Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ حساس ہوتا جارہا ھے۔ اپنے طور پر سیکولر یا لبرل کہلوانے والے خواتین وحضرات کی ایک معقول تعداد جسے بین الاقوامی میڈیا پر خوب پزیرائی مل رہی ھے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مظاہرہ کیا ھے تعمیر کے مخالف بھی لنگوٹ کس کر مخالفت پہ تلے ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو میں چار پانچ سالہ پاکستانی بچہ حکوت کو متنبہ کرتے ہوئے کہہ رہا ھے کہ وہ مندر کی تعمیر سے باز آئے ورنہ میں گولیاں مار مار کر سب بھسم کردوں گا۔ ڈر ھے کہ اس انکار اور مخالفت کو بین الاقوامی طور پر ہمارے خلاف خوب اچھالا جائے گا۔ بہت حیرت ہے سعودی عرب میں کلیسا کی تعمیر کی بات پر تو کسی عالمِ ِدین نے معمولی سی سرگوشی میں بھی مخالفت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھئے:
متحدہ عرب امارات میں خطے کے سب سے بڑے مندر کاسنگ بنیاد رکھا گیا تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔باقی مسلم ممالک میں بھی مندر تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔مندر کی تعمیر کامعاملہ کبھی قابلِ ذکر سمجھا ہی نہیں گیا۔ مسلمانوں نے بر صغیر پر ایک طویل عرصہ تک حکومت کی اوریہاں مندر بنتے رہے۔حتیٰ کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے نیک اورانتہائی مذہبی بادشاہ نے بھی مندروں کی تعمیر پرکوئی پابندی نہ لگائی بلکہ برصغیر کے معروف صوفی بزرگ میاں میرؒ نے سکھوں کی دعوت پرلاہور سے امرتسر جا کر گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا۔
محمود غزنوی جنہیں بت شکن کے نام سےیاد کرتے ہیں انہوں نے صرف سومنات کا مندر گرایا تھا،باقی کسی مندر کو کچھ نہیں کہا تھا۔اس کے گرانے کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ مندر سادہ لوح ہندوؤں کے ساتھ فریب کاری تھا۔ وہاں دیواروں پر بڑے بڑے مقناطیس لگا کر درمیان میں سونے کے بت ہوا میں معلق کر دیےگئےتھے اور اسے بتوں کا کرشمہ قرار دیا گیا تھا۔
فتح مکہ کے وقت بھی حضورﷺنے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تھا۔لوگوں نے جو اپنے اپنے بت خانے بنائے ہوئے تھے انہیں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔صحابہ کرامؓ تو دوسروں کی عبادت گاہوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ جب جناب ِعمر فاروقؓ کویروشلم میں نماز کے وقت پادریوں نے مشورہ دیا کہ وہ چرچ میں نماز پڑھ لیں تو انہوں نے صرف اس لیے اجتناب کیا کہ میرے بعد مسلمان کہیں اسے مسجد میں نہ بدل دیں اورچرچ سے کچھ فاصلے پر جاکر نماز ادا کی۔
دوسروں کی عبادت گاہوں کا خیال کرنے والے دین کے پیروکار اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر اتنے سیخ پا کیوں رہے ہیں۔یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسی لاکھ ہندو آبادہیں۔اکثریت صوبہ سندھ میں ہے۔وہاں زیادہ تر ہندوعمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص میں مقیم ہیں۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو رفتہ رفتہ اسلام آباد آئے اور آباد ہوتے گئے۔
اسلا م آباد کی اس ہندو کمیونٹی کے مطابق اسلام آباد کے گاؤں سیدپور میں ایک چھوٹا سا بہت قدیم مندر تھاجسے اسلام آبا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بہتر بنا کر قومی ورثہ کا درجہ دےدیا۔ یہ ایک علامتی مندر ہے جو ہندوؤں کےلیے ناکافی ہے۔ان کے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ دیوالی یا ہولی منا سکیں۔اس بنیاد پر 2017 میں حکومت کی طرف سے مقامی ہندو کونسل کو مندر کےلیے چار کنال زمین الاٹ کر دی گئی مگروسائل کی کمی کے سبب تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا تو بنیادیں کھودی جانے لگیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ سرکاری رقم سے مندر تعمیر نہیں ہوسکتا۔میرے خیال کے مطابق تویہ رقم انہیں اقلیتی امور کے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ سے ملنی ہے۔ جہاں اقلیتوں کی مذہبی عمارات کےلئے مخصوص فنڈ موجودہے۔اگرچہ وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ہندوؤں کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے فنڈز سے متعلق فیصلہ وزیر اعظم کریں گےمگراس پر زیادہ بہتر روشنی وزیر مذہبی و اقلیتی امور نور الحق قادری ہی ڈال سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ حساس ہوتا جارہا ھے۔ اپنے طور پر سیکولر یا لبرل کہلوانے والے خواتین وحضرات کی ایک معقول تعداد جسے بین الاقوامی میڈیا پر خوب پزیرائی مل رہی ھے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مظاہرہ کیا ھے تعمیر کے مخالف بھی لنگوٹ کس کر مخالفت پہ تلے ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو میں چار پانچ سالہ پاکستانی بچہ حکوت کو متنبہ کرتے ہوئے کہہ رہا ھے کہ وہ مندر کی تعمیر سے باز آئے ورنہ میں گولیاں مار مار کر سب بھسم کردوں گا۔ ڈر ھے کہ اس انکار اور مخالفت کو بین الاقوامی طور پر ہمارے خلاف خوب اچھالا جائے گا۔ بہت حیرت ہے سعودی عرب میں کلیسا کی تعمیر کی بات پر تو کسی عالمِ ِدین نے معمولی سی سرگوشی میں بھی مخالفت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھئے:
متحدہ عرب امارات میں خطے کے سب سے بڑے مندر کاسنگ بنیاد رکھا گیا تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔باقی مسلم ممالک میں بھی مندر تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔مندر کی تعمیر کامعاملہ کبھی قابلِ ذکر سمجھا ہی نہیں گیا۔ مسلمانوں نے بر صغیر پر ایک طویل عرصہ تک حکومت کی اوریہاں مندر بنتے رہے۔حتیٰ کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے نیک اورانتہائی مذہبی بادشاہ نے بھی مندروں کی تعمیر پرکوئی پابندی نہ لگائی بلکہ برصغیر کے معروف صوفی بزرگ میاں میرؒ نے سکھوں کی دعوت پرلاہور سے امرتسر جا کر گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا۔
محمود غزنوی جنہیں بت شکن کے نام سےیاد کرتے ہیں انہوں نے صرف سومنات کا مندر گرایا تھا،باقی کسی مندر کو کچھ نہیں کہا تھا۔اس کے گرانے کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ مندر سادہ لوح ہندوؤں کے ساتھ فریب کاری تھا۔ وہاں دیواروں پر بڑے بڑے مقناطیس لگا کر درمیان میں سونے کے بت ہوا میں معلق کر دیےگئےتھے اور اسے بتوں کا کرشمہ قرار دیا گیا تھا۔
فتح مکہ کے وقت بھی حضورﷺنے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تھا۔لوگوں نے جو اپنے اپنے بت خانے بنائے ہوئے تھے انہیں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔صحابہ کرامؓ تو دوسروں کی عبادت گاہوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ جب جناب ِعمر فاروقؓ کویروشلم میں نماز کے وقت پادریوں نے مشورہ دیا کہ وہ چرچ میں نماز پڑھ لیں تو انہوں نے صرف اس لیے اجتناب کیا کہ میرے بعد مسلمان کہیں اسے مسجد میں نہ بدل دیں اورچرچ سے کچھ فاصلے پر جاکر نماز ادا کی۔
دوسروں کی عبادت گاہوں کا خیال کرنے والے دین کے پیروکار اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر اتنے سیخ پا کیوں رہے ہیں۔یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسی لاکھ ہندو آبادہیں۔اکثریت صوبہ سندھ میں ہے۔وہاں زیادہ تر ہندوعمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص میں مقیم ہیں۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو رفتہ رفتہ اسلام آباد آئے اور آباد ہوتے گئے۔
اسلا م آباد کی اس ہندو کمیونٹی کے مطابق اسلام آباد کے گاؤں سیدپور میں ایک چھوٹا سا بہت قدیم مندر تھاجسے اسلام آبا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بہتر بنا کر قومی ورثہ کا درجہ دےدیا۔ یہ ایک علامتی مندر ہے جو ہندوؤں کےلیے ناکافی ہے۔ان کے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ دیوالی یا ہولی منا سکیں۔اس بنیاد پر 2017 میں حکومت کی طرف سے مقامی ہندو کونسل کو مندر کےلیے چار کنال زمین الاٹ کر دی گئی مگروسائل کی کمی کے سبب تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا تو بنیادیں کھودی جانے لگیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ سرکاری رقم سے مندر تعمیر نہیں ہوسکتا۔میرے خیال کے مطابق تویہ رقم انہیں اقلیتی امور کے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ سے ملنی ہے۔ جہاں اقلیتوں کی مذہبی عمارات کےلئے مخصوص فنڈ موجودہے۔اگرچہ وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ہندوؤں کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے فنڈز سے متعلق فیصلہ وزیر اعظم کریں گےمگراس پر زیادہ بہتر روشنی وزیر مذہبی و اقلیتی امور نور الحق قادری ہی ڈال سکتے ہیں۔
ADVERTISEMENT
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ حساس ہوتا جارہا ھے۔ اپنے طور پر سیکولر یا لبرل کہلوانے والے خواتین وحضرات کی ایک معقول تعداد جسے بین الاقوامی میڈیا پر خوب پزیرائی مل رہی ھے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مظاہرہ کیا ھے تعمیر کے مخالف بھی لنگوٹ کس کر مخالفت پہ تلے ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو میں چار پانچ سالہ پاکستانی بچہ حکوت کو متنبہ کرتے ہوئے کہہ رہا ھے کہ وہ مندر کی تعمیر سے باز آئے ورنہ میں گولیاں مار مار کر سب بھسم کردوں گا۔ ڈر ھے کہ اس انکار اور مخالفت کو بین الاقوامی طور پر ہمارے خلاف خوب اچھالا جائے گا۔ بہت حیرت ہے سعودی عرب میں کلیسا کی تعمیر کی بات پر تو کسی عالمِ ِدین نے معمولی سی سرگوشی میں بھی مخالفت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھئے:
متحدہ عرب امارات میں خطے کے سب سے بڑے مندر کاسنگ بنیاد رکھا گیا تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔باقی مسلم ممالک میں بھی مندر تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔مندر کی تعمیر کامعاملہ کبھی قابلِ ذکر سمجھا ہی نہیں گیا۔ مسلمانوں نے بر صغیر پر ایک طویل عرصہ تک حکومت کی اوریہاں مندر بنتے رہے۔حتیٰ کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے نیک اورانتہائی مذہبی بادشاہ نے بھی مندروں کی تعمیر پرکوئی پابندی نہ لگائی بلکہ برصغیر کے معروف صوفی بزرگ میاں میرؒ نے سکھوں کی دعوت پرلاہور سے امرتسر جا کر گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا۔
محمود غزنوی جنہیں بت شکن کے نام سےیاد کرتے ہیں انہوں نے صرف سومنات کا مندر گرایا تھا،باقی کسی مندر کو کچھ نہیں کہا تھا۔اس کے گرانے کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ مندر سادہ لوح ہندوؤں کے ساتھ فریب کاری تھا۔ وہاں دیواروں پر بڑے بڑے مقناطیس لگا کر درمیان میں سونے کے بت ہوا میں معلق کر دیےگئےتھے اور اسے بتوں کا کرشمہ قرار دیا گیا تھا۔
فتح مکہ کے وقت بھی حضورﷺنے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تھا۔لوگوں نے جو اپنے اپنے بت خانے بنائے ہوئے تھے انہیں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔صحابہ کرامؓ تو دوسروں کی عبادت گاہوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ جب جناب ِعمر فاروقؓ کویروشلم میں نماز کے وقت پادریوں نے مشورہ دیا کہ وہ چرچ میں نماز پڑھ لیں تو انہوں نے صرف اس لیے اجتناب کیا کہ میرے بعد مسلمان کہیں اسے مسجد میں نہ بدل دیں اورچرچ سے کچھ فاصلے پر جاکر نماز ادا کی۔
دوسروں کی عبادت گاہوں کا خیال کرنے والے دین کے پیروکار اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر اتنے سیخ پا کیوں رہے ہیں۔یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسی لاکھ ہندو آبادہیں۔اکثریت صوبہ سندھ میں ہے۔وہاں زیادہ تر ہندوعمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص میں مقیم ہیں۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو رفتہ رفتہ اسلام آباد آئے اور آباد ہوتے گئے۔
اسلا م آباد کی اس ہندو کمیونٹی کے مطابق اسلام آباد کے گاؤں سیدپور میں ایک چھوٹا سا بہت قدیم مندر تھاجسے اسلام آبا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بہتر بنا کر قومی ورثہ کا درجہ دےدیا۔ یہ ایک علامتی مندر ہے جو ہندوؤں کےلیے ناکافی ہے۔ان کے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ دیوالی یا ہولی منا سکیں۔اس بنیاد پر 2017 میں حکومت کی طرف سے مقامی ہندو کونسل کو مندر کےلیے چار کنال زمین الاٹ کر دی گئی مگروسائل کی کمی کے سبب تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا تو بنیادیں کھودی جانے لگیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ سرکاری رقم سے مندر تعمیر نہیں ہوسکتا۔میرے خیال کے مطابق تویہ رقم انہیں اقلیتی امور کے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ سے ملنی ہے۔ جہاں اقلیتوں کی مذہبی عمارات کےلئے مخصوص فنڈ موجودہے۔اگرچہ وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ہندوؤں کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے فنڈز سے متعلق فیصلہ وزیر اعظم کریں گےمگراس پر زیادہ بہتر روشنی وزیر مذہبی و اقلیتی امور نور الحق قادری ہی ڈال سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کا معاملہ وقت گزرنے کے ساتھ زیادہ حساس ہوتا جارہا ھے۔ اپنے طور پر سیکولر یا لبرل کہلوانے والے خواتین وحضرات کی ایک معقول تعداد جسے بین الاقوامی میڈیا پر خوب پزیرائی مل رہی ھے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے حق میں مظاہرہ کیا ھے تعمیر کے مخالف بھی لنگوٹ کس کر مخالفت پہ تلے ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا پر ایک مختصر ویڈیو میں چار پانچ سالہ پاکستانی بچہ حکوت کو متنبہ کرتے ہوئے کہہ رہا ھے کہ وہ مندر کی تعمیر سے باز آئے ورنہ میں گولیاں مار مار کر سب بھسم کردوں گا۔ ڈر ھے کہ اس انکار اور مخالفت کو بین الاقوامی طور پر ہمارے خلاف خوب اچھالا جائے گا۔ بہت حیرت ہے سعودی عرب میں کلیسا کی تعمیر کی بات پر تو کسی عالمِ ِدین نے معمولی سی سرگوشی میں بھی مخالفت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھئے:
متحدہ عرب امارات میں خطے کے سب سے بڑے مندر کاسنگ بنیاد رکھا گیا تو کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آئی۔باقی مسلم ممالک میں بھی مندر تعمیر ہوتے رہتے ہیں۔مندر کی تعمیر کامعاملہ کبھی قابلِ ذکر سمجھا ہی نہیں گیا۔ مسلمانوں نے بر صغیر پر ایک طویل عرصہ تک حکومت کی اوریہاں مندر بنتے رہے۔حتیٰ کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے نیک اورانتہائی مذہبی بادشاہ نے بھی مندروں کی تعمیر پرکوئی پابندی نہ لگائی بلکہ برصغیر کے معروف صوفی بزرگ میاں میرؒ نے سکھوں کی دعوت پرلاہور سے امرتسر جا کر گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا۔
محمود غزنوی جنہیں بت شکن کے نام سےیاد کرتے ہیں انہوں نے صرف سومنات کا مندر گرایا تھا،باقی کسی مندر کو کچھ نہیں کہا تھا۔اس کے گرانے کی وجہ بھی یہ تھی کہ وہ مندر سادہ لوح ہندوؤں کے ساتھ فریب کاری تھا۔ وہاں دیواروں پر بڑے بڑے مقناطیس لگا کر درمیان میں سونے کے بت ہوا میں معلق کر دیےگئےتھے اور اسے بتوں کا کرشمہ قرار دیا گیا تھا۔
فتح مکہ کے وقت بھی حضورﷺنے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا تھا۔لوگوں نے جو اپنے اپنے بت خانے بنائے ہوئے تھے انہیں کچھ نہیں کہا گیا تھا۔صحابہ کرامؓ تو دوسروں کی عبادت گاہوں کا اتنا خیال کرتے تھے کہ جب جناب ِعمر فاروقؓ کویروشلم میں نماز کے وقت پادریوں نے مشورہ دیا کہ وہ چرچ میں نماز پڑھ لیں تو انہوں نے صرف اس لیے اجتناب کیا کہ میرے بعد مسلمان کہیں اسے مسجد میں نہ بدل دیں اورچرچ سے کچھ فاصلے پر جاکر نماز ادا کی۔
دوسروں کی عبادت گاہوں کا خیال کرنے والے دین کے پیروکار اسلام آباد میں ایک مندر کی تعمیر پر اتنے سیخ پا کیوں رہے ہیں۔یہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔
ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں تقریباً اسی لاکھ ہندو آبادہیں۔اکثریت صوبہ سندھ میں ہے۔وہاں زیادہ تر ہندوعمر کوٹ، تھرپارکر، اور میرپور خاص میں مقیم ہیں۔ اسلام آباد میں رہنے والے ہندوؤں کی تعداد تقریباً 3000 ہے۔یہ سندھ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، جو رفتہ رفتہ اسلام آباد آئے اور آباد ہوتے گئے۔
اسلا م آباد کی اس ہندو کمیونٹی کے مطابق اسلام آباد کے گاؤں سیدپور میں ایک چھوٹا سا بہت قدیم مندر تھاجسے اسلام آبا ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے بہتر بنا کر قومی ورثہ کا درجہ دےدیا۔ یہ ایک علامتی مندر ہے جو ہندوؤں کےلیے ناکافی ہے۔ان کے پاس کوئی کمیونٹی سینٹر نہیں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ دیوالی یا ہولی منا سکیں۔اس بنیاد پر 2017 میں حکومت کی طرف سے مقامی ہندو کونسل کو مندر کےلیے چار کنال زمین الاٹ کر دی گئی مگروسائل کی کمی کے سبب تعمیر کا کام شروع نہ ہوسکا۔ اب وزیراعظم نے تعمیر کے پہلے مرحلے کے لیے دس کروڑ روپے کا اعلان کیا تو بنیادیں کھودی جانے لگیں۔
سب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ سرکاری رقم سے مندر تعمیر نہیں ہوسکتا۔میرے خیال کے مطابق تویہ رقم انہیں اقلیتی امور کے متروکہ وقف املاک بورڈ کے اکائونٹ سے ملنی ہے۔ جہاں اقلیتوں کی مذہبی عمارات کےلئے مخصوص فنڈ موجودہے۔اگرچہ وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ہندوؤں کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لیے فنڈز سے متعلق فیصلہ وزیر اعظم کریں گےمگراس پر زیادہ بہتر روشنی وزیر مذہبی و اقلیتی امور نور الحق قادری ہی ڈال سکتے ہیں۔