کے استحقاق سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے احباب اسے ایک تھری سٹار جنرل کا استحقاق قرار دے کر کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے اس کا تقابل کر رہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ھے کہ چونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں لہذا فوجی جرنیلوں کو کھلے دل سے قومی وسائل تقسیم کئے جانے چاہیں۔ معروف سکالر ہنری ڈیوڈ نے کہا تھا “تابعداروں کو لازماً غلام ہونا چاہیے”

میرے ایک اسی طرح کے دوست نے نواز شریف کے اربوں کھربوں کے اثاثہ جات کی مثال دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کا دفاع کیا ھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نواز شریف یا کسی سیاست دان کے اسی طرح کے فراڈ اثاثہ جات کا دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ مجھے تو یہ شکوہ ضرور ھے کہ اگر ریٹائرمنٹ پر ایک تھری سٹار جنرل کو ساٹھ پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین اور ڈی ایچ اے میں تین چار رہائشی و کمرشل پلاٹ ملتے ہیں تو یہ ملک میں کسی ڈاکٹر انجنیر پروفیسر سائنٹسٹ یا ٹیکنو کریٹ کو کیوں نہیں ملتے؟ کسی پروفیسر یا استاد کو لینڈ کروزر کیوں نہیں دی جاتی؟ وہ بھی تو پبلک سرونٹ ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نیشن بلڈنگ میں ان کا کردار دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے، کم نہیں۔ ڈاکٹر قدیر تو بیچارہ چند ہزار روپے پینشن پر گزارا کر رہاھے۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل تحقیق کے سائنس دان کیوں اس استحقاق سے محروم ہیں؟

میں ایک (بطور زرعی سائنس دانوں کے ایک نمائندہ ) پی ایچ ڈی ایگریکلچرل سائنٹسٹ ہوں۔ پنحاب ایگریکلچر ریسرچ میں تقریباً پینتیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ میری ایجاد کردہ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی اقسام سے ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہوا ھے۔ گندم کی سالانہ پیداوار دس بارہ ملین ٹن سے پچیس ملین ٹن ہو گئی ھے۔ مجھے تو کوئی پلاٹ یا لینڈ کروزر کیا ستر سی سی موٹر سائیکل بھی نہیں ملا۔

Ad (2024-01-27 16:31:23)

میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ جو میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں اکثر دوست احباب سے قرض لے کر تعمیر کیا ھے۔ جب میں اپنی یہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے  امریکہ کے دو بار منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما کی یاد آتی ہے جسے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر کی تلاش تھی۔

ملک میں ایک پبلک سرونٹ جس نے گریڈ سترہ میں اپنی ملازمت شروع کی اور دوہزار سترہ اٹھارہ میں گریڈ انیس میں ریٹائر ہوا، اس نے اپنی بتیس چونتیس سالہ پوری ملازمت کے دوران تنخواہ و الاؤنسز کی صورت بمشکل ڈیڑھ کروڑ روپیہ سرکاری خزانے سے وصول کیا ہو گا۔ ریٹائرمنٹ پر گریجوایٹی اور جی پی فنڈ کی مد میں اسے تقریباً پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں(یہ تخمینہ 2017–18 تک ریٹائر ہونے والے افراد کا ھے)۔ اب ایک سرکاری ملازم کو تو گھر، گاڑی اپنی اسی رقم سے ارینج کرنا ھے دوسرے ملازم کو مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے اربوں کے benefits استحقاق کے نام پر عطا کر دیے جائیں۔؟ یہ اتنا تفاوت کیوں۔؟

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: اثاثے
Previous Post

موسیقار خلیل احمد کا یوم وفات | عقیل عباس جعفری

Next Post

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب پر 8 الزامات

ڈاکٹر مسعود احمد شاکر

ڈاکٹر مسعود احمد شاکر

Next Post
مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب پر 8 الزامات

مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگ زیب پر 8 الزامات

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions