پاکستان میں بقرعید کے مزے، رونقیں اور گہما گہمی کچھ الگ ہی ہوتی ہے- بقرعید سے کچھ دن پہلے شہروں میں مختلف مقامات پر منڈیاں سج جاتی ہیں اور نوجوان لڑکوں اور شوقین مزاج لوگوں کا سب سے بہترین مشغلہ منڈی کی سیر ہوتا ہے-
باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ نوجوان اور مرد حضرات خالی گاڑیوں میں جیبیں بھر کر منڈی جاتے ہیں اور گاڑیوں میں جانوروں کی خریداری کے ساتھ خالی جیب یہ گنگناتے ہوئے واپس آتے ہیں-
دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے”
جب یہ پرجوش نوجوان واپس آتے ہیں تو حال حلیے کی وجہ سے قربانی کے لیے لائے گئے جانور اور خود ان میں تفریق کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے- اس لیے کہ جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے انصب کون ہے تو جواب آتا ہے….
“میں… میں… میںں”
اب خود سوچیں پہچاننا تو مشکل ہوگیا نا.. کیونکہ گاڑی میں سے “اُتارے” ہوئے بکرے اور “اُترے” ہوئے انصب دونوں ہی” میں میں” کر رہے ہوتے ہیں-
اس سب میں مویشی منڈی اور اس کی رونقیں ایک الگ ہی دنیا ہے جس کی تفصیل میں جا کر واپسی جلد ممکن نہ ہو سکےگی اس لیے بس جلدی سے ان جانوروں کو لے کر اپنے محلے میں پہنچ جاتے ہیں کیونکہ وہاں بچوں کا ایک جمِ غفیر ڈھول تاشوں کے ساتھ ہر آنے والے مویشی کا استقبال کرنے گاڑی کے پیچھے دوڑ لگانے تیار ہوتا ہے- گزشتہ کچھ سالوں سے، یہاں پر قربانی کے لیے لائے گئے جانور کا استقبال بچے ” اوئے ہوئے… ہوئے ہوئے ” کی آوازیں نکال کر کرتے ہیں اور اب یہ آوازیں باقاعدہ برانڈ سگنل بن چکی ہیں اور دوسرے بچوں کو اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ لائے گئے جانور کو بِدکانے کا کام بھی کر رہی ہوتی ہیں- کٹی ہوئی پتنگ کی طرح بِدکے ہوئے جانور کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے بھاگنا بھی ان بچوں کے لیے ایک انوکھا کھیل ہوتا ہے جس کے لیے یہ بچے سارا سال بقرعید کا انتظار کرتے ہیں-
اس کے برعکس اگر کوئی گھر کی پلی ہوئی معصوم گائے شرافت کے ساتھ گاڑی سے اتر کر خود ہی ہتھیار ڈالتے ہوئے سر جھکا کر کھڑی ہو جائے تو یہ سب شرارتی بچے اگلے جانور کا استقبال کرنے یہ کہتے ہوئے آگے بھاگ جاتے ہیں کہ مزا نہیں آیا چلو دوسری گلی میں دوسرے جانور کو اترتے ہوئے دیکھتے ہیں- واضح رہے کہ گلی کا تعین آنے والی آوازوں سے بغیر اندازے کی غلطی کے بالکل درست ہوتا ہے-
خیر سے اتارے جانے کے بعد اصل مرحلہ شروع ہوتا ہے اور اس مرحلے کو نمٹانے کی ذمہ داری گھر کے سب سے ناکارہ بچے کو دے دی جاتی ہے کیونکہ وہ یہ کام سب سے زیادہ ذمہ داری سے کر رہا ہوتا ہے- تو یہ مرحلہ ہوتا ہے قیمت بتانے کا کیونکہ ہر آنے جانے والا سب سے پہلا سوال یہی کرتا ہے-
ہاں بھئی کتنے کی لی؟؟؟
پوچھنے والا اگر تھوڑا دلیر بھی ہو تو تھوڑی ہمت کر کے گائے کی پشت پر ہاتھ پھیر لیتا ہے اور بکرا ہو تو ایک زوردار تھپکی بھی مار دیتا ہے اور نکلنے والے گوشت کا اندازہ لگاتا ہے کہ کتنے من گوشت نکلے گا-
اب جواب دینے والا سینہ تان کر.
“ایک لاکھ چالیس ہزار”
واہ بھئی بہت مناسب مل گئی….
سینہ مزید چوڑا ہوجاتا ہے… اور ویلیو بڑھانے مزید انفارمیشن مہیا کی جاتی ہے-
پورے دو لاکھ مانگ رہا تھا مالک اس کا لیکن ہم نے کہا ایک چالیس سے ایک روپیہ اوپر نہیں.. دینا ہو تو دو ورنہ ہم آگے جائیں اور وہ مان گیا-
ارے واہ زبردست یار… زبردست جانور ہے!!!
پوچھنے والا گائے کی پشت پر ایک آدھ دفعہ اور ہاتھ پھیر کر اپنا راستہ لیتا ہے اور دل میں کہتا ہے نوے کی گائے کو ایک چالیس بتا رہا ہے… پاگل سمجھا ہوا ہے جیسے-
اسی طرح کچھ لوگ جانور کو دیکھ کر اس کے وزن کا اندازہ ایک ماہر کی طرح ایسے کرتے ہیں جیسے ان سے بڑا ریاضی دان کوئی نہیں جبکہ اسکول میں میٹرک کے امتحانات میں حساب کے پرچے میں استاد سے نظر بچا کر دوسرے کلاس فیلوز سے یہ پوچھتے پائے جاتے تھے کہ “ایک من میں کتنے کلو؟؟؟”
اور مرے پر سو دُرّے کہ کلاس فیلو بھی اس مشکل ترین سوال کے پرچے میں پوچھے جانے پر لاعلمی سے کندھے اچکا دیتا تھا-
کراچی میں بقرعید کے سب سے زیادہ مزے عید کے آخری تین دنوں میں ہوتے ہیں جب یہاں فیمیلیز کی فیمیلیز رات کے اوقات میں پورے اہتمام کے ساتھ ان جانوروں کا دیدار کرنے کے لیے گھروں سے نکلتی ہیں-
ماشاءاللہ بہت رونق رہتی ہے- گو کہ اس دفعہ کورونا نے ان رونقوں کو کسی حد تک متاثر تو کیا ہے لیکن پھر بھی مختلف جگہوں پر باقاعدہ انتظامات کے ساتھ لگے ہوئے، روشنیوں سے جگمگاتے ٹینٹ کے اطراف دیدار کے لیے آئے ہوئے لوگوں کا ایک جمِ غفیر دیکھا جا سکتا ہے-
اور کل جب ہم خود بھی ان تماش بہنوں میں منہ پر ماسک لگائے شامل تھے تو ان سب لوگوں کو دیکھ کر یہی سوچ رہے تھے
کون کورونا؟
کیسا کورونا؟
کہاں ہے کورونا؟؟؟
یقین کریں باقاعدہ میلہ سجا ہوا تھا- بڑے اور خوبصورت جانوروں کی کیٹ واک جاری تھی، ایک کونے پر غبارے والے بھی کھڑے تھے اور لوگوں کے لیے آئسکریم اور پاپ کارن تک کی ضیافت کا انتظام کیا گیا تھا- لیکن اپنے خرچے پر-
ہر طرف قربانی کے جانوروں کی خدمت ایسے جوش و خروش سے جاری ہے کہ بچوں کا بس چلے تو ان کو سب کچھ کھلا دیں- اکثر مائیں کچن سے مہینے کے سودے میں آئی ہوئی دالوں اور آٹے کی گمشدگی کا اعلان کرتے ہوئے پائی گئیں جو کہ بعد ازاں جانوروں کے چارے کے ٹب میں سے بچی کچھی حالت میں دریافت ہوا-
گائے راکڈ… اماں شاکڈ !!!
اس کے علاوہ وہ نوجوان جو موبائل فون پر اپنی بے تحاشہ “مصروفیات “کی بدولت ہفتے بھر بعد بھی نہانے کا دماغ بناتے ہیں اور پھر موبائل فون کی اسکرین پر نئے میسیج کا نوٹیفکیشن دیکھ کر اپنا ارادہ اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیتے ہیں، تو وہی نوجوان پائپ لگا کر ان گائے اور بکروں کو شیمپو لگا کر رگڑ رگڑ کر نہلاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں-
نہلانے دھلانے کے بعد گائے کی سجاوٹ کا مرحلہ بھی قابلِ ذکر ہے کیونکہ اس مرحلے میں گائے کی تاج پوشی کے ساتھ ساتھ اس کو پاؤں میں پائل اور گھنگھرو پہنا کر محلے میں ایسے کیٹ واک کرائی جاتی ہے کہ ان گھنگروؤں کی جھنکار سے برسوں پہلے دیکھی ہوئی مووی “امراؤ جان ادا”کی یاد آجاتی ہے-
اور وہ گانا ذہن میں گونجنا شروع ہو جاتا ہے کہ
موہے آئی نا جگ سے لاج
میں اتنا زور سے ناچی آج….
کہ گھنگھرو ٹوٹ گئے
تو جناب گھنگھرو تو ٹوٹیں گے ہی جب ان گایوں کی ریس لگانے کی غرض سے ان کے پیچھے “اوئے ہوئے… ہوئے ہوئے” کی آوازیں لگاتے ہوئے سو، دیڑھ سو بچے بھاگیں گے-
بے چاری گائے بھی سوچتی ہوگی کہ کل کی زبح ہوتی آج ہی ہو جاؤں، اس شرارتی ٹولے سے کیسے اپنی جان بچاؤں؟؟؟؟
تو دوستو!!! پاکستان میں تو عید کی تیاری، چھریوں کی گھسائی اور قصائیوں کی تلاش زور و شور سے جاری ہے اور اتنا مسکہ شاید رشتے والی آنٹی کو بھی نا لگایا گیا ہوگا جتنا ان قصائیوں کو لگایا جا رہا ہے- یہاں تو یہ حال ہے کہ قصائی جتنے اناڑی اتنے ہی ان کے ریٹس آسمان سے باتیں کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں-
خواتین کچن میں مصالحہ جات پیس کر اور چٹنیاں بنا کر پورے ہتھیاروں سے لیس ہیں کہ بس کلیجی بن کر آنے کی دیر ہوگی اور وہ کلیجی اور بوٹیوں پر مصالحے لگا کر اور اپنی مہارت دکھا کر گھر والوں سے داد وصول کریں گی-
مارکیٹ سے گوشت گلانے کا پاؤڈر تقریباً ناپید ہو چکا ہے کہ جن لوگوں کی کبھی خاندان میں بھی دال نہیں گلی وہ بھی اس بقرعید پر پوری جانفشانی سے گوشت پر تکہ بوٹی کا مصالحہ لگا کر گوشت گلانے کی کوشش کریں گے-
ویسے آپ کو ایک راز کی بات بتائیں کہ محلے والوں اور پڑوسیوں کے ہاں گھروں میں لگے پپیتے کے درختوں سے کچے پپیتے بھی غائب ہو گئے ہیں، کہیں پر تو اپنے تعلقات استعمال کر کے اور کہیں غلیل اور ڈنڈے استعمال کر کے-
اب اس مرحلے پر قلم کو روکتے ہیں کہ ابھی بھی بہت کچھ ہے جو شاید یہاں بیان نہیں کیا جاسکا ہے کیونکہ عید کا وقت ہے، کام بہت ہیں اور سب سے بڑھ کر ابھی ہمیں خود بھی اپنی چھریاں تیز کروانی ہیں جنہوں نے کچھ دن پہلے ہی گوشت پر احتجاجاً چلنے سے انکار کردیا تھا-
ہماری طرف سے تمام دوستوں کو دلی عید مبارک!!!
سلامت رہیں اور عید کی خوشیوں اور دعاؤں میں ایک دوسرے کو خصوصی طور پر یاد رکھیں-