Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 45
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
Warning: Attempt to read property "child" on null in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 25
لیوس اسٹراس کی وضع کردہ اصطلاح بری کولاج ( Bricolage ) کو بغیر ترجمہ ہر زبان میں اسی طرح استعمال کیا گیا ہے ۔ بری کولاج سے مراد موقع و محل کے مطابق دستیاب شدہ مواد کو کسی مقصد کے تحت کام میں لانا ہے۔ لیوس اسٹراس نے اساطیر اور قدیم قصوں کے بارے یہ اصطلاح وضع کی تھی۔ ان کے نزدیک قصہ گو یا زبانی روایت کہنے والے کی نفسیات کے تحت اور موقع و محل یا زمانے کی ضرورتوں کے مطابق کہانی اپنے قالب بدلتی رہتی ہے اور ہر عہد کی تقافتی روح قصوں میں رنگ آمیزی کرتی رہتی ہے۔ قصہ گو کی طبیعت، فطری میلان، نقطہ نظر اور ثقافت و سماج کی مخصوص فضا کے تقاضے روایتی حیثیت کو متاثر اور متعین کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک قصہ تحریری روپ اختیار کر لیتا ہے تو وہ نظریاتی بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
سندھ کے قدیم قصہ عمر مارئی کی بھی عہد بہ عہد بری کولیجکل تعبیر ہوتی رہی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی سے قبل بنیادی پلاٹ کے علاوہ اس قصے کے انجام پر بھی سندھ کی قبائلی ثقافت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جو اس عہد کی ثقافتی روح کی اثر پذیری ہے۔ اس کے علاوہ ہر قصہ گو نے اپنی زبانی روایت کے ذریعے سیاسی اور سماجی تقاضوں کے قصے کو پیش کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز عدل کا ایک استعارہ
عالم تمام حلقہء دامِ جمال ہے
عمر مارئی کا قصہ سندھ میں قدیم دور سے رائج ہے اور سومرہ دور حکومت میں وقوع پذیر ہوا۔ سمہ دور حکومت میں علاقائی گائیکوں اور گلی محلوں کے تذکروں سے مشہور ہوا۔ گائیک جس راگ میں اسے گاتے تھے اسے راگ مارئی کہتے ہیں۔ گائیکوں اور تذکرہ گویوں نے اپنے فطری میلان اور نفسیاتی حالتوں کے تحت عمر مارئی قصے میں انحراف اور تغیر بھی پیدا کیے۔ تاریخ طاہری کے مطابق سندھ کے حاکم مرزا جانی بیگ کو اکبر بادشاہ نے دربار میں مدعو کیا تو جانی بیگ کے گائیکوں نے سر مارئی میں یہ قصہ گا کر سنایا تھا۔ سندھی شاعری میں شاہ لطیف پہلے شاعر ہیں جنھوں نے مارئی کے بیت کہے تھے اور روایت اس طرح ہے کہ شاہ عنایت نے ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی مارئی کے ابیات کہنے کا شوق ڈالا تھا۔
یہ قصہ تھر کے ایک مارو قبیلے کی خوب صورت دوشیزہ مارئی کا ہے جس کے حسن کی شہرت قرب و جوار میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھر کا بادشاہ عمر مارئی کے حسن کی تعریف سن کر اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مارو قبیلے کی مجسمہ حسن مارئی کو کنویں سے پانی بھرتے ہوئے اٹھا کر امر کوٹ لے جاتا ہے۔ عمر نے مارئی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو مارئی کا انکار ملا۔ جس کے ردعمل میں مارئی کو قید کردیا اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئی۔ لیکن ہر طرح کی اذیت اور ہر قسم کا حربہ مارئی کے انکار کو اقرار میں بدلنے میں ناکام ہوا تو عمر مارئی کو بہن بنا کر بہ حفاظت اور عزت و احترام کے ساتھ مارو قبیلے کے حوالے کردیتا ہے۔ مارو قبیلے کے افراد مارئی کے کردار پر شک کرتے ہوئے اسے ناپاک قرار دیتے ہیں۔ مارئی کو اپنی عصمت اور پاکی کی خاطر ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں کھیت سین جس کے ساتھ مارئی کا رشتہ طے ہو چکا ہوتا ہے بیاہ دی جاتی ہے۔ یکن ایک رات جب مارئی کھیت سین سے اپنی عصمت کے بارے سوال پوچھتی ہے تو کھیت سین کے اندر خلش موجود پاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق مارئی کا سانس رک جاتا ہے اور وہی مر جاتی ہے۔ لیکن انجام کے بارے روایتوں میں اختلاف ہے مگر مارئی کا انجام کچھ بہتر کہیں بھی نہیں۔
مقصد یہاں قصہ سنانا نہیں بلکہ قصہ میں بری کولیجیکیشن اور مارئی کی علامتی تفہیم کے حوالے سے کولیجیکل عمل کے ذریعے تفہیم پر نظر ثانی کرنا ہے ۔ ایک طرف تو سندھی روایات اور قبائل کی رسومات کے جا بجا حوالے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مارئی کے انجام کے بارے کوئی مستند روایت نہیں ملتی۔ اس سارے کے درون عورت کی عظمت اور ایک باوقار پہچان کی علامت سامنے آتی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی کے بعد جب تحریری روپ سامنے آیا تو قصہ کی ساخت کی بجائے نظریاتی مباحث کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ ہر ایک نے مختلف مقاصد اور نظریات کے تحت تعبیرو تشریح کی۔ شاہ لطیف کے سر مارئی کو عمومی طور پر حب الوطنی کا سر کہا جاتا ہے اور مارئی وطن کی محبت کی علامت ہے۔ ایک خیال کے مطابق مارئی اس سندھ کی علامت ہے جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور اپنوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ ایک خیال کے مطابق ایک عام سندھی فرد کی علامت ہے جو سب ہی غلام تھے اور ظالم حکمران کے جبر کا شکار تھے۔ کسی نے کہا مارئی طبقاتی سماج اور اس کے جبر کی نفی ہے۔ بعض کے نزدیک مارئی آزادی روح کی ایک علامت ہے ۔ صوفیاء کے نزدیک ایک سچے عاشق الہی کی علامت ہے اور امر کوٹ کے محل کی رنگینی دنیا ہے اور ملیر مراجعت کی طرف اشارہ ہے۔
شاہ لطیف کی سرمارئی میں اس قدر تنوع اور وسعت ہے کہ ان کے کلام سے مختلف قسم کے معانی اور مفاہیم کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی ذہنی استعداد، فطری میلان اور سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت مارئی کی علامتی تفہیم و تعبیر کی ہے۔
ان تمام تعبیرات سے الگ مارئی کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے والدین، شوہر، گھر اور مارو لوگوں کی لوئی کی لاج رکھتی ہے اور دولت اور شاہی محلات کی رونقوں کو پسِ پشت ڈال کر کردار کی پختگی کی علامت ہے۔ یہاں مارئی نہ تو وطن کی محبت کی علامت ہے اور نہ ہی وصال کل اور وجودِ حقیقی کی طرف مراجعت کی علامت ہے بلکہ ایک روایتی سماج میں عورت کے باوقار کردار اور تقدیش مشرق کی علامت ہے۔ سر مارئی کے ایک بیت میں مارئی کہتی ہے۔
“اے سردار مجھے غلط کام کے لیے مجبور مت کرو مجھے آج نہیں تو کل اپنے لوگوں کے پاس ملیر جانا ہے ایسا نہ ہو کہ وہاں سر اٹھانے کے قابل نہ رہوں”
ایک اور بیت میں کہتی ہے ” چرواہوں کی بیٹاں ہر گز ریشم نہیں پہنتی ہماری سادہ لوئیاں تمھاری قیمتی شالوں سے بہتر ہیں۔ میرے لیے تمھارے سرخ لباس سے اپنی کھردری چادر زیادہ قیمتی ہے جو میرے غریب ماروں نے اوڑھائی تھی وہ اتر گئی تو میں شرم سے مر جاؤں گی”
اس کے برعکس تھر کا قبیلہ مارو موجود سماج کی اس اجتماعی سوچ کا ترجمان ہے جس کے مطابق عورت مخلوط نظام تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں اپنے جسم کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ جس کے نتیجہ میں پڑھی لکھی خواتین کی شادی کے لیے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مخلوط تعلیمی اداروں کی بجائے خواتین کالجز اور یونیورسٹیز یا مدارس میں پڑھنے والی لڑکیوں کے بارے تشویش کا اظہار کم ملتا ہے۔ مارئی ایک ایسا کردار ہے جو برقع، اور روایتی پردہ نہیں کرتی اور ایک عرصہ سومرو کے قبضے میں رہ کر اپنے قبیلے کی لوئی کی لاج رکھتی ہے۔
عمر، مارئی اور مارو قبیلہ موجودہ سماجی تناظر میں تین مختلف گروہوں کی علامتیں ہیں۔ دور حاضر کے ایک سروے کے مطابق پاک و ہند میں طلاق کی شرح پڑھی لکھی خواتین میں بہت زیادہ ہے۔ اگر غور کریں تو اس کے پیچھے موجودہ طبقاتی تقسیم، مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کے بارے مارو قبیلہ کی اجتماعی سوچ ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی عورتوں کے بارے ویسے ہی خلشات جنم لیتے ہیں۔ اور شادی کے لیے انھیں معاملات پر پرکھ کی جاتی ہے۔ عورت کو اپنی عصمت کی گواہی دینے کے لیے نہ جانے کتنے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں یا تو عورت کی شادی نہیں ہو رہی اور اکثریت کا شادی کے بعد بریک اپ ہو جاتا ہے یا پھر متعدد نفسیاتی عوارض اور ازدواجی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ موجودہ ثقافتی اور سماجی رویوں پر مارئی کا عصمت کی گواہی کے لیے انگاروں پر چلنا اور پھر کھیت سین کے اندر خلشات محسوس کرنے کے بعد مر جانا قدیم سندھی قبائل کی روایات اور موجودہ دور کے سماجی اور نفسیاتی معیارات اور مفروضات میں گہری مماثلت ہے ۔ مارئی کا کردار عورت کے اعتماد اور تقدیسِ مشرق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قصہ عمر مارئی کی نئی کولیجکل تفہیم اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ بدلتے ہوئے ثقافتی اور سماجی رحجانات کے اندر اس مجموعی سوچ کے زاویے بدلنے میں آسانی ہو۔
لیوس اسٹراس کی وضع کردہ اصطلاح بری کولاج ( Bricolage ) کو بغیر ترجمہ ہر زبان میں اسی طرح استعمال کیا گیا ہے ۔ بری کولاج سے مراد موقع و محل کے مطابق دستیاب شدہ مواد کو کسی مقصد کے تحت کام میں لانا ہے۔ لیوس اسٹراس نے اساطیر اور قدیم قصوں کے بارے یہ اصطلاح وضع کی تھی۔ ان کے نزدیک قصہ گو یا زبانی روایت کہنے والے کی نفسیات کے تحت اور موقع و محل یا زمانے کی ضرورتوں کے مطابق کہانی اپنے قالب بدلتی رہتی ہے اور ہر عہد کی تقافتی روح قصوں میں رنگ آمیزی کرتی رہتی ہے۔ قصہ گو کی طبیعت، فطری میلان، نقطہ نظر اور ثقافت و سماج کی مخصوص فضا کے تقاضے روایتی حیثیت کو متاثر اور متعین کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک قصہ تحریری روپ اختیار کر لیتا ہے تو وہ نظریاتی بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
سندھ کے قدیم قصہ عمر مارئی کی بھی عہد بہ عہد بری کولیجکل تعبیر ہوتی رہی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی سے قبل بنیادی پلاٹ کے علاوہ اس قصے کے انجام پر بھی سندھ کی قبائلی ثقافت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جو اس عہد کی ثقافتی روح کی اثر پذیری ہے۔ اس کے علاوہ ہر قصہ گو نے اپنی زبانی روایت کے ذریعے سیاسی اور سماجی تقاضوں کے قصے کو پیش کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز عدل کا ایک استعارہ
عالم تمام حلقہء دامِ جمال ہے
عمر مارئی کا قصہ سندھ میں قدیم دور سے رائج ہے اور سومرہ دور حکومت میں وقوع پذیر ہوا۔ سمہ دور حکومت میں علاقائی گائیکوں اور گلی محلوں کے تذکروں سے مشہور ہوا۔ گائیک جس راگ میں اسے گاتے تھے اسے راگ مارئی کہتے ہیں۔ گائیکوں اور تذکرہ گویوں نے اپنے فطری میلان اور نفسیاتی حالتوں کے تحت عمر مارئی قصے میں انحراف اور تغیر بھی پیدا کیے۔ تاریخ طاہری کے مطابق سندھ کے حاکم مرزا جانی بیگ کو اکبر بادشاہ نے دربار میں مدعو کیا تو جانی بیگ کے گائیکوں نے سر مارئی میں یہ قصہ گا کر سنایا تھا۔ سندھی شاعری میں شاہ لطیف پہلے شاعر ہیں جنھوں نے مارئی کے بیت کہے تھے اور روایت اس طرح ہے کہ شاہ عنایت نے ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی مارئی کے ابیات کہنے کا شوق ڈالا تھا۔
یہ قصہ تھر کے ایک مارو قبیلے کی خوب صورت دوشیزہ مارئی کا ہے جس کے حسن کی شہرت قرب و جوار میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھر کا بادشاہ عمر مارئی کے حسن کی تعریف سن کر اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مارو قبیلے کی مجسمہ حسن مارئی کو کنویں سے پانی بھرتے ہوئے اٹھا کر امر کوٹ لے جاتا ہے۔ عمر نے مارئی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو مارئی کا انکار ملا۔ جس کے ردعمل میں مارئی کو قید کردیا اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئی۔ لیکن ہر طرح کی اذیت اور ہر قسم کا حربہ مارئی کے انکار کو اقرار میں بدلنے میں ناکام ہوا تو عمر مارئی کو بہن بنا کر بہ حفاظت اور عزت و احترام کے ساتھ مارو قبیلے کے حوالے کردیتا ہے۔ مارو قبیلے کے افراد مارئی کے کردار پر شک کرتے ہوئے اسے ناپاک قرار دیتے ہیں۔ مارئی کو اپنی عصمت اور پاکی کی خاطر ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں کھیت سین جس کے ساتھ مارئی کا رشتہ طے ہو چکا ہوتا ہے بیاہ دی جاتی ہے۔ یکن ایک رات جب مارئی کھیت سین سے اپنی عصمت کے بارے سوال پوچھتی ہے تو کھیت سین کے اندر خلش موجود پاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق مارئی کا سانس رک جاتا ہے اور وہی مر جاتی ہے۔ لیکن انجام کے بارے روایتوں میں اختلاف ہے مگر مارئی کا انجام کچھ بہتر کہیں بھی نہیں۔
مقصد یہاں قصہ سنانا نہیں بلکہ قصہ میں بری کولیجیکیشن اور مارئی کی علامتی تفہیم کے حوالے سے کولیجیکل عمل کے ذریعے تفہیم پر نظر ثانی کرنا ہے ۔ ایک طرف تو سندھی روایات اور قبائل کی رسومات کے جا بجا حوالے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مارئی کے انجام کے بارے کوئی مستند روایت نہیں ملتی۔ اس سارے کے درون عورت کی عظمت اور ایک باوقار پہچان کی علامت سامنے آتی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی کے بعد جب تحریری روپ سامنے آیا تو قصہ کی ساخت کی بجائے نظریاتی مباحث کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ ہر ایک نے مختلف مقاصد اور نظریات کے تحت تعبیرو تشریح کی۔ شاہ لطیف کے سر مارئی کو عمومی طور پر حب الوطنی کا سر کہا جاتا ہے اور مارئی وطن کی محبت کی علامت ہے۔ ایک خیال کے مطابق مارئی اس سندھ کی علامت ہے جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور اپنوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ ایک خیال کے مطابق ایک عام سندھی فرد کی علامت ہے جو سب ہی غلام تھے اور ظالم حکمران کے جبر کا شکار تھے۔ کسی نے کہا مارئی طبقاتی سماج اور اس کے جبر کی نفی ہے۔ بعض کے نزدیک مارئی آزادی روح کی ایک علامت ہے ۔ صوفیاء کے نزدیک ایک سچے عاشق الہی کی علامت ہے اور امر کوٹ کے محل کی رنگینی دنیا ہے اور ملیر مراجعت کی طرف اشارہ ہے۔
شاہ لطیف کی سرمارئی میں اس قدر تنوع اور وسعت ہے کہ ان کے کلام سے مختلف قسم کے معانی اور مفاہیم کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی ذہنی استعداد، فطری میلان اور سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت مارئی کی علامتی تفہیم و تعبیر کی ہے۔
ان تمام تعبیرات سے الگ مارئی کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے والدین، شوہر، گھر اور مارو لوگوں کی لوئی کی لاج رکھتی ہے اور دولت اور شاہی محلات کی رونقوں کو پسِ پشت ڈال کر کردار کی پختگی کی علامت ہے۔ یہاں مارئی نہ تو وطن کی محبت کی علامت ہے اور نہ ہی وصال کل اور وجودِ حقیقی کی طرف مراجعت کی علامت ہے بلکہ ایک روایتی سماج میں عورت کے باوقار کردار اور تقدیش مشرق کی علامت ہے۔ سر مارئی کے ایک بیت میں مارئی کہتی ہے۔
“اے سردار مجھے غلط کام کے لیے مجبور مت کرو مجھے آج نہیں تو کل اپنے لوگوں کے پاس ملیر جانا ہے ایسا نہ ہو کہ وہاں سر اٹھانے کے قابل نہ رہوں”
ایک اور بیت میں کہتی ہے ” چرواہوں کی بیٹاں ہر گز ریشم نہیں پہنتی ہماری سادہ لوئیاں تمھاری قیمتی شالوں سے بہتر ہیں۔ میرے لیے تمھارے سرخ لباس سے اپنی کھردری چادر زیادہ قیمتی ہے جو میرے غریب ماروں نے اوڑھائی تھی وہ اتر گئی تو میں شرم سے مر جاؤں گی”
اس کے برعکس تھر کا قبیلہ مارو موجود سماج کی اس اجتماعی سوچ کا ترجمان ہے جس کے مطابق عورت مخلوط نظام تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں اپنے جسم کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ جس کے نتیجہ میں پڑھی لکھی خواتین کی شادی کے لیے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مخلوط تعلیمی اداروں کی بجائے خواتین کالجز اور یونیورسٹیز یا مدارس میں پڑھنے والی لڑکیوں کے بارے تشویش کا اظہار کم ملتا ہے۔ مارئی ایک ایسا کردار ہے جو برقع، اور روایتی پردہ نہیں کرتی اور ایک عرصہ سومرو کے قبضے میں رہ کر اپنے قبیلے کی لوئی کی لاج رکھتی ہے۔
عمر، مارئی اور مارو قبیلہ موجودہ سماجی تناظر میں تین مختلف گروہوں کی علامتیں ہیں۔ دور حاضر کے ایک سروے کے مطابق پاک و ہند میں طلاق کی شرح پڑھی لکھی خواتین میں بہت زیادہ ہے۔ اگر غور کریں تو اس کے پیچھے موجودہ طبقاتی تقسیم، مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کے بارے مارو قبیلہ کی اجتماعی سوچ ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی عورتوں کے بارے ویسے ہی خلشات جنم لیتے ہیں۔ اور شادی کے لیے انھیں معاملات پر پرکھ کی جاتی ہے۔ عورت کو اپنی عصمت کی گواہی دینے کے لیے نہ جانے کتنے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں یا تو عورت کی شادی نہیں ہو رہی اور اکثریت کا شادی کے بعد بریک اپ ہو جاتا ہے یا پھر متعدد نفسیاتی عوارض اور ازدواجی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ موجودہ ثقافتی اور سماجی رویوں پر مارئی کا عصمت کی گواہی کے لیے انگاروں پر چلنا اور پھر کھیت سین کے اندر خلشات محسوس کرنے کے بعد مر جانا قدیم سندھی قبائل کی روایات اور موجودہ دور کے سماجی اور نفسیاتی معیارات اور مفروضات میں گہری مماثلت ہے ۔ مارئی کا کردار عورت کے اعتماد اور تقدیسِ مشرق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قصہ عمر مارئی کی نئی کولیجکل تفہیم اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ بدلتے ہوئے ثقافتی اور سماجی رحجانات کے اندر اس مجموعی سوچ کے زاویے بدلنے میں آسانی ہو۔
لیوس اسٹراس کی وضع کردہ اصطلاح بری کولاج ( Bricolage ) کو بغیر ترجمہ ہر زبان میں اسی طرح استعمال کیا گیا ہے ۔ بری کولاج سے مراد موقع و محل کے مطابق دستیاب شدہ مواد کو کسی مقصد کے تحت کام میں لانا ہے۔ لیوس اسٹراس نے اساطیر اور قدیم قصوں کے بارے یہ اصطلاح وضع کی تھی۔ ان کے نزدیک قصہ گو یا زبانی روایت کہنے والے کی نفسیات کے تحت اور موقع و محل یا زمانے کی ضرورتوں کے مطابق کہانی اپنے قالب بدلتی رہتی ہے اور ہر عہد کی تقافتی روح قصوں میں رنگ آمیزی کرتی رہتی ہے۔ قصہ گو کی طبیعت، فطری میلان، نقطہ نظر اور ثقافت و سماج کی مخصوص فضا کے تقاضے روایتی حیثیت کو متاثر اور متعین کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک قصہ تحریری روپ اختیار کر لیتا ہے تو وہ نظریاتی بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
سندھ کے قدیم قصہ عمر مارئی کی بھی عہد بہ عہد بری کولیجکل تعبیر ہوتی رہی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی سے قبل بنیادی پلاٹ کے علاوہ اس قصے کے انجام پر بھی سندھ کی قبائلی ثقافت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جو اس عہد کی ثقافتی روح کی اثر پذیری ہے۔ اس کے علاوہ ہر قصہ گو نے اپنی زبانی روایت کے ذریعے سیاسی اور سماجی تقاضوں کے قصے کو پیش کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز عدل کا ایک استعارہ
عالم تمام حلقہء دامِ جمال ہے
عمر مارئی کا قصہ سندھ میں قدیم دور سے رائج ہے اور سومرہ دور حکومت میں وقوع پذیر ہوا۔ سمہ دور حکومت میں علاقائی گائیکوں اور گلی محلوں کے تذکروں سے مشہور ہوا۔ گائیک جس راگ میں اسے گاتے تھے اسے راگ مارئی کہتے ہیں۔ گائیکوں اور تذکرہ گویوں نے اپنے فطری میلان اور نفسیاتی حالتوں کے تحت عمر مارئی قصے میں انحراف اور تغیر بھی پیدا کیے۔ تاریخ طاہری کے مطابق سندھ کے حاکم مرزا جانی بیگ کو اکبر بادشاہ نے دربار میں مدعو کیا تو جانی بیگ کے گائیکوں نے سر مارئی میں یہ قصہ گا کر سنایا تھا۔ سندھی شاعری میں شاہ لطیف پہلے شاعر ہیں جنھوں نے مارئی کے بیت کہے تھے اور روایت اس طرح ہے کہ شاہ عنایت نے ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی مارئی کے ابیات کہنے کا شوق ڈالا تھا۔
یہ قصہ تھر کے ایک مارو قبیلے کی خوب صورت دوشیزہ مارئی کا ہے جس کے حسن کی شہرت قرب و جوار میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھر کا بادشاہ عمر مارئی کے حسن کی تعریف سن کر اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مارو قبیلے کی مجسمہ حسن مارئی کو کنویں سے پانی بھرتے ہوئے اٹھا کر امر کوٹ لے جاتا ہے۔ عمر نے مارئی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو مارئی کا انکار ملا۔ جس کے ردعمل میں مارئی کو قید کردیا اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئی۔ لیکن ہر طرح کی اذیت اور ہر قسم کا حربہ مارئی کے انکار کو اقرار میں بدلنے میں ناکام ہوا تو عمر مارئی کو بہن بنا کر بہ حفاظت اور عزت و احترام کے ساتھ مارو قبیلے کے حوالے کردیتا ہے۔ مارو قبیلے کے افراد مارئی کے کردار پر شک کرتے ہوئے اسے ناپاک قرار دیتے ہیں۔ مارئی کو اپنی عصمت اور پاکی کی خاطر ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں کھیت سین جس کے ساتھ مارئی کا رشتہ طے ہو چکا ہوتا ہے بیاہ دی جاتی ہے۔ یکن ایک رات جب مارئی کھیت سین سے اپنی عصمت کے بارے سوال پوچھتی ہے تو کھیت سین کے اندر خلش موجود پاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق مارئی کا سانس رک جاتا ہے اور وہی مر جاتی ہے۔ لیکن انجام کے بارے روایتوں میں اختلاف ہے مگر مارئی کا انجام کچھ بہتر کہیں بھی نہیں۔
مقصد یہاں قصہ سنانا نہیں بلکہ قصہ میں بری کولیجیکیشن اور مارئی کی علامتی تفہیم کے حوالے سے کولیجیکل عمل کے ذریعے تفہیم پر نظر ثانی کرنا ہے ۔ ایک طرف تو سندھی روایات اور قبائل کی رسومات کے جا بجا حوالے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مارئی کے انجام کے بارے کوئی مستند روایت نہیں ملتی۔ اس سارے کے درون عورت کی عظمت اور ایک باوقار پہچان کی علامت سامنے آتی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی کے بعد جب تحریری روپ سامنے آیا تو قصہ کی ساخت کی بجائے نظریاتی مباحث کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ ہر ایک نے مختلف مقاصد اور نظریات کے تحت تعبیرو تشریح کی۔ شاہ لطیف کے سر مارئی کو عمومی طور پر حب الوطنی کا سر کہا جاتا ہے اور مارئی وطن کی محبت کی علامت ہے۔ ایک خیال کے مطابق مارئی اس سندھ کی علامت ہے جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور اپنوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ ایک خیال کے مطابق ایک عام سندھی فرد کی علامت ہے جو سب ہی غلام تھے اور ظالم حکمران کے جبر کا شکار تھے۔ کسی نے کہا مارئی طبقاتی سماج اور اس کے جبر کی نفی ہے۔ بعض کے نزدیک مارئی آزادی روح کی ایک علامت ہے ۔ صوفیاء کے نزدیک ایک سچے عاشق الہی کی علامت ہے اور امر کوٹ کے محل کی رنگینی دنیا ہے اور ملیر مراجعت کی طرف اشارہ ہے۔
شاہ لطیف کی سرمارئی میں اس قدر تنوع اور وسعت ہے کہ ان کے کلام سے مختلف قسم کے معانی اور مفاہیم کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی ذہنی استعداد، فطری میلان اور سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت مارئی کی علامتی تفہیم و تعبیر کی ہے۔
ان تمام تعبیرات سے الگ مارئی کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے والدین، شوہر، گھر اور مارو لوگوں کی لوئی کی لاج رکھتی ہے اور دولت اور شاہی محلات کی رونقوں کو پسِ پشت ڈال کر کردار کی پختگی کی علامت ہے۔ یہاں مارئی نہ تو وطن کی محبت کی علامت ہے اور نہ ہی وصال کل اور وجودِ حقیقی کی طرف مراجعت کی علامت ہے بلکہ ایک روایتی سماج میں عورت کے باوقار کردار اور تقدیش مشرق کی علامت ہے۔ سر مارئی کے ایک بیت میں مارئی کہتی ہے۔
“اے سردار مجھے غلط کام کے لیے مجبور مت کرو مجھے آج نہیں تو کل اپنے لوگوں کے پاس ملیر جانا ہے ایسا نہ ہو کہ وہاں سر اٹھانے کے قابل نہ رہوں”
ایک اور بیت میں کہتی ہے ” چرواہوں کی بیٹاں ہر گز ریشم نہیں پہنتی ہماری سادہ لوئیاں تمھاری قیمتی شالوں سے بہتر ہیں۔ میرے لیے تمھارے سرخ لباس سے اپنی کھردری چادر زیادہ قیمتی ہے جو میرے غریب ماروں نے اوڑھائی تھی وہ اتر گئی تو میں شرم سے مر جاؤں گی”
اس کے برعکس تھر کا قبیلہ مارو موجود سماج کی اس اجتماعی سوچ کا ترجمان ہے جس کے مطابق عورت مخلوط نظام تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں اپنے جسم کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ جس کے نتیجہ میں پڑھی لکھی خواتین کی شادی کے لیے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مخلوط تعلیمی اداروں کی بجائے خواتین کالجز اور یونیورسٹیز یا مدارس میں پڑھنے والی لڑکیوں کے بارے تشویش کا اظہار کم ملتا ہے۔ مارئی ایک ایسا کردار ہے جو برقع، اور روایتی پردہ نہیں کرتی اور ایک عرصہ سومرو کے قبضے میں رہ کر اپنے قبیلے کی لوئی کی لاج رکھتی ہے۔
عمر، مارئی اور مارو قبیلہ موجودہ سماجی تناظر میں تین مختلف گروہوں کی علامتیں ہیں۔ دور حاضر کے ایک سروے کے مطابق پاک و ہند میں طلاق کی شرح پڑھی لکھی خواتین میں بہت زیادہ ہے۔ اگر غور کریں تو اس کے پیچھے موجودہ طبقاتی تقسیم، مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کے بارے مارو قبیلہ کی اجتماعی سوچ ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی عورتوں کے بارے ویسے ہی خلشات جنم لیتے ہیں۔ اور شادی کے لیے انھیں معاملات پر پرکھ کی جاتی ہے۔ عورت کو اپنی عصمت کی گواہی دینے کے لیے نہ جانے کتنے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں یا تو عورت کی شادی نہیں ہو رہی اور اکثریت کا شادی کے بعد بریک اپ ہو جاتا ہے یا پھر متعدد نفسیاتی عوارض اور ازدواجی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ موجودہ ثقافتی اور سماجی رویوں پر مارئی کا عصمت کی گواہی کے لیے انگاروں پر چلنا اور پھر کھیت سین کے اندر خلشات محسوس کرنے کے بعد مر جانا قدیم سندھی قبائل کی روایات اور موجودہ دور کے سماجی اور نفسیاتی معیارات اور مفروضات میں گہری مماثلت ہے ۔ مارئی کا کردار عورت کے اعتماد اور تقدیسِ مشرق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قصہ عمر مارئی کی نئی کولیجکل تفہیم اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ بدلتے ہوئے ثقافتی اور سماجی رحجانات کے اندر اس مجموعی سوچ کے زاویے بدلنے میں آسانی ہو۔
لیوس اسٹراس کی وضع کردہ اصطلاح بری کولاج ( Bricolage ) کو بغیر ترجمہ ہر زبان میں اسی طرح استعمال کیا گیا ہے ۔ بری کولاج سے مراد موقع و محل کے مطابق دستیاب شدہ مواد کو کسی مقصد کے تحت کام میں لانا ہے۔ لیوس اسٹراس نے اساطیر اور قدیم قصوں کے بارے یہ اصطلاح وضع کی تھی۔ ان کے نزدیک قصہ گو یا زبانی روایت کہنے والے کی نفسیات کے تحت اور موقع و محل یا زمانے کی ضرورتوں کے مطابق کہانی اپنے قالب بدلتی رہتی ہے اور ہر عہد کی تقافتی روح قصوں میں رنگ آمیزی کرتی رہتی ہے۔ قصہ گو کی طبیعت، فطری میلان، نقطہ نظر اور ثقافت و سماج کی مخصوص فضا کے تقاضے روایتی حیثیت کو متاثر اور متعین کرتے ہیں۔ لیکن جب ایک قصہ تحریری روپ اختیار کر لیتا ہے تو وہ نظریاتی بحث کا موضوع بن جاتا ہے۔
سندھ کے قدیم قصہ عمر مارئی کی بھی عہد بہ عہد بری کولیجکل تعبیر ہوتی رہی ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی سے قبل بنیادی پلاٹ کے علاوہ اس قصے کے انجام پر بھی سندھ کی قبائلی ثقافت کے اثرات نظر آتے ہیں۔ جو اس عہد کی ثقافتی روح کی اثر پذیری ہے۔ اس کے علاوہ ہر قصہ گو نے اپنی زبانی روایت کے ذریعے سیاسی اور سماجی تقاضوں کے قصے کو پیش کیا۔
یہ بھی پڑھئے:
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز عدل کا ایک استعارہ
عالم تمام حلقہء دامِ جمال ہے
عمر مارئی کا قصہ سندھ میں قدیم دور سے رائج ہے اور سومرہ دور حکومت میں وقوع پذیر ہوا۔ سمہ دور حکومت میں علاقائی گائیکوں اور گلی محلوں کے تذکروں سے مشہور ہوا۔ گائیک جس راگ میں اسے گاتے تھے اسے راگ مارئی کہتے ہیں۔ گائیکوں اور تذکرہ گویوں نے اپنے فطری میلان اور نفسیاتی حالتوں کے تحت عمر مارئی قصے میں انحراف اور تغیر بھی پیدا کیے۔ تاریخ طاہری کے مطابق سندھ کے حاکم مرزا جانی بیگ کو اکبر بادشاہ نے دربار میں مدعو کیا تو جانی بیگ کے گائیکوں نے سر مارئی میں یہ قصہ گا کر سنایا تھا۔ سندھی شاعری میں شاہ لطیف پہلے شاعر ہیں جنھوں نے مارئی کے بیت کہے تھے اور روایت اس طرح ہے کہ شاہ عنایت نے ہی شاہ عبداللطیف بھٹائی مارئی کے ابیات کہنے کا شوق ڈالا تھا۔
یہ قصہ تھر کے ایک مارو قبیلے کی خوب صورت دوشیزہ مارئی کا ہے جس کے حسن کی شہرت قرب و جوار میں پھیلی ہوئی تھی۔ تھر کا بادشاہ عمر مارئی کے حسن کی تعریف سن کر اس کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے اور مارو قبیلے کی مجسمہ حسن مارئی کو کنویں سے پانی بھرتے ہوئے اٹھا کر امر کوٹ لے جاتا ہے۔ عمر نے مارئی سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو مارئی کا انکار ملا۔ جس کے ردعمل میں مارئی کو قید کردیا اور طرح طرح کی اذیتیں دی گئی۔ لیکن ہر طرح کی اذیت اور ہر قسم کا حربہ مارئی کے انکار کو اقرار میں بدلنے میں ناکام ہوا تو عمر مارئی کو بہن بنا کر بہ حفاظت اور عزت و احترام کے ساتھ مارو قبیلے کے حوالے کردیتا ہے۔ مارو قبیلے کے افراد مارئی کے کردار پر شک کرتے ہوئے اسے ناپاک قرار دیتے ہیں۔ مارئی کو اپنی عصمت اور پاکی کی خاطر ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ بعدازاں کھیت سین جس کے ساتھ مارئی کا رشتہ طے ہو چکا ہوتا ہے بیاہ دی جاتی ہے۔ یکن ایک رات جب مارئی کھیت سین سے اپنی عصمت کے بارے سوال پوچھتی ہے تو کھیت سین کے اندر خلش موجود پاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق مارئی کا سانس رک جاتا ہے اور وہی مر جاتی ہے۔ لیکن انجام کے بارے روایتوں میں اختلاف ہے مگر مارئی کا انجام کچھ بہتر کہیں بھی نہیں۔
مقصد یہاں قصہ سنانا نہیں بلکہ قصہ میں بری کولیجیکیشن اور مارئی کی علامتی تفہیم کے حوالے سے کولیجیکل عمل کے ذریعے تفہیم پر نظر ثانی کرنا ہے ۔ ایک طرف تو سندھی روایات اور قبائل کی رسومات کے جا بجا حوالے ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مارئی کے انجام کے بارے کوئی مستند روایت نہیں ملتی۔ اس سارے کے درون عورت کی عظمت اور ایک باوقار پہچان کی علامت سامنے آتی ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالہ شاہ جو کے سر مارئی کے بعد جب تحریری روپ سامنے آیا تو قصہ کی ساخت کی بجائے نظریاتی مباحث کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ ہر ایک نے مختلف مقاصد اور نظریات کے تحت تعبیرو تشریح کی۔ شاہ لطیف کے سر مارئی کو عمومی طور پر حب الوطنی کا سر کہا جاتا ہے اور مارئی وطن کی محبت کی علامت ہے۔ ایک خیال کے مطابق مارئی اس سندھ کی علامت ہے جو زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی اور اپنوں کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ ایک خیال کے مطابق ایک عام سندھی فرد کی علامت ہے جو سب ہی غلام تھے اور ظالم حکمران کے جبر کا شکار تھے۔ کسی نے کہا مارئی طبقاتی سماج اور اس کے جبر کی نفی ہے۔ بعض کے نزدیک مارئی آزادی روح کی ایک علامت ہے ۔ صوفیاء کے نزدیک ایک سچے عاشق الہی کی علامت ہے اور امر کوٹ کے محل کی رنگینی دنیا ہے اور ملیر مراجعت کی طرف اشارہ ہے۔
شاہ لطیف کی سرمارئی میں اس قدر تنوع اور وسعت ہے کہ ان کے کلام سے مختلف قسم کے معانی اور مفاہیم کشید کیے جا سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایک نے اپنی ذہنی استعداد، فطری میلان اور سیاسی و سماجی ضرورتوں کے تحت مارئی کی علامتی تفہیم و تعبیر کی ہے۔
ان تمام تعبیرات سے الگ مارئی کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو اپنے والدین، شوہر، گھر اور مارو لوگوں کی لوئی کی لاج رکھتی ہے اور دولت اور شاہی محلات کی رونقوں کو پسِ پشت ڈال کر کردار کی پختگی کی علامت ہے۔ یہاں مارئی نہ تو وطن کی محبت کی علامت ہے اور نہ ہی وصال کل اور وجودِ حقیقی کی طرف مراجعت کی علامت ہے بلکہ ایک روایتی سماج میں عورت کے باوقار کردار اور تقدیش مشرق کی علامت ہے۔ سر مارئی کے ایک بیت میں مارئی کہتی ہے۔
“اے سردار مجھے غلط کام کے لیے مجبور مت کرو مجھے آج نہیں تو کل اپنے لوگوں کے پاس ملیر جانا ہے ایسا نہ ہو کہ وہاں سر اٹھانے کے قابل نہ رہوں”
ایک اور بیت میں کہتی ہے ” چرواہوں کی بیٹاں ہر گز ریشم نہیں پہنتی ہماری سادہ لوئیاں تمھاری قیمتی شالوں سے بہتر ہیں۔ میرے لیے تمھارے سرخ لباس سے اپنی کھردری چادر زیادہ قیمتی ہے جو میرے غریب ماروں نے اوڑھائی تھی وہ اتر گئی تو میں شرم سے مر جاؤں گی”
اس کے برعکس تھر کا قبیلہ مارو موجود سماج کی اس اجتماعی سوچ کا ترجمان ہے جس کے مطابق عورت مخلوط نظام تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں اپنے جسم کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ جس کے نتیجہ میں پڑھی لکھی خواتین کی شادی کے لیے بہت سے سوالات ابھرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مخلوط تعلیمی اداروں کی بجائے خواتین کالجز اور یونیورسٹیز یا مدارس میں پڑھنے والی لڑکیوں کے بارے تشویش کا اظہار کم ملتا ہے۔ مارئی ایک ایسا کردار ہے جو برقع، اور روایتی پردہ نہیں کرتی اور ایک عرصہ سومرو کے قبضے میں رہ کر اپنے قبیلے کی لوئی کی لاج رکھتی ہے۔
عمر، مارئی اور مارو قبیلہ موجودہ سماجی تناظر میں تین مختلف گروہوں کی علامتیں ہیں۔ دور حاضر کے ایک سروے کے مطابق پاک و ہند میں طلاق کی شرح پڑھی لکھی خواتین میں بہت زیادہ ہے۔ اگر غور کریں تو اس کے پیچھے موجودہ طبقاتی تقسیم، مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی خواتین کے بارے مارو قبیلہ کی اجتماعی سوچ ہے۔ صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مخلوط تعلیم اور مخلوط شعبہ جات میں کام کرنے والی عورتوں کے بارے ویسے ہی خلشات جنم لیتے ہیں۔ اور شادی کے لیے انھیں معاملات پر پرکھ کی جاتی ہے۔ عورت کو اپنی عصمت کی گواہی دینے کے لیے نہ جانے کتنے امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں یا تو عورت کی شادی نہیں ہو رہی اور اکثریت کا شادی کے بعد بریک اپ ہو جاتا ہے یا پھر متعدد نفسیاتی عوارض اور ازدواجی مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ موجودہ ثقافتی اور سماجی رویوں پر مارئی کا عصمت کی گواہی کے لیے انگاروں پر چلنا اور پھر کھیت سین کے اندر خلشات محسوس کرنے کے بعد مر جانا قدیم سندھی قبائل کی روایات اور موجودہ دور کے سماجی اور نفسیاتی معیارات اور مفروضات میں گہری مماثلت ہے ۔ مارئی کا کردار عورت کے اعتماد اور تقدیسِ مشرق کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور قصہ عمر مارئی کی نئی کولیجکل تفہیم اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ بدلتے ہوئے ثقافتی اور سماجی رحجانات کے اندر اس مجموعی سوچ کے زاویے بدلنے میں آسانی ہو۔