ابھی کل ہی کی بات ہے کہ ایک محفل میں دیکھا کہ دو خواتین دو مختلف پرس لیے بیٹھی تھیں۔ ایک پرس تو سائز میں حصہ بقدر جثہ تھا یعنی اپنی مالکن کے سائز سے مطابقت رکھتا تھا۔ جب کہ دوسرا پرس نہایت منحنی اور معصوم سا تھا اور اپنی ہی مالکن پر گیا تھا۔ یعنی ایک پرس تو قحط کی یاد دلاتا تھا تو دوسرا پرس دیکھ کر قحط کی وجہ سمجھ آتی تھی۔ مردوں کے پرس تو عام طور پر جیبی سائز کے ہوتے ہیں اور اس کو عرف عام میں والیٹ کہا جاتا ہے۔
لہٰذا ہم پرس کو بنیادی طور پر دو بڑی اقسام میں بیان کرسکتے ہیں۔ زنانہ پرس اور مردانہ پرس۔
یوں تو مردانہ پرس کی بھی ہزاروں اقسام ہیں۔ اپنے رنگ کے اعتبار سے زیادہ تر کالا۔ براون اور مزید براون یعنی سرخی مائل میرون کلر۔ دوسرے ان پرسوں کو یا تو اصلی لیدر یعنی کسی جانور کی کھال سے بنایا جاتا ہے حالانکہ اس میں بے چارے جانور کا کیا قصور۔ یا پھر مصنوعی کھال سے بنایا جاتا ہے جسے عرف عام میں سینتھیٹک لیدر کہا جاتا ہے۔ مردانہ پرس میں کئی جیبیں ہوتی ہیں۔ جو مختلف اشیاء رکھنے کے کام آتی ہیں۔
مثلاً کرنسی نوٹ کی جیبیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ نوٹ کے سائز اور قیمت کے لحاظ سے۔ اسی طرح ہر طرح کے کارڈز رکھنے کیلیے الگ خانہ ہوتا ہے۔ جس میں کریڈٹ کارڈز۔ ڈیبٹ کارڈز۔ اے ٹی ایم کارڈز وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی خانے ہوتے ہیں جو دیگر کارڈز مثلاً شناختی کارڈز۔ ڈرائونگ لائسنس۔ میڈیکل کارڈز اور انشورنس کارڈز وغیرہ کے کام آتا ہے۔
اکثر پرسوں میں ایک بہت ہی اسٹائلش اور خوبصورت خانہ بھی ہوتاہے جو تصویر بتاں کے کام آتا ہے۔ جس کیلیے شاعر حضرات برسوں پہلے کہہ گئے ہیں کہ
چند تصویر بتاں اور چند حسینوں کے خطوط۔۔۔۔۔۔
بعد مرنے کے میرے گھر (پرس) سے یہ ساماں نکلا
اب پرس کی وجہ سے یہ سہولت اور آسانی ہوگئی ہے کہ پورا گھر نہی کھکھوڑنا پڑتا۔ اور مرحوم کے سارے کرتوت پرس سے ہی برآمد ہو جاتے ہیں۔
ان سب اشیاء کے علاوہ بھی حسب ضرورت بے شمار کاغز پتر۔ وزٹنگ کارڈز اور نہ جانے کیا کیا ان پرسوں سے برآمد ہوجاتا ہے۔ لہٰزا خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں پولیس کا کام بھی آسان ہوجاتا ہے اور وہ دور جانے اور تکلف میں پڑنے کی بجائے پہلی فرست میں موبائل اور پرس قابو کرتے ہیں۔ کیونکہ اب یہی دو چیزیں انسان کی رازداں ہیں۔ باقی سب تو کہانیاں ہیں۔
خواتین و حضرات۔ دل تھام کر بیٹھیں کہ اب ہم روشنائی ڈالیں گے خواتین کے پرس کے بارے میں۔ خواتین کے پرس کی اتنی اقسام ہیں کہ کیلکلوٹر بھی فیل ہوجائیں۔ کجا یہ کہ یہ ناچیز حقیر فقیر پر تقصیر اس کا احاطہ کر پائے۔
سب سے پہلے تو رنگوں پر گفتگو کرلیتے ہیں۔ اتنے رنگوں کے پرس پائے جاتے ہیں۔ کہ ان کے سامنے قوس وقزح کے رنگ۔ پھولوں کے رنگ اور کائنات میں بکھرے سارے رنگ بھی کم ہیں۔ اسی لیے شاعر نے کہا ہے کہ
۔۔۔وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اب خواتین کو یہ خوش فہمی ہے کہ شاید رنگ سے شاعر کا اشارہ خواتین کی طرف ہے حالانکہ سچی بات یہ ہے کہ شاعر کا اشارہ رنگا رنگ زنانہ پرسوں کی طرف ہے۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہے
جہاں تک پرس کے سائز کا تعلق ہے تو یہ بھی خواتین پر منحصر ہے۔ کبھی تو یہ پرس اتنا بڑا ہوتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمرو عیار کی زنمبیل ہے۔ اور اس میں سے ہر وہ شے برآمد ہو جاتی ہے جو صاحب پرس سے متعلق ہو۔ مثلاً سرخی پاوڈر اور میک اپ کا دیگر سامان۔ پان کا شوق رکھنے والی خواتین کے پرس سے ایک چھوٹا موٹا پاندان بھی برآمد ہوسکتا ہے۔ بعض اوقات ایک بڑے پرس کے بطن سے ایک چھوٹا پرس بھی نکل آتا ہے اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس چھوٹے پرس سے ایک اور ننھا منا سا پرس جسے بٹوہ کہہ سکتے ہیں۔ برآمد ہوتا ہے۔ یوں پرس در پرس ایک لمبی داستان ہے جس کو وہی سمجھ سکتا ہے کہ جو پیچ در پیچ عورت کو سمجھ لے۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کو سمجھنا محال است و جنوں است۔ اس کا تو لوگوں نے صرف دعویٰ ہی کیا ہے۔ ثبوت آج تک کوئی نہ دے سکا۔
آج کل تو خیر لباس اور چپل کی میچنگ کے پرس بھی بن رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ خواتین چھوٹے موٹے پرس جن کو بٹوہ کہنا مناسب ہوگا اور جو ہینڈ میڈ ہوتے تھے اور اکثر کپڑے سے بنے ہوتے تھے۔ جن کو رکھنا اور سنبھالنا بھی آسان تھا۔ اور جو باآسانی گریبانوں میں چھپائے جاسکتے تھے۔ اور جس کی وجہ سے غالب جیسے شاعر کو کہنا پڑا۔
۔۔۔۔ہائے اس چار گرہ کپڑے کی قسمت غالب۔۔۔
۔۔۔۔جس کی قسمت میں ہے محبوب کا گریباں ہونا
دراصل غالب کا اشارہ اسی پوشیدہ پرس کی طرف تھا۔ مگر لوگ نہ جانے کیا کیا تعبیریں پیش کرنے لگے۔ دراصل غالب کے اشعار کی حقیقت کو سمجھنا اور ان کی دوراندیشی کو پہنچنا ہر کس وناکس کے بس کی بات نہیں۔ اب جس بات کو غالب نے اتنی خوبصورتی اور پردہ پوشی کے ساتھ کہا ہے اسی بات کو آج کل کے ایک شاعر نے کھلم کھلا بغیر کسی جھجھک کے کچھ یوں کہا ہے۔
۔۔۔۔وہ الگ باندھ رکھا ہے جو مال اچھا ہے۔
اب اس سے کوئی کچھ اور مطلب نہ نکالے شاعر نے سیدھا سیدھا پرس کو مورد الزام ٹھیرایا ہے۔
آج کل تو برائیڈل سوٹ کی میچنگ کے پرس بھی بن رہے ہیں۔ اور ایک ایک پرس اتنا قیمتی ہے کہ اس کی قیمت میں کسی غریب بچی کا پورا جہیز تیار ہوسکتا ہے۔ ایسے پرس اکثر خطرناک بھی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ لٹیرے دور سے ہی تاڑ لیتے ہیں۔اور واردات کر بیٹھتے ہیں۔ اب اس میں بے چارے لٹیروں کا کیا قصور۔ پرس کی کشش ہی کافی ہے کسی کو پھنسانے کیلیے۔
پچھلے دنوں کچھ پارلیمنٹیرینز کے پرسوں کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ایک مقابلے کا سما تھا
۔۔۔کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا پرس تیرا
کئی کئی لاکھ کے پرس۔ کوئی پیرس سے خریدا گیا تو کوئی دبئی سے۔ تو کوئی لندن اور نیویارک سے۔ بہت سے پرس تو مختلف جانوروں کی کھال سے بنے ہوتے ہیں۔ مثلاً چیتے کی کھال۔ مگر مچھ کی کھال۔ سانپ کی کھال۔ یا پھر لومڑی کی کھال۔ اب یہ پرس بتاتے ہیں کہ پرس والے کی پسند اور نفسیات کیسی ہے۔ کیا اس کے اندر چیتے کی سے پھرتی ہے۔ یا مگر مچھ کے آنسو بہاتا ہے۔ یا پھر سانپ کی طرح زہریلا ہے۔ یا پھر لومڑی کی طرح چالاک و عیار ہے۔
ہمیں تو یہ سارے پرس انسان کی کھال کے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ ان پرسوں کی خریداری میں جو رقم لگی ہوتی ہے وہ ان ہی غریب عوام کی کھال کھینچ کر ان ہی کی حق حلال کی کمائ سے ٹیکس وصول کر کے ادا کی جاتی ہے۔ جن سے یہ اتنے قیمتی پرس خریدتے ہیں۔ ورنہ اپنی کمائ سے تو یہ واپڈا سے کروڑوں کے واجب ا لادا بلوں کی قسطیں کرالیتے ہیں۔ اور عوام کے سامنے اپنی نام نہاد غربت کا رونا روتے رہتے ہیں اور معصوم عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کے پر فریب نعروں میں الجھائے رکھتے ہیں۔
ہم تو حیران و پریشان تھے کہ یا اللہ جس ملک میں عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہی۔ جہاں لوگ اپنے دل کے ٹکڑے بیچنے پر مجبور ہیں۔ جہاں آئے دن لوگ بچوں سمیت خود کشیاں کررہے ہوں۔
وہاں ایسے ایسے لاکھوں کے پرس کہ جن کو دیکھ کر بے ساختہ دل پکار اٹھے کہ
۔۔ ہم ایسے کل پرس قابل ضبطی سمجھتے ہیں
۔۔ کہ جن کو دیکھ کر غریب آہیں بھرتے ہیں۔۔۔
میرے پیارے قارئین۔ دل چھوٹا نہ کریں۔ امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ ان شاء اللہ۔ بہت جلد ایسا وقتِ حساب آنے والا ہے کہ جب اتنے مہنگے مہنگے پرس رکھنے والوں سے باز پُرس ہوگی کہ خلق خدا بھوکی مررہی تھی اور تم لاکھوں کے پرسوں کی نمائش کر رہے تھے اور دوسروں کے سامنے اتراتے پھرتے تھے اور جتاتے پھرتے تھے کہ ہم نے یہ پرس پیرس سے خریدا ہے۔ اور عوام کے زخموں پر نمک پاشی کرتے تھے حالانکہ مہنگائی اور غربت کے مارے عوام اس کے باوجود تم کو ہار پھول سے لاد دیتے تھے۔ لیکن تمہیں عوام کا کوئی خیال ہی نہ تھا۔