آج ہمیں کوسوو میں آئے ہوئے تیسرا دن تھا۔پولیس ٹریننگ سکول پرسٹینا میں ابتدائی تربیت کے لیکچرز ہورہے تھے۔ صبح نو بجے سے لیکرتین بجے تک مسلسل تھکا دینے والے اس شیڈول میں ھم کسی کوہلو کے بیل کی مانند جتے ہوئے تھے۔ہر 45 منٹ کے بعد اقوام متحدہ کی کسی یونٹ کا کوئی انسٹریکٹر آ ن وارد ہوتا اور کوسوو کے ملکی قوانین سے لیکر خطہ بلقان کے رسوم و رواج، سیاسی اور سماجی حالات، پولیس کے فرائض منصبی، اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں اور درپیش خطرات سے ا ٓگاہی دینے لگ جاتا۔
آج کلاس روم میں پہنچتے ہی کورس کوارڈینیٹر نے بتایا کہ موضوع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ٹریننگ یونٹ کے امریکی سربراہ خود یہ لیکچر دینے آیئں گے۔پورے نو بجے مائیکل شانزے ایک فرانسیسی خاتوں پولیس آفیسر کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئے اور آتے ہی اپنے ہاتھوں میں پکڑے کتابچے ہم میں تقسیم کرنا شروع کر دیئے۔ نیلے رنگ کے ان کتابچوں پر بڑے بڑے جلی حروف میں آف لیمٹس(OFF LIMITS) کے الفاظ تحریر تھے۔اپنے ہاتھ میں ایک کتابچہ ہوا میں لہراتے ہوئے انسٹرکٹر نے تین مرتبہ۔ آف لیمٹس۔۔۔۔۔۔۔۔ آف لیمٹس۔۔۔۔۔۔۔ آف لیمٹس۔۔۔۔۔۔ کچھ اس انداز اور اس شدت سے پکارا گویا یہ چاہتا ہو کہ یہ الفاظ محض سماعتوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ ھمارے دل اور ذہن کے شعوری اور لاشعوری نہاں خانوں میں جا گزیں ہو جائیں۔
ہمیں ہمہ تن متوجہ پا کر سوال داغ دیا کہ آ پ جانتے ہیں کے یہ آف لیمٹس کیا ہیں؟اور کسی جواب کا انتظار کیئے بغیرخود ہی بولنے لگا کہ اقوام متحدہ کا کوئی بھی فوجی، کوئی بھی پولیس آفیسر، کوئی سویلین یا کوئی بھی افسر شاہی کا نمائندہ ان دو سو سے زائد مقامات میں سے کسی پر اگرموجود پایا گیا تو اگلی ہی فلائٹ سے نہ صرف ملک بدر کر دیا جائے گا بلکہ اس کے ملک کو اس کے خلاف کارروائی کی بھی سفارش کی جائے گی۔ ایک لمحے کے لئے کمرے میں مکمل خاموشی تھی ہر کوئی اس کتابچے کی ورق گردانی میں مصروف تھا جس میں کوسوو کے دو اڑھائی سو مختلف مقامات کے نام تحریر کئے گئے تھے۔ ہورز آف وار۔۔۔۔۔۔ ہورز آف وار۔۔۔۔۔۔ انسٹرکٹرنے اس اگلی گردان سے ہمیں مزید حیرت میں ڈالتے ہوئے بوسنیا اور بلقان BALKANS میں جاری جنگ کے ایک چونکا دینے والے رخ کو بے نقاب کرنا شروع کر دیا ۔
مہذب اور روشن خیال دنیا کے تاریک باطن سے پردہ کشائی کرتے ہوئے بتانے لگا کہ جنگ زدہ اس علاقے میں جسم فروشی اور انسانی سمگلنگ زرمبادلہ کمانے کی ایک بہت بڑی صنعت کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔ کوسوو کی ان سوختہ بخت حوا زادیوں کو خوبصورت مستقبل کے سنہرے خواب دکھا کر اٹلی ہالینڈ اور برطانیہ سمگل کیا جاتا۔ بعض حرماں نصیبوں کو طویل مدت بعد ہی پتہ چلتا کہ جن نائٹ کلبوں کے تنگ و تاریک کمروں میں وہ جسم فروشی پر مجبور ہیں وہ برطانیہ یا ہالینڈ کے خوابوں کی جنت نہیں بلکہ ان کے اپنے گھروں سے کچھ دور کوسوو ہی کے کسی شہر میں واقع ہیں
ان کے علاوہ اغوا شدہ مشرقی یورپ کی مفلوک الحال عورتوں کوبھی براستہ یونان GREECE مقدونیہ MACEDONIA سے ملازمت کا جھانسہ دے کر یہاں لایا جاتا ہے جن کی اکثریت کم سن لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ انسٹرکٹر کے مطابق ہر سال پونے دو لاکھ عورتیں مشرقی یورپ اور روس سے سمگل ہو کر یورپ پہنچتی ہیں۔البانوی مسلمان اور سرب عیسائی جو عام حالات میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس کاروبار میں باہم حلیف، حصےدار اور رفیق ہیں۔اس قصے کا سب سے شرمناک پہلو یہ تھا کہ بین الاقوامی افسر شاہی، پولیس اور فوج سبھی اس تجارت میں ملوث تھے۔ ہماری آمد سے کچھ ہی دن پہلے سرد جنگ کے متحارب حریف روس اور امریکہ کے بہادر فوجی ہوس پرستی کے مشترکہ محاذ پر مردانگی کے جوہر دکھا تے ہوئے پکڑے گئے تھے۔
مہذب ممالک کے کچھ افسرتو براہ راست اس خرید و فروخت میں شامل تھے جو ان مشرقی یورپیئن لڑکیوں کو فوجی وردیاں پہنا کر امن فوج کے افسروں کے روپ میں یورپ کے اس حصے میں لاتے ۔پھر سمگل کی گئی ان عورتوں کے پاسپورٹ ضبط کر لئے جاتے اورانہیں بھیڑ بکریوں کی طرح تنگ و تاریک کمروں میں بند کر دیا جاتا۔ جہاں انہیں ایک دن میں بعض اوقات محض چائے کا کپ اورایک برگر کھانے کو دیا جاتا۔ کوسوو میں بین الاقوامی فوج کی تعیناتی کے بعد ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان واقعات میں کوئی کمی آتی لیکن اس کے برعکس بین الاقوامی پولیس اور کے فور KFOR (افواج مغرب) سے وابستہ افسران کی وجہ سے جسم فروشی کا یہ مکروہ دھندا الٹا زور پکڑ گیا۔
ہوس پرست خریداروں کی سکوپیا SKOPJE کی مال مویشوں جیسی خرید و فروخت کی منڈیوں سے باقائدہ نیلامی میں تین چار سو یورو میں خریدی گئی لڑکیاں کوسوو میں تین ہزار یورو تک فروخت ہوتیں۔آٹھ آٹھ سال کی بچیوں کو بھاگنے اور عدالت میں بیان دینے کی پاداش میں زندہ تک جلادیا گیا۔میری اگلی سیٹ پر بیٹھا ایک جرمن پولیس افسر سوال کرنے یا اپنی رائے کے اظہار کے لیئے بار بار ہاتھ اٹھا رہا تھا۔امریکی انسٹرکٹر اپنی بات کو ادھورا چھوڑتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ کیتھرائن بولکووک ۔۔۔۔KATHRYN BOLKOVAC۔۔۔ جرمن آفیسر کے لیئے گئے اس نام نے امریکی انسٹرکٹر کو تھوڑا پریشان کر دیا تھا اور اس کے چہرے پر خفت کے آثار نمایاں تھے۔۔۔اچھا تو آپ نے کیتھرائن بولکووک کا نام سن رکھا ہے۔ یہ امریکہ کی وہ خاتون پولیس آفیسرتھی جو اقوام متحدہ میں فرائض سر انجام دے رہی تھی اور جسے بوسنیا میں جنسی غلامی اور انسانی تجارت کی نشاندہی پر نوکری سے ہی نکال دیا گیا تھا۔
امریکن سکیورٹی کمپنی ڈیموکرا سکیورٹی DEMOCRA SECURITY کے اہل کار عورتوں کی مشرقی یورپ میں تجارت میں براہ راست ملوث تھے۔(2010 میں کیتھرائن بولکووک کے اس جرات آموزاقدام پرنہ صرف وسل بلور WHISTLEBLOWER نام کی ایک فلم بھی بنائی گئی بلکہ 2015 کے نوبل امن انعام کے لیئے نامزد بھی ہوئی) ۔ یہ غاروں میں رہنے والے انسان کی کہانیاں نہ تھیں بلکہ عہد جدید کے سب سے روشن خطے کی سچی داستانیں اورجنگوں کا لازمی نتیجہ ۔۔۔۔۔۔ جنگیں جہاں ماوں کے کلیجوں کی قاشیں اور مہپارہ جوانوں کی لاشیں دیا کرتی ہیں وہیں اس طبل جنگ کی دھمک میں بیواوں اور معصوم یتیموں کی آہیں اور سسکیاں غلطیدہ ہو ا کرتی ہیں۔
ویت نام میں امریکی فوج کی موجودگی کے دوران مشرق بعید میں اس انسانی جسموں کے اس گھناءونے کاروبار کو وہ فروغ حاصل ہواتھا کہ آج بھی اس خطے کی واحد شناخت بنکاک اور تھائی لینڈ میں لگنے والی جنسی غلامی اور انسانی جسموں کی منڈیاں ہی رہ گئی ھیں۔ کوسوو (2006-2007)سے مشرقی تیمور ( 2010-2011) اور جنوبی سوڈان سے لیکر ڈارفر (2013-2014) تک اقوام متحدہ کی امن پولیس میں اپنی تعیناتی کے دوران میں نے جنگوں کے ان المناک لازمی نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل ، ایسوسی ایٹڈ پریس اور اقوام متحدہ کی خود اپنی انکوائری رپورٹس بھی ہیٹی میں چھوٹے بچوں کے جنسی استحصال کی پردہ پوشی نہ کرسکیں جہاں معصوم بچوں سے محض چند روپوں کے عوض یہ کریہہ دھندہ کروانے والوں میں سری لنکا کے فوجی براہ راست ملوث تھے۔ کمبوڈیا، موزمبیق، برونڈی، گبون، سنٹرل افریقن ریپبلک کوئی ایک امن مشن بھی اس بدنما داغ سے بچ نہیں سکا ۔ فرانس کے ایک ملٹری کمانڈر کو سنٹرل افریقن ریپبلک میں چار کم عمر بچیوں کو رسی سے باندھ کر اپنے کتے سے جنسی تشدد کے الزامات پر انکوائری کا سامنا رہا۔ با دل اندوہ بیں اور با چشم خونبار مہذب اقوام کی تیرہ باطنی کے پردے چاک ہوتے دیکھ کر اور میرا دھیان جانے کیوں صدیوں پہلے کے ایک قبائلی معاشرے میں امن و سلامتی کے پیام بر ﷺ پرمسلط کی گئی پے درپے جنگوں کی طرف چلا جاتا کہ پچیس سے پچاس سال کی عمر تک اپنی بھرپور جوانی کے دوران ایک ہی رفیقہ حیات کے ساتھ زندگی گزارنے والے اس امیؐ شہزادے کو ہجرت کے دوسرے ہی سال محض پہلی دو ہی جنگوں میں پچاسی رفقا کی شہادت اور سات سال کی قلیل مدت میں 74 غزوات اور دیگر جنگی معرکوں کا سامنا کرنا پڑا۔
جنگ احد میں شہادتوں کے بعد وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ (النسا آیت ۳) کے پیچھے محرک اور مقصد شاید ان ہی بیواوں کی معاشرے میں آبرومندانہ قبولیت اوران معصوم یتیموں کی کفالت تھا۔ تعدد ازدواج کا سماعت شکن واویلا بپا کرنے والے، فکری جزام میں مبتلا ولیم میوروں اور سلمان رشدیوں کی کوڑھ زدہ خرد کوانسانی جسموں کی یہ منڈیاں کیوں نظرنہیں آتیں ۔ نظری یرقان اور نفسیاتی افلاس کے اسیر طارق فتحوں اور تسلیمہ نسرینیں کواگرکچھ دیکھائی پڑتا ہے تو اس دین میں غلامی کا تصور جس نے دین کی تعریف ہی فَكُّ رَقَبَةٍ (بلد آیت ۱۳) یعنی نوع انسانی کی گردن کو غلامی سے چھڑانا قرار دیا تھا
تھامس جیفرسن کی ضمانت انسانی حقوق اور ابراہم لنکن کے انسداد غلامی کے اعلانات کا بوجھ اٹھائے، ہزار ہا صدیوں کے کشت و خون کے بعد بھی جمیعت اقوام LEAGUE OF NATIONS اور اقوام متحدہ UNITED NATIONS کے عالی دماغ آج بھی چلڈرن آف وارز CHILDREN OF WARS کو ہورز آف وار WHORES OF WARS میں تبدیل ہونے سے نہیں بچا سکے۔اس جہان رنگ و بو میں انسانیت اپنے اس درد کے درماں اور بے چین روح کے قرار کی آرزو لیے تجر بات کی سنگلاخ چٹانوں سے سر پٹختی آج بھی مصطفٰےؐ کے سایہ رحمت کی تلاش میں سر گرداں ہے۔
ھر کجا بینی جہان رنگ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورمصطفٰے او ر ا بہا ست
یا ھنوز اندر تلاش مصطفٰے است
(اسداللہ خان غالب)