Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید اور دفاع کی مہم جاری ھے۔ بہت سے لوگ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین(بحساب 1600 روپئے فی ایکڑ) تیس لاکھ میں ٹیوٹا لینڈ کروزر اور دس پندرہ لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ڈی ایچ اے میں چار پانچ رہائشی اور کمرشل پلاٹس کو ایک پبلک سرونٹ کے استحقاق سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے احباب اسے ایک تھری سٹار جنرل کا استحقاق قرار دے کر کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے اس کا تقابل کر رہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ھے کہ چونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں لہذا فوجی جرنیلوں کو کھلے دل سے قومی وسائل تقسیم کئے جانے چاہیں۔ معروف سکالر ہنری ڈیوڈ نے کہا تھا “تابعداروں کو لازماً غلام ہونا چاہیے”
میرے ایک اسی طرح کے دوست نے نواز شریف کے اربوں کھربوں کے اثاثہ جات کی مثال دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کا دفاع کیا ھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نواز شریف یا کسی سیاست دان کے اسی طرح کے فراڈ اثاثہ جات کا دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ مجھے تو یہ شکوہ ضرور ھے کہ اگر ریٹائرمنٹ پر ایک تھری سٹار جنرل کو ساٹھ پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین اور ڈی ایچ اے میں تین چار رہائشی و کمرشل پلاٹ ملتے ہیں تو یہ ملک میں کسی ڈاکٹر انجنیر پروفیسر سائنٹسٹ یا ٹیکنو کریٹ کو کیوں نہیں ملتے؟ کسی پروفیسر یا استاد کو لینڈ کروزر کیوں نہیں دی جاتی؟ وہ بھی تو پبلک سرونٹ ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نیشن بلڈنگ میں ان کا کردار دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے، کم نہیں۔ ڈاکٹر قدیر تو بیچارہ چند ہزار روپے پینشن پر گزارا کر رہاھے۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل تحقیق کے سائنس دان کیوں اس استحقاق سے محروم ہیں؟
میں ایک (بطور زرعی سائنس دانوں کے ایک نمائندہ ) پی ایچ ڈی ایگریکلچرل سائنٹسٹ ہوں۔ پنحاب ایگریکلچر ریسرچ میں تقریباً پینتیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ میری ایجاد کردہ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی اقسام سے ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہوا ھے۔ گندم کی سالانہ پیداوار دس بارہ ملین ٹن سے پچیس ملین ٹن ہو گئی ھے۔ مجھے تو کوئی پلاٹ یا لینڈ کروزر کیا ستر سی سی موٹر سائیکل بھی نہیں ملا۔
میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ جو میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں اکثر دوست احباب سے قرض لے کر تعمیر کیا ھے۔ جب میں اپنی یہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے امریکہ کے دو بار منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما کی یاد آتی ہے جسے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر کی تلاش تھی۔
ملک میں ایک پبلک سرونٹ جس نے گریڈ سترہ میں اپنی ملازمت شروع کی اور دوہزار سترہ اٹھارہ میں گریڈ انیس میں ریٹائر ہوا، اس نے اپنی بتیس چونتیس سالہ پوری ملازمت کے دوران تنخواہ و الاؤنسز کی صورت بمشکل ڈیڑھ کروڑ روپیہ سرکاری خزانے سے وصول کیا ہو گا۔ ریٹائرمنٹ پر گریجوایٹی اور جی پی فنڈ کی مد میں اسے تقریباً پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں(یہ تخمینہ 2017–18 تک ریٹائر ہونے والے افراد کا ھے)۔ اب ایک سرکاری ملازم کو تو گھر، گاڑی اپنی اسی رقم سے ارینج کرنا ھے دوسرے ملازم کو مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے اربوں کے benefits استحقاق کے نام پر عطا کر دیے جائیں۔؟ یہ اتنا تفاوت کیوں۔؟
جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید اور دفاع کی مہم جاری ھے۔ بہت سے لوگ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین(بحساب 1600 روپئے فی ایکڑ) تیس لاکھ میں ٹیوٹا لینڈ کروزر اور دس پندرہ لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ڈی ایچ اے میں چار پانچ رہائشی اور کمرشل پلاٹس کو ایک پبلک سرونٹ کے استحقاق سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے احباب اسے ایک تھری سٹار جنرل کا استحقاق قرار دے کر کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے اس کا تقابل کر رہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ھے کہ چونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں لہذا فوجی جرنیلوں کو کھلے دل سے قومی وسائل تقسیم کئے جانے چاہیں۔ معروف سکالر ہنری ڈیوڈ نے کہا تھا “تابعداروں کو لازماً غلام ہونا چاہیے”
میرے ایک اسی طرح کے دوست نے نواز شریف کے اربوں کھربوں کے اثاثہ جات کی مثال دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کا دفاع کیا ھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نواز شریف یا کسی سیاست دان کے اسی طرح کے فراڈ اثاثہ جات کا دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ مجھے تو یہ شکوہ ضرور ھے کہ اگر ریٹائرمنٹ پر ایک تھری سٹار جنرل کو ساٹھ پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین اور ڈی ایچ اے میں تین چار رہائشی و کمرشل پلاٹ ملتے ہیں تو یہ ملک میں کسی ڈاکٹر انجنیر پروفیسر سائنٹسٹ یا ٹیکنو کریٹ کو کیوں نہیں ملتے؟ کسی پروفیسر یا استاد کو لینڈ کروزر کیوں نہیں دی جاتی؟ وہ بھی تو پبلک سرونٹ ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نیشن بلڈنگ میں ان کا کردار دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے، کم نہیں۔ ڈاکٹر قدیر تو بیچارہ چند ہزار روپے پینشن پر گزارا کر رہاھے۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل تحقیق کے سائنس دان کیوں اس استحقاق سے محروم ہیں؟
میں ایک (بطور زرعی سائنس دانوں کے ایک نمائندہ ) پی ایچ ڈی ایگریکلچرل سائنٹسٹ ہوں۔ پنحاب ایگریکلچر ریسرچ میں تقریباً پینتیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ میری ایجاد کردہ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی اقسام سے ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہوا ھے۔ گندم کی سالانہ پیداوار دس بارہ ملین ٹن سے پچیس ملین ٹن ہو گئی ھے۔ مجھے تو کوئی پلاٹ یا لینڈ کروزر کیا ستر سی سی موٹر سائیکل بھی نہیں ملا۔
میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ جو میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں اکثر دوست احباب سے قرض لے کر تعمیر کیا ھے۔ جب میں اپنی یہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے امریکہ کے دو بار منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما کی یاد آتی ہے جسے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر کی تلاش تھی۔
ملک میں ایک پبلک سرونٹ جس نے گریڈ سترہ میں اپنی ملازمت شروع کی اور دوہزار سترہ اٹھارہ میں گریڈ انیس میں ریٹائر ہوا، اس نے اپنی بتیس چونتیس سالہ پوری ملازمت کے دوران تنخواہ و الاؤنسز کی صورت بمشکل ڈیڑھ کروڑ روپیہ سرکاری خزانے سے وصول کیا ہو گا۔ ریٹائرمنٹ پر گریجوایٹی اور جی پی فنڈ کی مد میں اسے تقریباً پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں(یہ تخمینہ 2017–18 تک ریٹائر ہونے والے افراد کا ھے)۔ اب ایک سرکاری ملازم کو تو گھر، گاڑی اپنی اسی رقم سے ارینج کرنا ھے دوسرے ملازم کو مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے اربوں کے benefits استحقاق کے نام پر عطا کر دیے جائیں۔؟ یہ اتنا تفاوت کیوں۔؟
جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید اور دفاع کی مہم جاری ھے۔ بہت سے لوگ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین(بحساب 1600 روپئے فی ایکڑ) تیس لاکھ میں ٹیوٹا لینڈ کروزر اور دس پندرہ لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ڈی ایچ اے میں چار پانچ رہائشی اور کمرشل پلاٹس کو ایک پبلک سرونٹ کے استحقاق سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے احباب اسے ایک تھری سٹار جنرل کا استحقاق قرار دے کر کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے اس کا تقابل کر رہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ھے کہ چونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں لہذا فوجی جرنیلوں کو کھلے دل سے قومی وسائل تقسیم کئے جانے چاہیں۔ معروف سکالر ہنری ڈیوڈ نے کہا تھا “تابعداروں کو لازماً غلام ہونا چاہیے”
میرے ایک اسی طرح کے دوست نے نواز شریف کے اربوں کھربوں کے اثاثہ جات کی مثال دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کا دفاع کیا ھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نواز شریف یا کسی سیاست دان کے اسی طرح کے فراڈ اثاثہ جات کا دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ مجھے تو یہ شکوہ ضرور ھے کہ اگر ریٹائرمنٹ پر ایک تھری سٹار جنرل کو ساٹھ پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین اور ڈی ایچ اے میں تین چار رہائشی و کمرشل پلاٹ ملتے ہیں تو یہ ملک میں کسی ڈاکٹر انجنیر پروفیسر سائنٹسٹ یا ٹیکنو کریٹ کو کیوں نہیں ملتے؟ کسی پروفیسر یا استاد کو لینڈ کروزر کیوں نہیں دی جاتی؟ وہ بھی تو پبلک سرونٹ ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نیشن بلڈنگ میں ان کا کردار دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے، کم نہیں۔ ڈاکٹر قدیر تو بیچارہ چند ہزار روپے پینشن پر گزارا کر رہاھے۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل تحقیق کے سائنس دان کیوں اس استحقاق سے محروم ہیں؟
میں ایک (بطور زرعی سائنس دانوں کے ایک نمائندہ ) پی ایچ ڈی ایگریکلچرل سائنٹسٹ ہوں۔ پنحاب ایگریکلچر ریسرچ میں تقریباً پینتیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ میری ایجاد کردہ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی اقسام سے ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہوا ھے۔ گندم کی سالانہ پیداوار دس بارہ ملین ٹن سے پچیس ملین ٹن ہو گئی ھے۔ مجھے تو کوئی پلاٹ یا لینڈ کروزر کیا ستر سی سی موٹر سائیکل بھی نہیں ملا۔
میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ جو میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں اکثر دوست احباب سے قرض لے کر تعمیر کیا ھے۔ جب میں اپنی یہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے امریکہ کے دو بار منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما کی یاد آتی ہے جسے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر کی تلاش تھی۔
ملک میں ایک پبلک سرونٹ جس نے گریڈ سترہ میں اپنی ملازمت شروع کی اور دوہزار سترہ اٹھارہ میں گریڈ انیس میں ریٹائر ہوا، اس نے اپنی بتیس چونتیس سالہ پوری ملازمت کے دوران تنخواہ و الاؤنسز کی صورت بمشکل ڈیڑھ کروڑ روپیہ سرکاری خزانے سے وصول کیا ہو گا۔ ریٹائرمنٹ پر گریجوایٹی اور جی پی فنڈ کی مد میں اسے تقریباً پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں(یہ تخمینہ 2017–18 تک ریٹائر ہونے والے افراد کا ھے)۔ اب ایک سرکاری ملازم کو تو گھر، گاڑی اپنی اسی رقم سے ارینج کرنا ھے دوسرے ملازم کو مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے اربوں کے benefits استحقاق کے نام پر عطا کر دیے جائیں۔؟ یہ اتنا تفاوت کیوں۔؟
جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اثاثہ جات منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر تنقید اور دفاع کی مہم جاری ھے۔ بہت سے لوگ صرف ایک لاکھ پانچ ہزار روپے میں پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین(بحساب 1600 روپئے فی ایکڑ) تیس لاکھ میں ٹیوٹا لینڈ کروزر اور دس پندرہ لاکھ روپے فی کنال کے حساب سے ڈی ایچ اے میں چار پانچ رہائشی اور کمرشل پلاٹس کو ایک پبلک سرونٹ کے استحقاق سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ جب کہ بہت سے احباب اسے ایک تھری سٹار جنرل کا استحقاق قرار دے کر کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے اس کا تقابل کر رہے ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ھے کہ چونکہ سیاست دان کرپٹ ہیں لہذا فوجی جرنیلوں کو کھلے دل سے قومی وسائل تقسیم کئے جانے چاہیں۔ معروف سکالر ہنری ڈیوڈ نے کہا تھا “تابعداروں کو لازماً غلام ہونا چاہیے”
میرے ایک اسی طرح کے دوست نے نواز شریف کے اربوں کھربوں کے اثاثہ جات کی مثال دیتے ہوئے جنرل باجوہ کے اثاثہ جات کا دفاع کیا ھے۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نواز شریف یا کسی سیاست دان کے اسی طرح کے فراڈ اثاثہ جات کا دفاع نہیں کروں گا۔ البتہ مجھے تو یہ شکوہ ضرور ھے کہ اگر ریٹائرمنٹ پر ایک تھری سٹار جنرل کو ساٹھ پینسٹھ ایکڑ زرعی زمین اور ڈی ایچ اے میں تین چار رہائشی و کمرشل پلاٹ ملتے ہیں تو یہ ملک میں کسی ڈاکٹر انجنیر پروفیسر سائنٹسٹ یا ٹیکنو کریٹ کو کیوں نہیں ملتے؟ کسی پروفیسر یا استاد کو لینڈ کروزر کیوں نہیں دی جاتی؟ وہ بھی تو پبلک سرونٹ ہیں۔ زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ نیشن بلڈنگ میں ان کا کردار دوسروں سے بڑھ کر ہی ہے، کم نہیں۔ ڈاکٹر قدیر تو بیچارہ چند ہزار روپے پینشن پر گزارا کر رہاھے۔ ہمارے ایٹمی اور میزائل تحقیق کے سائنس دان کیوں اس استحقاق سے محروم ہیں؟
میں ایک (بطور زرعی سائنس دانوں کے ایک نمائندہ ) پی ایچ ڈی ایگریکلچرل سائنٹسٹ ہوں۔ پنحاب ایگریکلچر ریسرچ میں تقریباً پینتیس سال خدمات انجام دی ہیں۔ میری ایجاد کردہ گندم، چاول، گنا اور مکئی کی اقسام سے ملک کو اربوں نہیں کھربوں روپے کا فائدہ ہوا ھے۔ گندم کی سالانہ پیداوار دس بارہ ملین ٹن سے پچیس ملین ٹن ہو گئی ھے۔ مجھے تو کوئی پلاٹ یا لینڈ کروزر کیا ستر سی سی موٹر سائیکل بھی نہیں ملا۔
میں ریٹائر منٹ کے بعد تین مرلہ کے گھر میں رہ رہا ہوں۔ جو میں نے پینتیس سالہ ملازمت کے دوران میں چار پانچ مراحل میں اکثر دوست احباب سے قرض لے کر تعمیر کیا ھے۔ جب میں اپنی یہ حالت دیکھتا ہوں تو مجھے امریکہ کے دو بار منتخب ہونے والے صدر باراک اوباما کی یاد آتی ہے جسے وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد کرائے کے گھر کی تلاش تھی۔
ملک میں ایک پبلک سرونٹ جس نے گریڈ سترہ میں اپنی ملازمت شروع کی اور دوہزار سترہ اٹھارہ میں گریڈ انیس میں ریٹائر ہوا، اس نے اپنی بتیس چونتیس سالہ پوری ملازمت کے دوران تنخواہ و الاؤنسز کی صورت بمشکل ڈیڑھ کروڑ روپیہ سرکاری خزانے سے وصول کیا ہو گا۔ ریٹائرمنٹ پر گریجوایٹی اور جی پی فنڈ کی مد میں اسے تقریباً پچاس لاکھ روپے ملتے ہیں(یہ تخمینہ 2017–18 تک ریٹائر ہونے والے افراد کا ھے)۔ اب ایک سرکاری ملازم کو تو گھر، گاڑی اپنی اسی رقم سے ارینج کرنا ھے دوسرے ملازم کو مارکیٹ ویلیو کے لحاظ سے اربوں کے benefits استحقاق کے نام پر عطا کر دیے جائیں۔؟ یہ اتنا تفاوت کیوں۔؟